Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سراج

MORE BYسعادت حسن منٹو

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ایسی نوجوان طوائف کی کہانی ہے، جو کسی بھی گراہک کو خود کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی۔ حالانکہ جب اس کا دلال اس کا سودا کسی سے کرتا ہے، تو وہ خوشی خوشی اس کے ساتھ چلی جاتی ہے، لیکن جیسے ہی گراہک اسے کہیں ہاتھ لگاتا ہے کہ اچانک اس سے جھگڑنے لگتی ہے۔ دلال اس کی اس حرکت سے بہت پریشان رہتا ہے، پر وہ اسے خود سے الگ بھی نہیں کر پاتا ہے، کیونکہ وہ اس سے محبت کرنے لگا ہے۔ ایک روز وہ دلال کے ساتھ لاہور چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ اس نوجوان سے ملتی ہے، جو اسے گھر سے بھگا کر ایک سرائے میں تنہا چھوڑ گیا تھا۔‘‘

    ناگ پاڑہ پولیس چوکی کے اس طرف جو چھوٹا سا باغ ہے، اس کے بالکل سامنے ایرانی کے ہوٹل کے باہر، بجلی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر ڈھونڈو کھڑا تھا۔ دن ڈھلے، مقررہ وقت پر وہ یہاں آجاتا اور صبح چار بجے تک اپنے دھندے میں مصروف رہتا۔

    معلوم نہیں اس کا اصل نام کیا تھا، مگر سب اسے ڈھونڈو کہتے تھے۔ اس لحاظ سے تو یہ بہت مناسب تھا کہ اس کا کام اپنے مؤکلوں کے لیے ان کی خواہش اور پسند کے مطابق ہر نسل اور ہر رنگ کی لڑکیاں ڈھونڈنا تھا۔یہ دھندہ وہ قریب قریب دس برس سے کررہا تھا۔ اس دوران میں ہزاروں لڑکیاں اس کے ہاتھوں سے گزر چکی تھیں۔ ہر مذہب کی، ہر نسل کی، ہر مزاج کی۔

    اس کا اڈہ شروع سے یہی رہا تھا۔ ناگ پاڑہ پولیس چوکی کے اس طرف،باغ کے بالکل سامنے، ایرانی ہوٹل کے باہر بجلی کے کھمبے کے ساتھ۔۔۔ کھمبا اس کا نشان بن گیا تھا۔ بلکہ مجھے تو وہ ڈھونڈو ہی معلوم ہوتا تھا۔ میں جب کبھی ادھر سے گزرتا اور میری نظر اس کھمبے پر پڑتی، جس پر جگہ جگہ چونے اور کتھے کی انگلیاں پونچھی گئی تھیں تو مجھے ایسا لگتا کہ ڈھونڈو کھڑا ہے اور کالے کانڈی اور سینکے لی سوپاری والا پان چبا رہا ہے۔

    یہ کھمبا کافی اونچا تھا،ڈھونڈو بھی دراز قد تھا۔۔۔ کھمبے کے اوپر بجلی کے تاروں کا ایک جال سا بچھا تھا۔ کوئی تار دور تک دوڑتا چلا گیا تھا اور دوسرے کھمبے کے تاروں کے الجھاؤ میں مدغم ہوگیا تھا۔ کوئی تار کسی بلڈنگ میں اور کوئی کسی دکان میں چلا گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کھمبے کی پہنچ دور دور تک ہے۔ وہ دوسرے کھمبوں سے مل کر گویا سارے شہر پر چھایا ہوا ہے۔

    اس کھمبے کے ساتھ ٹیلی فون کے محکمے نے ایک بکس لگا رکھا تھا، جس کے ذریعے سے وقتاً فوقتاً تاروں کی درستی وغیرہ کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ ڈھونڈو بھی اسی قسم کا ایک بکس ہے جو لوگوں کی جنسی جانچ پڑتال کے لیے کھمبے کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ کیونکہ اسے آس پاس کے علاقے کے علاوہ دور دور کے علاقوں کے ان تمام سیٹھوں کا پتا تھا جن کو وقفوں کے بعد یا ہمیشہ ہی اپنی جنسی خواہشات کے تنے ہوئے یا ڈھیلے تار درست کرانے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔

    اسے ان تمام چھوکریوں کا بھی پتا تھا جو اس دھندے میں تھیں،وہ ان کے جسم کے ہر خدوخال سے واقف تھا، ان کی ہر نبض سے آشنا تھا، کون کس مزاج کی ہے اور کس وقت اور کس گاہک کے لیے موزوں ہے، اس کو اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ لیکن ایک صرف اس کو سراج کے متعلق ابھی تک کوئی اندازہ نہیں ہوا تھا۔ وہ اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا تھا۔

