آنکھیں
کہانی کی کہانی
یہ کہانی مغل شہنشاہ جہانگیر کی ہے، جس میں مغل سلطنت کی سیاست، بادشاہوں کی محفل اور ان محفلوں میں ملنے والوں کا تانتا ہے، انھیں ملنے والوں میں جہانگیر کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوتی ہے جس کی آنکھیں انھیں مسحور کر دیتی ہیں۔ صایمہ بیگم کی آنکھیں ایسی ہیں کہ دیکھنے والے کے دل و دماغ میں براہ راست پیوست ہو جاتی ہیں اور بادشاہ جہانگیر کے ذہن پر ہر وقت ان آنکھوں کا تصور چھایا رہتا ہے۔
طاؤس کی غمناک موسیقی چند لمحوں کے بعد رک جاتی ہے۔
’’سبحان اللہ۔۔۔ جہاں پناہ۔۔۔ سبحان اللہ۔‘‘
’’بیگم‘‘ (بھاری اور رنجورآواز میں )
’’جہاں پناہ۔۔۔ اگر ہندوستان کے شہنشاہ نہ ہوتے تو ایک عظیم مصنف، عظیم شاعر، عظیم مصور اور عظیم موسیقار ہوتے۔‘‘
’’یہ تعریف ہے یا غمگساری۔۔۔ بہرحال جو بھی ہے مابدولت کے بے قرار دل کو قرار عطا کرنے کی جسارت کرتی ہے۔‘‘
’’جہاں پناہ کی آنکھوں نے آج پھر نیند کو باریابی سے محروم رکھا؟‘‘
’’بیگم‘‘
’’نصیب دشمناں۔۔۔ کیا مزاج عالم پناہی۔‘‘
’’ہندوستان کے تخت پر جلوس کرناآسان ہے لیکن سچ بولنادشوار ہے۔ دشوار تر۔‘‘
’’نور جہاں بیگم کے سامنے بھی عالم پناہ!‘‘
’’بیگم‘‘
’’ظل الہی کو جو ارشاد فرمانا ہے وہ ارشاد فرمادیا جائے۔۔۔ پھر جلاد کو حکم دیا جائے کہ ہمارے کانوں میں پگھلا ہواسیسہ ڈال کر الفاظ پر مہریں لگادے۔‘‘
’’خوب۔۔۔ جوانی آنکھیں قبول کرچکی۔۔۔ بڑھاپا سماعت کو سولی چڑھادے۔‘‘
’’کنیز کچھ سمجھنے سے قاصر ہے۔‘‘
’’آپ کے نام کا سکہ روئے زمین کی سب سے شاندار سلطنت کے بازار کاچلن ہے۔ ہندوستان کی مہر حکومت آپ کی انگشت مبارک کی زینت ہے۔ زمانہ جانتا ہے کہ جہانگیر ایک جام کے عوض تاج ہندوستان آپ کو عطا کرچکا۔۔۔ لیکن یہ کون جانتا ہے کہ جہانگیر آج بھی اپنی محبت کی تکمیل کامحتاج ہے۔‘‘
’’ظل اللہ۔‘‘
’’پوری کائنات کو اپنے بازوؤں میں سمیٹ لینے والی محبت اس ایک چھوٹے سے لمحے کی محتاج ہوتی ہے جب عاشق اپنے سینے کا آخری راز محبوب کے سینے میں منتقل کردیتا ہے۔۔۔ آج کون سی رات ہے بیگم۔‘‘
’’شوال کی چودہویں عالم پناہ۔‘‘
’’بہت خوب۔۔۔ آج کی رات آسمان سے اس لیے اتاری گئی کہ مابدولت آپ کے سر پر تکمیل کی محبت کاتاج رکھ دیں۔‘‘
’’ظل الہی۔۔۔ کیا روئے زمین پر کوئی عورت ہے جس کے ہاتھ میں خاتم سلیمانی ہو اور سرپر محبت کا تاج؟‘‘
’’نور جہاں بیگم۔۔۔ رام رنگی کاایک جام بنائیے اور اس طرح ہونٹوں سے لگادیجیے کہ جام مابدولت کی آنکھوں سے دور رہے۔۔۔ ایک عمر ہونے کو آئی کہ جام میں آنکھیں نظر آرہی ہیں۔۔۔ وہی آنکھیں۔۔۔۔ وہ بے پناہ آنکھیں۔‘‘
