دیوالی
کہانی کی کہانی
میکوا ساہوکار کے یہاں کام کرتا ہے۔ وہ اپنے کام کو ایمانداری سے اور وقت سے پورا کر دیتا ہے۔ دیوالی کے موقع پر وہ گھر کی صفائی میں مصروف ہے، اسی درمیان اسے دیوار پر لگی لکشمی جی کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ تصویر دیکھ کر اسے اپنی منگیتر لکشمی کی یاد آتی ہے۔ وہ سارا دن اس کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے۔ شام کو دیوالی کا پرشاد لینے کے بعد وہ مہتا جی کی خوشامد کر کے چار گھنٹے کی چھٹی مانگ لیتا ہے اور سائیکل پر سوار ہو کر اپنی منگیتر کے گاؤں کی طرف بھاگتا ہے لیکن وہاں جاکر اسے جس سچائی کا علم ہوتا ہے اس سے اس کے پاؤں تلے کی زمین ہی کھسک جاتی ہے۔
پورب کا تمام آسمان گلابی روشنی میں جگمگا رہا تھا جیسے دیوالی کے چراغوں کی سیکڑوں چادریں ایک ساتھ لہلہا رہی ہوں۔ اس نے السا کر چٹائی سےاپنے آپ کو اٹھایا۔ پتلے مٹیالے تکیے کے نیچے سے بجھی ہوئی بیڑی نکالی اور پاس ہی رکھی ہوئی مٹی کی نیائی میں دبی اپلے کی آگ سلگائی۔ جلدی جلدی دو دم لگائے۔ جیسے ہی وہ چڑچڑا کر بھڑ کی اس نے منہ سے تھوک دی اور دور سے آتی ہوئی آواز کو غور سے سننے کی کوشش کی جیسے رات میں چوکیدار قدموں کی چاپ سمجھنےکی کوشش کرتا ہے۔ اب وہ مالک کی آواز میں غصے سے بھنے ہوئے لفظوں کے پٹاخے سننے لگا۔
’’میکوا!‘‘
’’ابے میکوا کے بچے!‘‘
’’کیا سانپ سونگھ گیا؟‘‘
وہ مانگے کی جلدی میں ہڑبڑاکر اٹھا اور لال اینٹوں کے بنے ہوئے اس کٹھار کی طرف چلا جو ہرے بھرے فارم کی بیچوں بیچ اکڑوں بیٹھا تھا جیسے دھان کے کھیت میں حفاظت کے لیے لکڑی کے پتلے پر چنری لپیٹ دی گئی ہو۔ دھارے کی سیڑھیوں پر پاؤں رکھتے ہی بالکل اس کے کان کےپاس پٹاخوں کی ایک لڑاس طرح داغ گئی تو اس کے کانوں کی جلد بارود سے جھلس گئی۔
’’اتنی دیر سے گہرائے جارہے ہو۔۔۔ لیکن کانوں میں تیل ڈالے پڑے اینڈ رہے ہو۔۔۔ سنائی نہیں پڑتا بالکل۔ کہا تھا کہ آج دیوالی کے دن تو ذرا بھوراہر سے اٹھ پڑتے اپنے آپ۔ یہ ساری صفائی ستھری کرنےتمہارا باپ آوے گاگنگاجی سے۔‘‘
’’مالک‘‘
’’مالک کے بچے۔۔۔ یہ بانس اٹھا۔۔۔ اس میں جھاڑو باندھ کے جالے چھڑا۔ مالک۔۔۔ ہنھ۔‘‘
اس نے زمین پر لیٹے ہوئے ہرے ہرے بانس کی گانٹھوں کو نہارتے ہوئے اس کی پھننگ میں ایک پرانی سی جھاڑو پروئی اور سامنے کےکمرے میں گھس گیا۔ جالے جھاڑتے جھاڑتے سامنے کی دیوار کے بیچوں بیچ بڑے سے طاق میں سجی ہوئی لکشمی جی کی تصویر پر نگاہ پڑی تو اس نےجلدی سے بانس کاندھے سے لگاکر ہاتھ جوڑ لیے۔ جب آنکھ کھولی تو جیسے دیوار ایک طرف سے پھٹ گئی اور اس کی اپنی لکشمی لال لال دھوتی باندھے دونوں ہاتھوں میں تھالی سنبھالے گھونگھٹ میں چراغ جلائے کھڑی تھی۔ وہ بڑی دیر تک اسی طرح پتھر کا بناگھورتا رہا اور جب ریڑھ کی ہڈی میں چیونٹیاں رینگنے لگیں تو وہ جیسے جاگ پڑا۔ کاندھے سے بانس اٹھاکر وہ پھر مشین کی طرح شروع ہوگیا۔