    ڈھونڈو کئی بار مجھ سے کہہ چکا تھا،’’سالی کا مستک پھرے لا ہے۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا منٹو صاحب، کیسی چھوکری ہے۔۔۔ گھڑی میں ماشہ گھڑی میں تولا۔۔۔ کبھی آگ، کبھی پانی۔ ہنس رہی ہے۔۔۔ قہقہے لگا رہی ہے۔۔۔لیکن ایک دم رونا شروع کردے گی۔۔۔ سالی کی کسی سے نہیں بنتی۔۔۔ بڑی جھگڑالو ہے۔ ہر پسنجر سے لڑتی ہے۔ سالی سے کئی بار کہہ چکا کہ دیکھ، اپنا مستک ٹھیک کر، ورنہ جا، جہاں سے آئی ہے۔۔۔ انگ پر تیرے کوئی کپڑا نہیں۔۔۔ کھانے کو تیرے پاس ڈیڑھیا نہیں۔۔۔ مارا ماری اور دھاندلی سے تو میری جان کام نہیں چلے گا۔۔۔ پر وہ ایک تخم ہے، کسی کی سنتی ہی نہیں۔‘‘

    میں نے سراج کو ایک دو مرتبہ دیکھا ہے۔ بڑی دبلی پتلی لڑکی تھی مگر خوبصورت۔۔۔ اس کی آنکھیں ضرورت سے زیادہ بڑی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس کے بیضوی چہرے پر صرف اپنی بڑائی جتانے کی خاطر چھائی ہوئی ہیں۔ میں نے جب اس کو پہلی مرتبہ کلیئر روڈ پر دیکھا تھا تو مجھے بڑی الجھن ہوئی تھی۔ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ اس کی آنکھوں سے کہوں کہ بھئی تم تھوڑی دیر کے لیے ذرا ایک طرف ہٹ جاؤ تاکہ میں سراج کو دیکھ سکوں۔ لیکن میری اس خواہش کے باوجود ،جو یقیناً میری آنکھوں نے اس کی آنکھیں تک پہنچا دی ہوگی، وہ اسی طرح اس کے سفید بیضوی چہرے پرچھائی رہیں۔

    مختصر سی تھی، مگر اس اختصار کے باوجود بڑی جامع معلوم ہوتی تھی۔ ایسالگتا تھا کہ وہ ایک صراحی ہے جس میں ایک حجم سے زیادہ پانی ملی ہوئی شراب بھرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نتیجے کے طور پر سیال چیز دباؤ کے باعث ادھر ادھر تڑپ کر بہہ گئی ہے۔

    میں نے پانی ملی ہوئی شراب اس لیے کہا ہے کہ اس میں تلخی تھی، وہی جو تیز و تند شراب کی ہوتی ہے، مگر ایسا لگتا تھا کسی دھوکے باز نے اس میں پانی ملا دیا ہے، تاکہ مقدار زیادہ ہو جائے۔ مگر سراج میں نسائیت کی جو مقدار تھی، ویسی کی ویسی موجود تھی اور اس جھنجھلاہٹ سے، جو اس کے گھنے بالوں سے، اس کی تیکھی ناک سے، اس کے بھنچے ہوئے ہونٹوں سے اور اس کی انگلیوں سے، جو نقشہ نویسوں کی نوکیلی اور تیز تیز پنسلیں معلوم ہوتی تھیں، میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ وہ ہر چیز سے ناراض ہے۔ ڈھونڈو سے۔۔۔ اس کھمبے سے جس کے ساتھ لگ کر وہ کھڑا رہتا تھا۔۔۔ ان گاہکوں سے جو اس کے لیے لائے جاتے تھے۔۔۔اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے بھی جو اس کے سفید بیضوی چہرے پر قبضہ جمائے رکھتی تھیں۔ اس کی پتلی پتلی، نوکیلی انگلیاں جو نقشہ نویسوں کی پنسلوں کی طرح تیز تھیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان سے بھی ناراض ہے۔ شاید اس لیے کہ جو نقشہ سراج بنانا چاہتی تھی وہ نہیں بنا سکتی تھیں۔

    یہ تو ایک افسانہ نگار کے تاثرات ہیں جو چھوٹے سے تل میں سنگِ اسود کی تمام سختیاں بیان کرسکتا ہے۔۔۔ آپ ڈھونڈو کی زبانی سراج کے متعلق سنیے اس نے مجھ سے ایک دن کہا، ’’منٹو صاحب۔۔۔ آج سالی نے پھر ٹنٹا کردیا۔۔۔ وہ تو جانے کس دن کا ثواب کام آگیا اور آپ کی دعا سے یوں بھی ناگ پاڑہ چوکی کے سب افسر مہربان ہیں، ورنہ کل ڈھونڈو اندر ہوتا۔۔۔ وہ دھمال مچائی کہ میں تو باپ رے باپ کہتا رہ گیا۔‘‘