’’جہاں پناہ طبیب شاہی کی مقرر کی ہوئی مقدار شراب۔۔۔‘‘
’’نوش فرماچکے! یہ کیسی شہنشاہی ہے کہ ایک ایک جام کو ترستی ہے۔۔۔؟‘‘
’’بیگم۔۔۔ ہماری محبت کے جشن تاجپوشی کے تصدق میں ایک جام عطا کردیجیے۔‘‘
’’اتنی عزت نہ دیجیے جہاں پناہ کہ نور جہاں اس بار عظیم کی متحمل نہ ہوسکے۔‘‘
(شراب ڈھالتی ہے۔۔۔ ایک ہی سانس میں جام خالی ہوجاتاہے )
’’بیگم!‘‘
’’کنیز ہمہ تن گوش ہے عالم پناہ۔‘‘
’’ایک مدت ہوئی کہ مابدولت زندہ تھے۔‘‘
’’ظل اللہ۔‘‘
’’جی ہاں بیگم۔۔۔ زندگی کا صرف ایک نام ہے۔ جوانی۔۔۔ اور سلیم کی جوانی دولت مغلیہ کے اولین صاحب عالم کی جوانی۔۔۔ فردوس مکانی بابر بارہ برس کی عمر میں بادشاہ ہوگیے۔ جنت مکانی ہمایوں میدان جنگ میں تلوار چلاتے ہوئے جوان ہوئے۔ عرش آشیانی (اکبر) اپنے داداجان کی طرح بارہ برس کی عمر میں تخت نشین ہوئے اور اکبر اعظم کی ولی عہدی سلیم کامقدر ہوئی۔۔۔ عرش آشیانی نے جب شراب پر پہرے بٹھادیے تو مابدولت کے جاں نثار اپنی بندوقوں کی نالیوں میں شراب بھر کر لاتے اور پیمانے لبریز کردیتے اور نظام ہضم بارود سے سینچی ہوئی شراب اس طرح ہضم کرلیتا جس طرح آج دوا کا پیالہ ہضم نہیں ہوتا۔ اس بے پناہ جوانی اور بے محابہ شہزادگی کااثر تاجداری پر طاری رہا۔۔۔ بیگم۔‘‘
’’عالم پناہ۔‘‘
’’یہ پردہ ہٹادیجیے۔۔۔ سنگ مرمر کی زیبائی چاندنی سے ہوتی ہے۔ آج کی رات کی چاندنی میں اگر مابدولت جوان ہوتے تو ساری رات آپ کے ہاتھوں سے پیمانے قبول کرتے رہتے۔‘‘
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’ہاں بیگم۔۔۔ دوسرا سال جلوس تھا۔ مابدولت مینا بازارمیں جلوہ افروز تھے کہ ایک لڑکی نے پان پیش کیے۔ گلوریوں کی نزاکت اور نفاست پسند خاطر ہوئی۔ ہاتھوں پر نظر پڑی تو اور ہی عالم نظر آیا جیسے نو رکے سانچے میں ڈھال دے گیے ہوں۔ نگاہ بلند ہوئی۔ معصوم وحشی آنکھوں میں ڈوب گئی اور محسوس ہوا جیسے اندر کہیں کوئی چیز ٹوٹ گئی۔ جب ہوش آیا تو وہ نگاہ نیچے کئے لرز رہی تھی اور دونوں ہاتھوں میں طشت کانپ رہا تھا۔ مابدولت گردن سے ہار اتار رہے تھے کہ اس کی آواز طلوع ہوئی جیسے کشمیر کے برف پوش پہاڑوں پر سورج کی کرن تڑپتی ہے۔‘‘
’’تحفہ درویش کی قیمت کیا عالم پناہ۔‘‘
’’بے شک تحفہ درویش قیمت سے بلند ہوتا ہے۔ یہ موتی اس نفاست اور نزاکت کی داد ہیں جو ان گلوریوں میں مجسم کردی گئی۔ ہم آگے بڑھے تو عرفان ہوا کہ ہم پیچھے رہ گئے۔ پہلی بار معلی ویران معلوم ہوا۔۔۔ اکبر اعظم کے جانشین کی بارگاہ خالی محسوس ہوئی۔ پہلی بار مابدولت کو غربت کاتجربہ ہوا۔ ایسی غربت جو دل کو مٹھی میں دبوچ کر ایک ایک قطرہ لہو نچوڑ لیتی ہے اور جب ہم نے چاہا کہ دل کی ویرانی کو شراب سے شاداب کرلیں تو پہلی بار انکشاف ہوا کہ شراب نشے سے عاری ہوچکی۔ دیر تک شیشے خالی ہوتے رہے لیکن دل کا خلا پر نہ ہوسکا۔‘‘