ایک ایک کمرہ چندن ہوگیا۔ ایک ایک اینٹ اجلی ہوگئی۔ ایک ایک انگل زمین دیواستھان کی طرح جیسے پلکوں کی جھاڑو سے جھاڑ دی گئی۔ اور وہ جب ٹیوب ویل کے پاس سے گزرا تو اس کا جی چاہا کہ لمبے چوڑے سے حوض میں گرتی ہوئی پانی کی موٹی سی دھار کے نیچے اپنے آپ کو ڈال دے اور تھوڑی دیر چپی سادھے پڑا رہے۔
لیکن مالک؟
اور وہ اپنی ناک سے جالوں کے بال جھاڑتا ہوا ٹیوب ویل کے انجن کی طرف چلا اور اس کے پہیوں پر جمے ہوئے مٹی لوندے چھڑانےلگا اور جب آٹا پیسنے والے اور دھان کوٹنے والے انجن تک نہادھوکر نئے کپڑے پہن کر کھڑے ہوگیے اور تھکن اس کی ہڈیوں کے گودے میں سرسرانےلگی تو اس نے باہر نکل کر آسمان کو دیکھا جو دکھوں کے گٹھر باندھ باندھ کر دکھیوں کی کھوپڑیوں پر لادا کرتا ہے۔ نگاہ زمین پر اتری تو اپنی لمبی سی پرچھائیں پر ٹھٹک گئی۔ شام کا سنہرا رتھ آسمان کے پچھم کی رو سے گزر رہا تھا۔ وہ وہیں اسی جگہ دھپ سے زمین پر بیٹھ گیا اور مالک کے طاق میں رکھے کھلے بنڈل سے چرائی ہوئی دوسری بیڑی سلگانےکے لیے ادھر ادھر دیکھنے لگا تو چنی مہیتا نظر آئے۔
’’پائیں لاگن مہاراج۔‘‘
’’تم کا آشیرواد دئیی یا شراپ۔ رہو تم کشل منگل۔‘‘
چنی مہیتا کے ہونٹوں پر چھائی ہوئی مونچھوں کی چھپریا سے بول اس طرح ابل پڑے جیسے اولتی سے پانی برستاہے۔ مہیتا نے اپنے کرتے کی پتلی پتلی آستین کہنیوں پر الٹ لیں اور ہاتھوں کے بالوں کے کھچڑی کے چاول گلابی دھوپ میں دمک اٹھے۔
’’بیڑی سے چھٹکارا پاؤ تو ہماری بات بھی سن لیو۔‘‘
’’دھنیہ ہو مہاراج۔۔۔ سبیر سے سانجھ ہوئے رہی ہے، پھٹکی بھر گڑ کے علاوہ ایک کھیل تک اڑکے پیٹ میں نائیں گئی۔بیل بدھیا تک سویرے سے جوتے جاتے ہیں تو دوپہر ہوتے ہوتے کھول دیے جاتے ہیں۔ دانہ کھلی اگر نہیں ملتا ہے تو گھنٹہ دو گھنٹہ چارا بھونسہ کھاتے ہیں۔ جم کے سستاتے تب سانجھ کو گھٹری کے لیے جوتے جاتے ہیں اور ایک ہم ہیں، وہی ہم سے اچھے۔‘‘
’’کون سے نیتا کا بھاشن سنے رہے۔ جبان ہے کہ بالکل طوفان میل۔ ٹیسن پر ٹیسن چھوڑتی چلتی جائے رہی ہے۔ ایں۔‘‘
’’تیج تیوہار کیا کوئی روج روج آتے ہیں پھر پکی خوراک اور مٹھائی اور پرسادانی سب کا پیڑن مان لگت ہیں کہ توڑ توڑ تھارے منہ میں ڈال دیں جائیں۔‘‘
’’تو اب ساتھ ہی ساتھ مہاراج لہو بانچ دیو کاحکم ہے۔‘‘
’’حکم دے والے تو گیے ہیں سیر کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ۔ ہم سے بتائے کہہ گیے ہیں کہ ان کے لوٹنے تک سب کام کاج فٹ کرکے چھوڑیں۔ تو بھین جلدی سے سیڑھی لگاؤ۔ دیا بتی ہم سب تیار کرائے لیا ہے تم رکھنا شروع کرو۔‘‘
’’پارسال تو مہاراج یو کام سورج ڈوبتے ڈوبتے ہوارہے۔‘‘
’’اوہوں۔ پار سال آدمی تو رہین درجن بھر۔‘‘