    میں نے اس سے پوچھا، ’’کیا بات ہوئی تھی؟‘‘

    ’’وہی جو ہوا کرتی ہے۔۔۔ میں نے لاکھ لعنت بھیجی اپنی ہشت پشت پر کہ حرامی جب تو اس چھوکری کو اچھی طرح جانتا ہے تو پھر کیوں انگلی لیتا ہے۔۔۔ کیوں اس کو نکال کر لاتا ہے۔ تیری ماں لگتی ہے یا بہن۔۔۔ میری تو کوئی عقل کام نہیں کرتی منٹو صاحب!‘‘

    ہم دونوں ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ ڈھونڈو نے کوفی ملی چائے پرچ میں انڈیلی اور سڑپ سڑپ پینے لگا، ’’اصل بات یہ ہے کہ سالی سے مجھے ہمدردی ہے۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

    ڈھونڈو نے سر کو ایک جھٹکا دیا،’’جانے کیوں۔۔۔ یہ سالا معلوم ہو جائے تو یہ روز کا ٹنٹا ختم نہ ہو۔‘‘ پھر اس نے ایک دم پرچ میں پیالی اوندھی کرکے مجھ سے کہا، ’’آپ کو معلوم ہے۔۔۔ ابھی تک کنواری ہے۔‘‘

    یقین مانیے کہ میں ایک لحظے کے لیے چکرا گیا۔

    ’’کنواری!‘‘

    ’’آپ کی جان کی قسم!‘‘

    میں نے جیسے اس کو اپنی بات پر نظرثانی کرنے کے لیے کہا، ’’نہیں ڈھونڈو۔‘‘

    ڈھونڈو کو میرا یہ شک ناگوار معلوم ہوا،’’میں آپ سے جھوٹ نہیں کہتا منٹو صاحب۔۔۔ سولہ آنے کنواری ہے۔۔۔ آپ مجھ سے شرط لگا لیجیے۔‘‘

    میں صرف اسی قدر کہہ سکا، ’’مگر ایسا کیونکر ہوسکتا ہے۔‘‘

    ڈھونڈو نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا، ’’ایسا کیوں ہو نہیں سکتا۔۔۔ سراج جیسی چھوکری تو اس دھندے میں بھی رہ کر ساری عمر کنواری رہ سکتی ہے۔۔۔ سالی کسی کو ہاتھ ہی نہیں لگانے دیتی۔۔۔ مجھے اس کی ساری ہشٹری معلوم نہیں۔۔۔ اتناجانتا ہوں پنجابن ہے۔۔۔ لیمنگٹن روڈ پر میم صاحب کے پاس تھی۔ وہاں سے نکالی گئی کہ ہر پیسنجر سے لڑتی تھی۔ دو تین مہینے نکل گئے کہ مڈام کے پاس دس بیس اور چھوکریاں تھیں۔۔۔ پر منٹو صاحب کوئی کب تک کسے کھلاتا ہے۔۔۔ اس نے ایک دن تین کپڑوں میں نکال باہر کیا۔۔۔یہاں سے فارس روڈ میں دوسری مڈام کے پاس پہنچی۔ وہاں بھی اس کا مستک ویسے کا ویسا تھا۔ ایک پیسنجر کے کاٹ کھایا۔۔۔ دو تین مہینے یہاں گزرے۔۔۔ پر سالی کے مزاج میں تو جیسے آگ بھری ہوئی ہے، اب کون اسے ٹھنڈا کرتا پھرے۔۔۔ پھر خدا آپ کا بھلا کرے، کھیت و اڑی کے ایک ہوٹل میں رہی۔۔۔ پر یہاں بھی وہی دھمال۔۔۔ منیجر نے تنگ آکر چلتا کیا۔۔۔ کیا بتاؤں منٹو صاحب، نہ سالی کو کھانے کا ہوش ہے نہ پینے کا۔۔۔ کپڑوں میں جوئیں پڑی ہیں، سر دو دو مہینے سے نہیں دھویا۔۔۔ چرس کے ایک دو سگرٹ مل جائیں کہیں سے تو پھونک لیتی ہے۔۔۔ یا کسی ہوٹل سے دور کھڑی ہو کر، فلمی ریکارڈ سنتی رہتی ہے۔‘‘

    میرے لیے یہ تفصیل کافی تھی۔ اس کے رد عمل سے میں آپ کو آگاہ نہیں کرنا چاہتا کہ افسانہ نگار کی حیثیت سے یہ نامناسب ہے۔میں نے ڈھونڈو سے محض سلسلہ گفتگو قائم رکھنے کے لیے پوچھا، ’’تم اسے واپس کیوں نہیں بھیج دیتے۔ جب کہ اسے اس دھندے سے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔ کرایہ تم مجھ سے لے لو!‘‘