’’جہاں پناہ! کنیز نے اپنی کم فہمی کی بناپر قیاس کیا تھا کہ ظل الہی کا راز شاہزادہ خرم اور شاہزادہ شہریار کی آویزش سے متعلق ہوگا لیکن۔‘‘
’’خرم اور شہریار کی آویزش مغل تاجداروں کی روایت ہے۔ مغل سلطنت اس کا مقدر ہوتی ہے جس کی تقدیر کا مگار اور شمشیر آبدار ہوتی ہے۔ جب خسرو نے مابدولت کے منہ پر تلوار کھینچ لی تو خرم اور شہریار بہرحال۔‘‘
’’پھر جہاں پناہ۔‘‘
’’پھر مابدولت کے ہاتھ نے گھنٹہ بجادیا۔ چوبدار کے بجائے محرم خاں کورنش ادا کر رہاتھا۔ ابھی اس کی بے ادب حاضری پر غور فرماتھے کہ معروض ہوا، ’’پان پیش کرنے والی صاحبزادی کانام صائمہ خاتون ہے جو بخارا کے شیخ الاسلام کی پوتی اور جلوہ دارشیخ عرب کی بیٹی ہیں۔ ان کامکان عرب کی سرائے ہے۔‘‘
’’محرم خان۔‘‘
’’ظل الہی‘‘
’’یہ قیمتی معلومات کس کے حکم سے فراہم کی گئیں۔‘‘
’’زبان مبارک سے نازل ہونے والے احکامات کی تکمیل ہر بندہ درگاہ کا فرض ہے۔ لیکن محرم خاں جیسے مقرب بارگاہ کے منصب حق ہے کہ وہ عالم پناہ کے چشم وابر و زبان سمجھنے کی قدرت رکھتا ہو۔‘‘
’’جہانگیری چشم وابرو کی زبان سمجھنا ایک نادر علم ہے لیکن اس کا اظہار اس سے زیادہ نادر ہنر اور اس ہنر کا غلط استعمال بیداد کا مستوجب۔‘‘
’’خداوند۔‘‘
’’مابدولت نے تمہارا قصور معاف کیا اور حکم دیا کہ خلعت ہفت پارچہ مع زرد جواہر کے ساتھ نواب صائمہ بیگم کی خدمت میں حاضر ہو اور پیام دو کہ جشن سالگرہ میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کریں۔‘‘
’’ہرچند کہ ابھی رات کی زلف کہیں تک بھی نہ پہنچی تھی تاہم بے طرح انتظار فرماہوچکے تھے۔‘‘
’’کتنی خوش نصیب تھی صائمہ بیگم کہ عالم پناہ اس کے منتظر تھے۔ کتنی بدنصیب تھی صائمہ بیگم کہ جہاں پناہ کی حضوری سے محروم تھی۔‘‘
’’تمام رات وہ آنکھیں ہماری آنکھوں کے سامنے مجریٰ کرتی رہیں جن کی سیاہی میں ابدالآباد تک کے تمام مہجور عاشقوں کی سیہ بختی کا جوہر کھینچ کر انڈیل دیا گیا تھا۔ جن کی تاب کے سامنے تمام سمندروں کے تمام موتیوں کی آب پانی پانی تھی۔‘‘
’’سبحان اللہ۔۔۔ اگر ملک الشعراء اس تشبیہ کو سن لیتا تو خجالت سے ڈوب ڈوب جاتا۔‘‘
’’وہ رات زندگانی کی سب سے بھاری رات تھی۔‘‘
’’کیا اس رات سے بھی بھاری جہاں پناہ۔۔۔ جس کی صبح اکبر اعظم کی تلوار طلوع ہونے والی تھی۔‘‘