’’تو آج اوئی سب آدمی کہاں کھوئے گیے۔‘‘
’’کھوئے کہاں جاتے۔ ہیں سب اپنی اپنی جگہ۔ مل ان کی مجدوری ہوئے گئی ہے دگنی۔‘‘
’’اور مالک کا آلوبکا ہے ادھیاپر۔‘‘
’’سوبوری دیوالی دکھیا میکو کے متھے بہت گئی۔‘‘
’’دکھیا میکو ہوویں چاہےمکھیا ،میکو اپنی کتھا اٹھائےرکھیں کونوں اور دن کے لیے اورپھرتی سے سیڑھی لگائے لیں۔‘‘
چنی مہیتا نے پیٹھ گھمالی اور اوسارے کی طرف چلے۔ جہاں بھاری بھاری نہائی دھوئی بھینسیں اجلی اجلی گھنٹیاں پہنے پتلی پتلی مونچھوں سےموٹی موٹی مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ وہ تھوڑی دیر اکڑوں بیٹھا رہا پھر اپنے پورے بدن پر ایک نگاہ ڈالی جیسے پہلوان اکھاڑے میں اترنے سے پہلے اپنے اوپر نرم نرم تازی مٹی ڈالتے ہیں اور جب گڑھ جیت کر وہ سیڑھی سے اترا اور چنی مہاراج نے چمرودھے جوتے سے پاؤں نکال کر ڈنڈے پر رکھا۔ اس وقت تک سانجھ جیسے ایکاایکی جوان ہوچکی تھی۔ وہ اپنی پنڈلیوں پر اپنا آپ گھسیٹتا ہوا حوض پر آیا اور بلا کچھ سوچے سمجھے جھم سے پھاند پڑا۔
بیساکھ کی دھوپ میں تھکن سے بلبلاتے ہوئے بھینسے کی طرح گردن ڈالے دم سادھے دیر تک کھڑا رہا اور منڈیروں پر جلتے ہوئے دیو کی تھرتھراتی ہوئی لوؤں کاتماشہ دیکھتا رہا۔ جادو کی سی روشنی کایہ تماشا دیکھتے دیکھتے اسے اپنی چھاتی میں ہونکے ہوئے سنسان اندھیرے کا سرامل گیا جہاں دور دور تک وہاں تک جہاں نگاہ پہنچ سکتی ہے کوئی چراغ نہ تھا، کوئی جگنو نہ تھا کوئی چنگاری نہ تھی۔ اگر کچھ تھا تو ایک عورت کے چہرے کی مسکان تھی جس کی گرمی جیسے دل کی دھڑکن ابھی زندہ تھی۔ سلگتے ہوئے اپلے کی طرح بھربھری راکھ میں دبی ہوئی مدھم سی آگ تھی جو زیادہ سے زیادہ سینےکی دھونکنی کے سہارے ایک بیڑی سلگاسکتی تھی اور کچھ بھی نہیں۔
’’مکھیا میکو‘‘
’’چنی مہاراج کی آواز کا جوتا بھڑ سے اس کے کان پر پڑا۔‘‘
’’نہائے چکن مہاراج؟‘‘
وہ چھپر چھپر کرتا باہر نکلا اور اس کوٹھری کی طرف چلا جس کےایک دروازے اور ساڑھے تین دیواروں پر ٹین کی پتلی سی چھت بہت سی اینٹوں کے نیچے کچلی ہوئی رکھی تھی۔ کونے میں دھرے گھڑے سے اپنی اکلوتی قمیص اور دھوتی جو تیوہاروں پر دھیرویر کی طرح نکلتی نکالی اور بھیگے انگوچھے سے مہینوں کے بالوں سے ٹپکتے پانی کو پونچھنےلگا۔ پھر سج بن کر نکلا۔ پورا کٹھار پوجا کی تھالی کی طرح چراغوں سے جگمگا رہا تھا اور مالک کا بڑا لڑکا ایک نوکر کے ساتھ بھینسوں کے پاس کھڑا مہتاب چھڑا رہا تھا۔ اس نے سیڑھیاں چڑھنے کے لیے پاؤں اٹھایا تو معلوم ہوا کہ پاؤں اس کا پاؤں نہیں ہے، کسی نے جان چھڑانے کے لیے منگنی میں دے دیا ہے۔ وہ ذرا سا جھول گیا پھر سنبھل کر دالان میں آرام کرسی پر ڈھیر مالک کے سامنے آیا۔ اس نے جھک کر پاؤں چھولیے۔ پھر ایک کمہار اندر سےآیا اور ایک بڑا سا پتل اس کے پھیلے ہوئے ہاتھوں میں ڈال دیا۔ پوریوں اور کچوریوں کی ڈھیریوں کے بیچ میں تھوڑی سی مٹھائی نگینوں کی طرح رکھی تھی وہ اسے لے کراپنی کوٹھری کی طرف چلا کہ چنی مہاراج کی آواز نےبریک لگادیا۔