    ڈھونڈو کو یہ بات بھی ناگوار معلوم ہوئی،’’منٹو صاحب کرائے سالے کی کیا بات ہے۔۔۔ میں نہیں دے سکتا۔‘‘

    میں نے ٹوہ لینی چاہی،’’پھر اسے واپس کیوں نہیں بھیجتے؟‘‘

    ڈھونڈو کچھ عرصے کے لیے خاموش ہوگیا۔ کان میں اڑسے ہوئے سگرٹ کا ٹکڑا نکال کر اس نے سلگایا اور دھوئیں کو ناک کے دونوں نتھنوں سے باہر پھینک کر اس نے صرف اتنا کہا،’’میں نہیں چاہتا کہ وہ جائے۔‘‘

    میں نے سمجھاالجھے ہوئے دھاگے کا ایک سرا میرے ہاتھ میں آگیا ہے،’’ کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟‘‘

    ڈھونڈو پر اس کا شدید رد عمل ہوا، ’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں منٹو صاحب۔‘‘ پھر اس نے دونوں کان پکڑ کر کھینچے، ’’قرآن کی قسم میرے دل میں ایسا پلید خیال کبھی نہیں آیا۔۔۔ مجھے بس۔۔۔‘‘ وہ رک گیا، ’’مجھے بس، کچھ اچھی لگتی ہے!‘‘

    میں نے بڑا صحیح سوال کیا، ’’کیوں؟‘‘

    ڈھونڈو نے بھی اس کا بڑا صحیح جواب دیا، ’’اس لیے۔۔۔ اس لیے کہ وہ دوسروں جیسی نہیں۔۔۔باقی جتنی ہیں سب پیسےکی پیر ہیں۔۔۔ حرامی ہیں اول درجے کی۔۔۔ پر یہ جو ہے نا۔۔۔ کچھ عجیب و غریب ہے۔۔۔ نکال کے لاتا ہوں تو راضی ہو جاتی ہے۔۔۔ سودا ہو جاتا ہے۔۔۔ ٹیکسی یا وکٹوریہ میں بیٹھ جاتی ہے۔۔۔ اب منٹو صاحب، پیسنجر سالا موج شوق کے لیے آتا ہے۔۔۔ مال پانی خرچ کرتا ہے۔۔۔ ذرا دبا کے دیکھتا ہے۔۔۔ یا ویسے ہی ہاتھ لگا کے دیکھتا ہے۔۔۔بس دھمال مچ جاتی ہے۔ ۔۔مارا ماری شروع کردیتی ہے۔۔۔ آدمی شریف ہو تو بھاگ جاتا ہے۔ پیے لا ہو۔۔۔ یا موالی ہو تو آفت۔۔۔ ہر موقعے پر مجھے پہنچنا پڑتا ہے۔۔۔ پیسے واپس کرنے پڑتے ہیں اور ہاتھ پیر الگ جوڑنے پڑتے ہیں۔۔۔ قسم قرآن کی صرف سراج کی خاطر۔۔۔ اور منٹو صاحب آپ کی جان کی قسم اسی سالی کی وجہ سے میرا دھندا آدھا رہ گیا ہے۔۔۔!‘‘

    میرے ذہن نے سراج کا جو عقبی منظر تیار کیا تھا، میں اس کا ذکر کرنا نہیں چاہتا، لیکن اتنا ہے کہ جو کچھ ڈھونڈو نے مجھے بتایا وہ اس کے ساتھ ٹھیک طور پر جمتا نہیں تھا۔میں نے ایک دن سوچا کہ ڈھونڈو کو بتائے بغیر سراج سے ملوں۔ وہ بائی کلہ اسٹیشن کے پاس ہی ایک نہایت واہیات جگہ میں رہتی تھی، جہاں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے، آس پاس کا تمام فضلہ تھا۔ کارپوریشن نے یہاں غریبوں کے لیے جست کے بے شمار جھونپڑے بنا دیے تھے۔ میں یہاں ان بلند بام عمارتوں کا ذکر کرنا نہیں چاہتا جو اس غلاظت گاہ سے تھوڑی دور ایستا دہ تھیں کیونکہ ان کا اس افسانے سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیا نام ہی نشیب و فراز کا ہےیا رفعتوں اورپستیوں کا۔