’’ہاں بیگم۔۔۔ اس رات کی دلداری کے لیے پچاس ہزارتلواریں سلیم کی رکاب میں تڑپ رہی تھیں اور صاحب عالم کے منہ سے نکلاہوا ایک فقرہ اکبری تلوار کو غلاف کرسکتا تھا لیکن اس رات کی غمگساری کے لیے نورالدین محمد جہانگیر کے پاس ایک دامن و آستین کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘
’’کاش۔۔۔ اس رات کی خدمت گزاری کنیز کامقدر ہوئی ہوتی۔‘‘
’’پھر سورج کی کرنیں سلام کو پیش ہوئیں۔۔۔ مابدولت درشن کے پرنزول اجلال کے اہتمام میں مصروف تھے کہ فریادی نے زنجیر ہلادی۔‘‘
’’صائمہ بیگم اس طرح باریاب ہوئی گویا وہ کشور ہندوستان کی قلعہ معلیٰ میں نہیں کسی غریب عزیز کے گھر میں قدم رنجہ فرمارہی۔ نقاب کے اٹھتے ہی محسوس ہوا جیسے داروغہ ٔ چاندنی خانہ نے قلعہ معلیٰ کی تمام روشنیاں ایک شاہ برج میں انڈیل دی ہوں۔ استفسار پر اس طرح مخاطب ہوئی جیسے وہ جہانگیر سے نہیں اپنی ڈیوڑھی پر کھڑے ہوئے سوالی سے مخاطب ہے۔۔۔ اس کی خطابت نے یقین دلادیا کہ مابدولت نے محرم خاں کو سفیر بناکر غلطی کا ارتکاب نہیں جرم سرزد فرمایا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ بھری دوپہر پر رات غالب آگئی ہے۔ وہ جاچکی تھی۔۔۔ اس کے غروب ہوتے ہی محرم خاں باریاب ہوا۔۔۔ عرض کیا گیا کہ خلعت نامقبول اور دعوت نامنظور ہوئی۔‘‘
نجابت اور شرافت پر اتنا غرور۔۔۔ ایسا تنجر۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔ معاذاللہ۔۔۔ ایک جام اور عنایت کہ زبان خشک ہونے لگی ہے۔ (شراب ڈھالتی ہے۔۔۔ اور ایک ہی سانس میں آبگینہ ختم ہوجاتا ہے )
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’گوش گزار کیا گیا کہ ارم آشیانی علیہ حضرت مریم زمانی ورود مسعود فرما رہی ہیں۔۔۔ سلام کے جواب میں ارشاد ہوا کہ شیخو بابا کو اس مغرور لڑکی میں کیا نظر آگیا کہ مغل جبروت و جلال کی بازی لگادی گئی۔۔۔ مابدولت سکوت فرمارہے۔۔۔ جب سکوت حد ادب سے گزرنے لگاتو علیہ حضرت نے سناکہ صائمہ بیگم سر سے پاؤں تک کرشمہ الہی ہے لیکن آنکھوں کی بے پناہی زمین و آسمان کے درمیان اپنی مثال نہیں رکھتی۔۔۔ سورج شاہ برج سے رخصت ہوکر اجازت مانگ رہاتھا کہ علیہا حضرت ثانی کا غلغلہ بلند ہوا۔ خوش خبری سنائی گئی کہ سفارش خاص پر نواب صائمہ بیگم رات کے کسی پہر قلعہ مبارک میں جلوس فرمائیں گی۔‘‘
’’ظل الہی نے اس خبر کو کس طرح قبول فرمایا۔‘‘
’’مابدولت نے غسل فرمایا۔۔۔ نیا لباس زیب تن کیا۔۔۔ نئے جواہرسے آراستہ ہوئے۔۔۔ اور خاصہ تناول فرمایا۔۔۔ داروغۂ چاندنی خانہ کو حکم ہوا کہ ارک معلیٰ کا چپہ چپہ روشنی میں غرق کردے۔‘‘