’’پرساد تو لیتے جاؤ میکو مکھیا۔‘‘
اس نے چمک کر ایک دھوتی میں لپٹے ہوئے سارے سموچے مہاراج کو دیکھا اور ڈھاک کے تازہ ملائم پتل کی چھوٹی سی پڑیا رکھ لی۔ کوٹھری کااندھیراسیکڑوں چراغوں کی لہر میں لپٹی روشنی میں ذرامدھم ہوگیا تھا۔ اس مدھم روشنی میں اس نے ایک پوری میں ترکاری لپیٹ کر منہ میں رکھی تو اس کے ذائقے سےکوٹھری میں دیوالی کے کئی چراغ چمک اٹھے۔ اس نے دوپوریوں کے ساتھ پوری مٹھائی اور پرساد کا دونا بنالیا اور ایک پتل ڈھک کر سینکوں سے سی لیا اور جو کچھ بچا اسے اپنے پیٹ میں انڈیل لیا اور لوٹا بھر پانی پی کر بیڑی ڈھونڈنےلگا کہ باہر سے ایک آواز اس کے پاس آئی اور گردن پکڑ کر لے گئی۔ مالک حکم دے رہے تھے۔
’’آج رات ذرا احتیاط سے سوناہاں۔‘‘
اور ساتھ ہی مالکن نے ایک بول کا پرساد دیا۔
’’اگر بھوکا رہ گیا ہے تو کہار سے دال بھات مانگ لے اچھا۔‘‘
اس نے نگاہ بھر کر مالکن کو دیکھا جو کپڑوں اور گہنوں میں بنی سنوری دیوی کی مدرا میں کھڑی تھیں اور پھر کبھی ایسا ہوا کہ جہاں دیوی کھڑی تھی اسی جگہ اس مدرا میں اس کی لچھمی آکھڑی ہوگئی اور اس کا جی چاہا کہ عبیر اور چندن اور گلابی کےاس ڈھیر کو اپنے آپ میں سمیٹ لے لیکن دوارے سے جیپ کاانجن بھینس کی طرح ڈکرا رہا تھا۔ اس نے آنکھیں گڑوگڑوکر ہر طرف دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ وہ لکڑی کے پیروں پر گھسٹتا ہوا دالان میں پہنچا۔ مالک کی کرسی کے نیچے سگریٹ کا بڑا سا ٹرا پڑا تھا۔ ایک چراغ سے سلگا کر ایک دم لگایا تو جیسے جی ہلکا ہوگیا۔ دکھ کی تمام چڑیاں اڑگئیں۔ وہ وہیں کھمبے سے لگ کر بیٹھ گیا۔ جب آنکھ کھلی تو اس کابازو پکڑے چنی مہاراج کھڑے تھے۔
’’کاسوئے گوارے؟‘‘
’’نائیں تو۔آپ بیٹھ جاؤ۔ ایک بات ہے۔‘‘
’’آج ہم کا چار گھنٹے کی چھٹی دے دو آپ۔ گھنٹہ بھر جانے کا گھنٹہ بھر آنے۔ او دو گھنٹے درسن کا اور پھر گھڑی دیکھ لیو۔‘‘
’’کہاں جاوے گارے؟‘‘
’’سیتا پور‘‘
’’بھانگ کھائے گوا ہے۔ سیتا پور کوئی یہاں دھرا ہے۔ دس کوس ڈاٹ کے ہے۔‘‘
’’ہوا کرے۔ تمری سائیکل پر دس کوس جمین میکوا کےلیے گھنٹہ بھر کی ہے۔‘‘
’’تیل باتی کا انتظام؟‘‘
’’دیکھو مہاراج ای منگل کا چار مہینہ ہوئے درسن کا۔‘‘
چنی مہاراج نے اپنی گردن کندھوں سے آگےنکال دی۔
’’اور مالک؟‘‘
’’اب مالک تم ہو ہمرے اور ہم ہیں دکھیا۔‘‘ اور اس نےمہاراج کے دونوں پاؤں پکڑلیے۔
’’آج چھٹی دے دیو پھر جون حکم دینا پورا ہوئی۔‘‘
’’بولے تو سانچ ہے مل آج کی رات آدمی کون ملی۔ آج کی رات چور چگار اپنا گن جگاتے ہیں اور جیسے بنے ویسے کرلیو مل۔‘‘