    ڈھونڈو سے مجھے اس کے جھونپڑے کا اتا پتا معلوم تھا، میں وہاں گیا۔۔۔ اپنے خوش وضع کپڑوں کو اس ماحول سے چھپائے ہوئے۔۔۔ لیکن یہاں میری ذات متعلق نہیں۔بہر حال میں وہاں گیا۔۔۔ جھونپڑے کے باہر ایک بکری بندھی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو ممیائی۔ اندرسے ایک بڑھیا نکلی۔۔۔ جیسے پرانی داستانوں کے کرم خوردہ انبار سے کوئی کٹنی لاٹھی ٹیکتی ہوئی۔۔۔ میں لوٹنے ہی والا تھا کہ ٹاٹ کے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے پردے کے پیچھے مجھے دو بڑی بڑی آنکھیں نظر آئیں۔۔۔ بالکل اسی طرح پھٹی ہوئی جس طرح وہ ٹاٹ کا پردہ تھا۔ پھر میں نے سراج کا سفیدبیضوی چہرہ دیکھا اور مجھے ان غاصب آنکھوں پر بڑا غصہ آیا۔

    اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ معلوم نہیں اندر کیا کام کررہی تھی،فوراً سب چھوڑ چھاڑ کر باہر آئی۔ اس نے بڑھیا کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور مجھ سے کہا، ’’آپ یہاں کیسے آئے؟‘‘

    میں نے مختصراً کہا، ’’تم سے ملنا تھا۔‘‘

    سراج نے بھی اختصار ہی کے ساتھ کہا، ’’آؤ اندر‘‘

    میں نے کہا، ’’نہیں میرے ساتھ چلیے۔‘‘

    اس پر کرم خوردہ داستانوں کی کرم خوردہ کٹنی بڑے دکاندارانہ انداز میں بولی، ’’دس روپے ہوں گے۔‘‘

    میں نے بٹوہ نکال کر دس روپے اس بڑھیا کو دے دیے اور سراج سے کہا، ’’آؤ سراج۔۔۔‘‘

    سراج کی بڑی بڑی آنکھوں نے ایک لحظے کے لیے میری نگاہوں کو راستہ دیا کہ اس کے چہرے کی سڑک پر چند قدم چل سکیں۔۔۔ میں ایک بار پھر اسی نتیجے پر پہنچا کہ وہ خوبصورت تھی۔۔۔ سکڑی ہوئی خوبصورتی۔۔۔ حنوط لگی خوبصورتی۔۔۔ صدیوں کی محفوظ و مامون اور مدفون کی ہوئی خوبصورتی۔۔۔ میں نے ایک لحظے کے لیے یوں محسوس کیا کہ میں مصر میں ہوں اور پرانے دفینوں کی کھدائی پر مامور کیا گیا ہوں۔

    میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔۔۔ سراج میرے ساتھ تھی۔ ہم دونوں ایک ہوٹل میں تھے۔ وہ میرے سامنے، اپنے غلیظ کپڑوں میں ملبوس بیٹھی تھی اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں اس کے بیضوی چہرے پر قبضہ مخالفانہ کیےہوئے تھیں۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انھوں نے صرف سراج کے چہرے ہی کو نہیں، اس کے سارے وجود کو ڈھانپ لیا ہے کہ میں اس کے کسی روئیں کو بھی نہ دیکھ سکوں۔

    بڑھیا نے جو قیمت بتائی تھی، میں نے ادا کردی تھی۔ اس کے علاوہ میں نے چالیس روپے اور سراج کو دیے تھے۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے بھی اسی طرح لڑے جھگڑے، جس طرح وہ دوسروں کے ساتھ لڑتی جھگڑتی ہے۔ چنانچہ اسی غرض سے میں نے اس سے کوئی ایسی بات نہ کی جس سے محبت اور خلوص کی بو آئے۔۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے بھی میں خائف تھا۔ وہ اتنی بڑی تھیں کہ میرے علاوہ میرے اردگرد کی ساری دنیا بھی دیکھ سکتی تھیں۔

    وہ خاموش تھی۔۔۔ واہیات طریقے پر اسے چھیڑنے کے لیے ضروری تھا کہ میرے جسم اور ذہن میں غلط قسم کی حرارت ہو۔ چنانچہ نے وسکی کے چار پیگ پیے اور اس کو عام پیسنجروں کی طرح چھیڑا، اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ میں نے ایک زبردست فضول حرکت کی۔ میرا خیال تھا کہ وہ بارود جو اس کے اندر بھری پڑی ہے، اس کو بھک سے اڑانے کے لیے یہ چنگاری کافی ہے، مگر حیرت ہے کہ وہ کسی قدر پرسکون ہوگئی۔ اٹھ کر اس نے مجھے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے پھیلاؤ میں سمیٹتے ہوئے کہا،’’چرس کا ایک سگریٹ منگوا دو مجھے!‘‘

    ’’شراب پیو!‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ چرس کا سگرٹ پیوں گی!‘‘