’’داروغۂ بیوتات کو فرمان ملا کہ ذرہ ذہ مشک و عنبر سے معطر کردے اور داروغۂ جواہر خانہ کو پروانہ پہنچا کہ شاہ برج کے طاق جواہرات سے لبریز کردے۔ قلعہ دار کو مطلع کیا گیا کہ نواب صائمہ بہادر کی سواری کونوبت خانے کی سیڑھیوں تک آنے کی اجازت عطا ہو۔ احکامات کی تعمیل ہوچکی تھی اور مابدولت انتظار کے تخت پر جلوہ افروز تھے۔‘‘
’’ظل اللہ کے دہن مبارک سے انتظار کا لفظ عطا ہوکر کنیز کی سماعت پر اس طرح گرتا ہے جیسے طاؤس پر عقاب۔‘‘
’’مقربین بارگاہ نے تہنیت دی کہ حضرت نواب صائمہ بیگم بہادر کی سواری نوبت خانے کی سیڑھیوں پر لگادی گئی۔۔۔ چوبداروں کی آوازوں پر ملاحظہ فرمایا کہ وہ سیاہ سوتی برقعہ پر بھاری نقاب ڈالے، دونوں بازوؤں پر عورتوں کا سہارا لیے ہاتھوں میں ایک سرخ پیالہ سنبھالے آہستہ آہستہ آرہی ہے۔ نقیب خاص کی آواز پر عورتوں نے اس کے بازو چھوڑ دیے اور وہ کورنش ادا کرنے کے بجائے گھٹنوں پر گرپڑی، کانپتے ہاتھوں سے دراز ہوکر پیالہ تخت کی طرف بڑھادیا۔۔۔ مابدولت تخت سے اترپڑے دستگیری عطا کرنے کے بجائے اس کی نذر قبول کی۔۔۔ پیالہ ہاتھ میں آیا تو بیگم۔۔۔ جیسے آنکھوں سے بصارت چلی گئی۔‘‘
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’پیالے میں اس کی آنکھیں تڑپ رہی تھیں۔‘‘
’’ظل الہی۔‘‘
’’ہاں بیگم اس کی آنکھوں کے دیدے پیالے میں رکھے تھے۔۔۔ شہنشاہ کی پوری عمر میں آداب شہنشاہی کبھی اتنے بھاری نہ معلوم ہوئے۔۔۔ تاہم انہوں نے اس کانقاب اٹھادیا۔۔۔ آنکھوں کی جگہ دو سوراخ تھے جن سے خون رس رہا تھا۔ زرد سنگ مرمر سے تراشا ہوا چہرہ ساکت تھا۔ پائے مبارک میں جیسے کسی نے زنجیر یں ڈال دیں۔‘‘
’’نصیب دشمناں۔‘‘
’’صرف اس قدر ادا ہوسکا کہ نواب صائمہ بیگم بہادر نے یہ کیا کرلیا۔‘‘
آواز آئی
’’شہنشاہوں کی پسند غریبوں کو زیب نہیں دیتی۔ ناچیز کی آنکھیں جہاں پناہ کو پسند آگئیں۔۔۔ نذر میں گزار دی گئیں۔۔۔ کل کی گلوریوں کی طرح قبول فرما لیجیے۔‘‘ سر سے پاؤں تک آنسوؤں میں پروٹی ہوئی ہماری اجنبی آواز ایک ایک طبیب کا دامن سماعت پکڑ کر فریادی ہوئی۔۔۔۔ لیکن بیگم۔‘‘
’’ظل الہی۔‘‘
’’جب بھی تنہائی باریاب ہوتی ہے۔۔۔ جہانگیر کی پیٹھ پر اس آواز کے تازیانے برسنے لگتے ہیں۔۔۔ آنکھوں میں وہ زندہ دیدے انگاروں کی طرح دہکنے لگتے ہیں۔۔۔ کاش وہ زندہ رہتی تو جہانگیری محل اس کو تفویض کردیا جاتا، اس کی دلداری اور دلآسائی کی جاتی تو شاید اس چوٹ کی تڑپ کم ہوجاتی بیگم۔‘‘
’’جہاں پناہ۔‘‘
’’ایک جام اور عطا کر دیجیے کہ سماعت جلنے لگی ہے اور بصارت دمکنے لگی ہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.