’’تو اگر تم تیار ہو تو دس پانچ روپیہ کھرچ کرکے کوئی بندوبست کریں۔‘‘
’’دس پانچ روپیہ؟‘‘
’’ناہیں بھائی۔ تم جب گہیوں بوا جائے تو رات میں ہل چلانے دیو دوچار داؤ۔‘‘ اس نے سیدھی انگلی سے دوچار لکیریں بنائیں اور حکمی آوازمیں بولا،’’منجور مہاراج ہم چار راتیں چلاوے پر تیار پکی بات ہے۔‘‘
’’ایک بات اور‘‘
’’وہو بول دیو‘‘
’’مالک کا پتہ نہ چلے نہیں تو۔۔۔‘‘
’’کانوں کان پتہ نہ چلی کوئی کا۔‘‘
’’تو پھر منجور۔ اٹھو اور ایک داؤں دیا بتی کا دیکھ لیو۔ جانےکےلیے وہ اس طرح اٹھا جیسے ابھی ابھی جیل کاپھاٹک کھلا ہے۔‘‘
بارہ بجنےمیں دیر تھی لیکن وہ چنی مہاراج کی سائیکل بغل میں مار کراوکھ کے سائے سائے چراغوں کی اندھرائی آنکھوں سے راستہ ٹٹولتا نہر کی پٹری پر آگیا اور لچھمی کا دھیان کرکے سائیکل پر سوار ہوکر پیڈل اوٹنےلگا۔ جب تھکن چڑھنے لگتی تو وہ دیکھتا کہ لچھمی دوارےسے آرتی لیے چراغ جلائے، پھول مٹھائی اور پان لیے اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور پھر جیسے اس کی بیٹری چارج ہوجاتی۔لیکن جب سائیکل کے اگلے پہیے نے لچھمی کے دوارےسے ٹکر ماری تو لچھمی کے بجائے ویرانی اندھیرے کی آرتی میں تنہائی کا چراغ جلائے اس کے سواگت میں کھڑی تھی۔ اس نے دوبارہ ہاتھ سے دستک دی۔ لچھمی کی ماں کی کھانستی آواز نے کون کون کی رٹ لگا دی۔ دروازہ کھلا تو اس نے اپنی چندھی آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا لیکن وہ اسےراستے سے ہٹاتا ہواسائیکل سمیت گھر میں داخل ہوگیا۔
’’لچھمی کہاں ہے دائی؟‘‘
اور لچھمی کی ماں نے پھونک مار کر اس کے بدن کےتمام جلتے چراغ بجھادیے،’’واتو بڑی دیر کی گئی ہے تمرے گاؤں۔‘‘
’’ہمرے گاؤں؟‘‘
’’ہاں آج سبیرے سے انتظام کر رہی تھی۔ دوپہر میں روٹی کھانے بھی نہیں آئی۔ سانجھ کو جب آئی تو رونےلگی کہ مالک چھٹی نائن دے رہے ہیں ہم سے رونانائن دیکھا گیا توہم نے بھیلی سے کہا رات کی خدمت پر تم چلی جاؤ۔‘‘
’’بھیلی؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’بھیلی جانے پر تیار نائن رہے، کاہے سے کہ اوکا گونا آنےوالا ہے مل ہم بڑی کھوسامد کیا۔ تب رووت دھووت وا گئی اور لچھمی منہ جھٹال کی ساری پوری مٹھائی باندھ کے۔‘‘
وہ دھپ سے اسی جگہ بیٹھ گیا۔ گردن سے انگوچھا اتارکر دونا کھولنے لگا تو معلوم ہوا مانو اس کی انگلیاں جھڑ گئی ہیں۔ پاؤں گرگیے ہیں اور کندھوں پر کاٹھ کی ہنڈیا رکھی ہے۔ اس نے لکڑی کی زبان کو بڑی محنت سے ہلایا، ’’بھیلی کے سسرال والے اگر جان گیے تو؟‘‘
’’بندھوا مزدور کی لڑکی کے پاس بیٹاچھپانے کو ہوت کا ہے جو چرانے چھپانے کی فکر کی جائے۔‘‘
اورجیسے اس کی آنکھوں کے سامنے لچھمی دیو استھان سے گری اور لڑھکتی ہوئی گھوڑے میں ڈھیر ہوگئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.