    میں نے اسے چرس کا سگرٹ منگوا دیا۔۔۔ اسے ٹھیٹ چرسیوں کے انداز میں پی کر اس نے میری طرف دیکھا۔۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں اب اپنا تسلط چھوڑ چکی تھیں۔۔۔ مگر اسی طرح جس طرح کوئی غاصب چھوڑتا ہے۔۔۔ اس کا چہرہ مجھے ایک اجڑی ہوئی، ایک بربادشدہ سلطنت نظر آیا۔۔۔ تاخت و تاراج ملک، اس کا ہر خط، ہر خال۔۔۔ ویرانی کی ایک لکیر تھی۔

    مگر یہ ویرانی کیا تھی۔۔۔؟ کیوں تھی۔۔۔؟ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آبادیاں ہی ویرانوں کا باعث ہوتی ہیں۔۔۔ کیا وہ اسی قسم کی آبادی تھی جو شروع ہونے کے بعد کسی حملہ آور کے باعث ادھوری رہ گئی تھی اور آہستہ آہستہ اس کی دیواریں جو ابھی گز بھر بھی اوپر نہیں اٹھی تھیں کھنڈر بن گئی تھیں۔

    میں چکر میں تھا، لیکن آپ کو میں اس چکر میں نہیں ڈالنا چاہتا۔۔۔ میں نے کیا سوچا، کیا نتیجہ برآمد کیا، اس سے آپ کو کیا مطلب۔

    سراج کنواری تھا یا نہیں، میں اس کے متعلق جاننا نہیں چاہتا تھا۔ سلفے کے دھوئیں میں، البتہ اس کی محزون و مخمور آنکھوں میں مجھے ایک ایسی جھلک نظر آئی تھی جس کو میرا قلم بھی بیان نہیں کرسکتا۔میں نے اس سے باتیں کرنا چاہیں مگر اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں نے چاہا کہ وہ مجھ سے لڑے جھگڑے، مگر یہاں بھی اس نے مجھے ناامید کیا۔

    میں اسے گھر چھوڑ آیا۔

    ڈھونڈوکو جب میرے اس خفیہ سلسلے کا پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوا۔ اس کے دوستانہ اور تاجرانہ جذبات دونوں بہت بری طرح مجروح ہوئے تھے۔ اس نے مجھے صفائی کا موقعہ نہ دیا۔ صرف اتنا کہا، ’’منٹو صاحب آپ سے یہ امید نہ تھی!‘‘ اور یہ کہہ کر وہ کھمبے سے ہٹ کر ایک طرف چلا گیا۔

    عجیب بات ہے کہ دوسرے روز شام کو وقتِ مقررہ پر وہ مجھے اپنے اڈے پر نظر نہ آیا۔ میں سمجھا شاید بیمار ہے مگر اس سے اگلے روز بھی وہ موجود نہیں تھا۔

    ایک ہفتہ گزر گیا۔ وہاں سے میرا صبح شام آنا جانا ہوتا تھا۔ میں جب اس کھمبے کو دیکھتا،مجھے ڈھونڈویاد آتا۔ میں بائی کلہ اسٹیشن کے پاس ہی جو واہیات جگہ تھی وہاں بھی گیا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ سراج کہاں ہے۔ مگر وہاں اب صرف وہ کرم خوردہ کٹنی رہتی تھی۔ میں نے اس سے سراج کے متعلق پوچھا تووہ پوپلی مسکراہٹ میں لاکھوں برس کی پرانی جنسی کروٹیں بدل کر بولی، ’’وہ گئی۔۔۔ اور ہیں۔۔۔ منگواؤں؟‘‘

    میں نے سوچا،اس کا کیا مطلب ہے۔ ڈھونڈو اور سراج دونوں غائب ہیں اور وہ بھی میری اس خفیہ ملاقات کے بعد۔۔۔ لیکن میں اس ملاقات کے متعلق اتنا متردد نہیں تھا۔۔۔ یہاں پھر میں اپنے خیالات آپ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا لیکن مجھے یہ حیرت ضرور تھی کہ وہ دونوں غائب کہاں ہوگئے۔ ان میں محبت کی قسم کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ڈھونڈو ایسی چیزوں سے بالاتر تھا۔ اس کی بیوی تھی، بچے تھے اور وہ ان سے بے حد محبت کرتا تھا، پھر یہ سلسلہ کیا تھا کہ دونوں بیک وقت غائب تھے۔میں نے سوچا، ہوسکتا ہے کہ اچانک ڈھونڈو کے دماغ میں یہ خیال آگیا ہو کہ سراج کو واپس گھر جانا چاہیے۔ اس کے متعلق وہ پہلے فیصلہ نہیں کرسکا تھا، پر اب اچانک کرلیا ہو۔

    غالباً ایک مہینہ گزر گیا۔

    ایک شام اچانک مجھے ڈھونڈو نظر آیا۔ اسی کھمبے کے ساتھ، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بڑی دیر کرنٹ فیل رہنے کے بعد ایک دم واپس آگیا ہے۔ اس کھمبے میں جان پڑ گئی۔ ٹیلی فون کے ڈبے میں بھی۔۔۔ چاروں طرف، اوپر تاروں کے پھیلے ہوئے جال، ایسا لگتا تھا آپس میں سرگوشیاں کررہے ہیں۔میں اس کے پاس سے گزرا۔۔۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرایا۔

    ہم دونوں ایرانی کے ہوٹل میں تھے۔ میں نے اس سے کچھ نہ پوچھا۔ اس نے اپنے لیے کوفی ملی چائے اور میرے لیے سادہ چائے منگوائی اور پہلو بدل کر اس نے ایسی نشست قائم کی کہ جیسے وہ مجھے کوئی بہت بڑی بات سنانے والا ہے، مگر اس نے صرف اتنا کہا،’’اور سناؤ منٹو صاحب۔‘‘

    ’’کیا سنائیں ڈھونڈو۔۔۔ بس گزر رہی ہے۔‘‘

    ڈھونڈو مسکرایا، ’’ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔بس گزر رہی ہے۔۔۔ اور گزرتی جائے گی۔۔۔ لیکن یہ سالا گزرتے رہنا یا گزرنا بھی عجیب چیز ہے۔۔۔ سچ پوچھیے تو اس دنیا میں ہر چیز عجیب ہے۔‘‘

    میں نے صرف اتنا کہا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو ڈھونڈو۔‘‘

    چائے آئی اور ہم دونوں نے پینا شروع کی۔ ڈھونڈو نے پرچ میں اپنی کوفی ملی چائے انڈیلی اور مجھ سے کہا، ’’منٹو صاحب۔۔۔ اس نے مجھے بتا دی تھی ساری بات۔۔۔ کہتی تھی، وہ سیٹھ جو تمہارا دوست ہے اس کا مستک پھرے لا ہے۔‘‘

    میں ہنسا، ’’کیوں؟‘‘

    ’’بولی۔۔۔ مجھے ہوٹل لے گیا۔۔۔ اتنے روپے دیے۔۔۔ پر سیٹھوں والی کوئی بات نہ کی۔‘‘

    میں اپنے اناڑی پن پر بہت خفیف ہوا، ’’وہ قصہ ہی کچھ ایسا تھا ڈھونڈو۔‘‘

    اب ڈھونڈو پیٹ بھر کے ہنسا، ’’میں جانتا ہوں۔۔۔ مجھے معاف کردینا کہ میں اس روز تم سے ناراض ہوگیا تھا۔‘‘ اس کے اندازِ گفتگو میں ان جانے میں بے تکلفی پیدا ہوگئی، ’’پر اب وہ قصہ خلاص ہوگیا ہے۔‘‘

    ’’کون سا قصہ؟‘‘

    ’’اس سالی کا سراج کا۔۔۔ اور کس کا۔۔‘‘

    میں نے پوچھا کیا، ’’کیا ہوا؟‘‘

    ڈھونڈو گٹکنے لگا، ’’جس روز آپ کے ساتھ گئی۔۔۔ واپس آکر مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ میرے پاس چالیس روپے ہیں۔۔۔ چلو مجھے لاہور لے چلو۔۔۔ میں بولا سالی، یہ ایک دم تیرے سر پر کیا بھوت سوار ہوا۔۔۔ بولی، نہیں۔۔۔ چل ڈھونڈو، تجھے میری قسم۔۔۔ اور منٹو صاحب، آپ جانتے ہیں۔۔۔ میں سالی کی کوئی بات نہیں ٹال سکتا کہ مجھے اچھی لگتی ہے۔۔۔ میں نے کہا چل۔۔۔ سو ٹکٹ کٹا کے ہم دونوں گاڑیوں میں سوارہوئے۔۔۔ لاہور پہنچ کر ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔۔۔مجھ سے بولی۔ ڈھونڈو۔ ایک برخا لا دے میں لے آیا۔۔۔ اسے پہن کر وہ لگی سڑک سڑک اور گلی گلی گھومنے۔۔۔ کئی دن گزر گئے۔۔۔میں بولا، یہ بھی اچھی رہی ڈھونڈو۔ سراج سالی کا مستک تو پھرے لا تھا۔ سالا تیرا بھی بھیجا پھر گیا جو تو اتنی دور اس کے ساتھ آگیا ۔۔۔منٹو صاحب!آخر ایک دن اس نے ٹانگہ رکوایا اور ایک آدمی کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ ڈھونڈو۔۔۔ اس آدمی کو میرے پاس لے آ۔۔۔ میں چلتی ہوں واپس سرائے میں۔۔۔میری عقل جواب دے گئی۔

    میں ٹانگے سے اترا تو وہ غائب۔۔۔ اب میں اس آدمی کے پیچھے پیچھے۔۔۔آپ کی دعا سے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے۔۔۔ میں آدمی آدمی کو پہچانتا ہوں۔ دو باتیں کیں اور میں تاڑ گیا کہ موج شوق کرنے والا ہے۔۔۔ میں بولا بمبئی کا خاص مال ہے۔۔۔ بولا، ابھی چلو۔۔۔ میں بولا، نہیں پہلے مال پانی دکھاؤ۔ اس نے اتنے سارٹ نوٹ دکھائے۔۔۔ میں دل میں بولا۔۔۔ چلو ڈھونڈو۔۔۔ یہاں بھی اپنا دھندا چلتا رہے۔۔۔ پر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ سراج سالی نے سارے لاہور میں اسی کو کیوں چنا۔۔۔ میں نے کہا، چلتا ہے۔۔۔ ٹانگہ لیا اور سیدھا سرائے میں۔۔۔ سراج کو خبر کی۔۔۔ وہ بولی، ابھی ٹھہر۔۔۔میں ٹھہر گیا۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد اس آدمی کو جو اچھی شکل کا تھا، اندر لے گیا۔۔۔ سراج کو دیکھتے ہی وہ سالا یوں بدکا جیسے گھوڑا۔۔۔ سراج نے اس کو پکڑ لیا۔‘‘

    ڈھونڈو نے یہاں پہنچ کر پیالی سے اپنی ٹھنڈی کوفی ملی چائے ایک ہی جرعے میں ختم کی اور بیڑی سلگانے لگا۔

    میں نے اس سے کہا، ’’سراج نے اس کو پکڑ لیا۔‘‘

    ڈھونڈو نے بلند آواز میں کہا ،’’ہاں جی۔۔۔ پکڑ لیا اس سالے کو۔۔۔ کہنے لگی۔ اب کہاں جاتا ہے۔۔۔ میرا گھر چھڑا کر تو مجھے اپنے ساتھ کس لیے لایا تھا۔۔۔ میں تجھ سے محبت کرتی تھی۔۔۔ تو نے بھی مجھ سے یہی کہا تھا کہ تو مجھ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ پر جب میں اپنا گھر بار، اپنا ماں باپ چھوڑ کر تیرے ساتھ بھاگ نکلی اور امرتسر سے ہم دونوں یہاں آئے۔۔۔ اسی سرائے میں آکر ٹھہرے تو رات ہی رات تو بھاگ گیا۔۔۔ مجھے اکیلی چھوڑ کر۔۔۔ کس لیے لایا تھا تو مجھے یہاں۔۔۔ کس لیے بھگایا تھا تو نے مجھے۔۔۔ میں ہر چیز کے لیے تیار تھی۔۔۔پر تو میری ساری تیاریاں چھوڑ کر بھاگ گیا۔۔۔ آ۔۔۔ اب میں نے تمہیں بلایا ہے۔۔۔ میری محبت ویسی کی ویسی قائم ہے۔۔۔ آ۔۔۔ اور منٹو صاحب، وہ اس کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔ اس سالے کے آنسو ٹپکنے لگے۔۔۔رو رو کر معافیاں مانگنے لگا۔۔۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔۔۔ میں ڈر گیا تھا۔۔۔ میں اب کبھی تم سے علیحدہ نہیں ہوں گا۔ قسمیں کھاتا رہا۔۔۔ جانے کیا بکتا رہا۔۔۔ سراج نے مجھے اشارہ کیا۔۔۔ میں باہر چلا گیا۔۔۔صبح ہوئی تو میں باہر کھاٹ پر سو رہا تھا۔۔۔ سراج نے مجھے جگایا اور کہا۔۔۔ چلو ڈھونڈو۔۔۔ میں بولا، کہاں۔۔۔؟بولی، واپس بمبئی۔۔۔ میں بولا۔۔۔ وہ سالا کہاں ہے۔۔۔ سراج نے کہا۔ سورہا ہے۔۔۔ میں اس پر اپنا بُرخا ڈال آئی ہوں۔‘‘

    ڈھونڈو نے اپنے لیے دوسری کوفی ملی چائے کا آرڈر دیا تو سراج اندر د اخل ہوئی۔۔۔ اس کا سفید بیضوی چہرہ نکھرا ہوا تھا اور اس پر اس کی بڑی بڑی آنکھیں دو گرے ہوئے سگنل معلوم ہوتی تھیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : سڑک کے کنارے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے