Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میٹھا معشوق

MORE BYچودھری محمد علی ردولوی

    کہانی کی کہانی

    یہ اس وقت کی کہانی ہے جب ریل ایجاد نہیں، ہوئی تھی لوگ پیدل،اونٹ یا پھر گھوڑوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ لکھنئو شہر میں ایک شخص پر مقدمہ چل رہا تھا اور وہ شخص شہر سے کافی دور رہتا تھا۔ مقدمے کی تاریخ پر حاضر ہونے کے لیے وہ اپنے قافلے کے ساتھ شہر کے لیے روانہ ہو گیا، ساتھ میں نذرانے کے طور پر میٹھائی کا ٹوکرا بھی تھا۔ پورے راستے اس میٹھے معشوق کی وجہ سے انھیں کچھ ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ آرام سے سو تک نہیں سکے۔

    اللہ بخشے مرزا صاحب کا دماغ بذلہ سنجیوں کا ذخیرہ تھا، زبان چٹکلوں کی پوٹ تھی۔ پھر عمر بھی اتنی پائی کہ دوسرے کے پاس اتنا سامان ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کے علاوہ انداز بیان کچھ ایسا تھا کہ سیدھی سیدھی بات روزمرہ کے واقعات جب کہنے لگتے تھے تو داستان گو کی داستانیں مات تھیں۔

    نہ معلوم کس طرح کا الٹ پھیر لفظوں کا ہوتا تھا کہ جملوں میں نئے نئے معنوں کی جھلک پیدا ہو جاتی تھی۔ فقروں میں اصلی معنی کے ساتھ ساتھ دوسرے پہلوؤں کی پرچھائیاں دکھائی دیتی تھیں جیسے نگینے کی چھوٹ پڑتی ہے۔ اختصار کے بادشاہ تھے۔ ایک دن ایک شاعر صاحب کہنے لگے میں تو بہت کم کہتا ہوں۔ مرزا صاحب بولے خیر غنیمت ہے۔ ان کا طول بھی ایسا ہی دل آویز ہوتا تھا۔ کسی نے مزاج شریف پوچھا، کہنے لگے اگر شکر نہیں بھی ہے تو شکایت کی مجال کس کو ہے۔

    ایک قصہ خود اپنے خاندان کا بیان کرتے تھے، مگر وہ زبان کہاں سے لاؤں گا، فرمانے لگے کہ غدر کے بعد ہمارے ایک دادھیالی عزیز تھے۔ لکھنؤ سے فاصلہ پر رہتے تھے۔ ان کا مقدمہ فائنانشلی میں تھا۔ ریل اس وقت تک نکلی نہیں تھی۔ لوگ شکرم اور اونٹ گاڑیوں پر سفر کرتے تھے۔ امراء کہاروں کی ڈاک بٹھاکر چلتے تھے۔ متوسط حال لوگ اپنے گھر کی رتھ بہلیوں پر معہ نوکروں چاکروں کے آہستہ خرام بلکہ مخرام کی چال چلتے تھے۔ انھیں حضرات میں مرزا صاحب کے چچا بھی تھے، خود بہلی پر اور مصاحبت میں مختصر ریاست کے دیوان منشی بخت بلی کائستھ جن کے چھوٹی بڑی ریاست کا ہونا ویسا ہی ممکن تھا جیسے ان کی ماش کی دال بے ہینگ کے ہو۔ جلو میں کارکن صاحب جن کو نائب کہہ لیجیے، ٹٹو پر ایک لٹھ بند سپاہی اور دونفر ہمراہی، جن میں ایک بڑے مرزا صاحب کا خدمت گار اور دوسرا نائب صاحب کا نیم سائیس اور نیم خدمت گار اور وقت ضرورت باورچی بھی۔ میری گستاخی کی جسارت معاف ہو۔ اس جگہ میں اپنے پڑھنے والوں کا امتحان لینا چاہتا ہوں، بھلا بتائیے تو اس کہانی کا ہیرو کون ہے۔ ’’اتنے کے بیچ موری بندیا ہرانی۔‘‘ ہے، انھیں لوگوں میں مگر تنکے اوٹ پہاڑ اگر آپ بوجھ گیے تو ہم بھی قائل ہیں۔

    بہلی کے سازوسامان میں بچھونے، لالہ کی لٹیا، مرزا صاحب کالوٹا، جانماز، مختصر سامان مطبخ، ایک عدد توا اور ایک دو پتیلیاں، کچھ دال مسالے کی پوٹلی بہلی کے پیچھے جال میں، مسل مقدمہ کی دیوان جی کی بغل میں، مگر لالہ صاحب اور بڑے مرزا صاحب کے درمیان میں اور گاڑی بان کے پیچھے یہ کون چیز رکھی ہے۔ حضرت اس کو نہ پوچھیے، یہی تو قصے کی جان ہے۔ اگر یہ نہ ہوتی تو کہاں ہم کہاں آپ، یہ کہانی، بڑے مرزا صاحب کے ایسے ہزاروں سفر کر گیے، ہزاروں سفر کر رہے ہیں اور لاکھوں سفر کریں گے، مگر ہر مسافر کی کہانی تھوڑے ہی لکھی جا سکتی ہے۔ داستان گو اور قدردانوں کو جمع کرنے والی وہی ہے جو بہلی کے بیچوں بیچ میں بڑی حفاظت سے رکھی ہے۔ یہ مٹھائی کی ایک ٹوکری ہے جس میں کم سے کم دس بارہ سیر مٹھائی ہوگی۔ اس پر ایک پرانی چادر سلی ہوئی ہے اور انداز سے سوغات معلوم ہوتی ہے۔

    تین دن دو راتوں کا سفر ہے، خدا خدا کرکے پہلا دن کٹا، سرا کی صورت دکھائی دی۔ کمریں کھلیں، اسباب اتارا گیا۔ لالہ نے عرض کی کہ ان کے ایک عزیز کا گھر سرائے سے تھوڑی ہی دور پر ہے۔ اگر بڑے مرزا صاحب اجازت دیں تو یہ وہیں سو رہیں۔ ضروری سامان مثل حقہ، بچھونے کے، کوٹھری میں اتارا گیا۔ باقی بھٹیاری کی سپردگی میں دیا گیا۔ اتنے میں بھٹیاری پان کھائے منہ لال کیے مسکراتی سامنے آن کھڑی ہوئی۔ میاں مٹھائی میرے یہاں نہ رکھتے تو اچھا ہوتا۔ میرے لڑکے بہت شریر ہیں، کھانے پینے کی چیز رکھنے والا میرا گھر نہیں۔ اگر نقصان ہو گیا تو میں کہاں سے پورا کروں گی۔ بڑے مرزا صاحب پریشان ہو گیے، بے ساختہ اپنے خدمت گار پر نگاہ جمائی اور پھر کارکن صاحب کی طرف بے بسی سے دیکھا اور زبان حال سے بولے کہ بتاؤ اب کیا کیا جائے۔جب کوئی کچھ نہ بولا تو فرمانے لگے کہ مٹھائی اس کوٹھری میں نہیں رہ سکتی۔ اپنے خدمت گار کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے کہ جب تک یہ مردود یہاں ہے مٹھائی کی ٹوکری اس کوٹھری میں نہیں رہ سکتی۔

    ملازم: (نہایت بے باکی سے جس میں گزشتہ اور موجودہ جھوٹے سچے الزامات کی شکایت بھی پائی جاتی تھی) ہم آپ کی کوٹھری کے پاس نہ جائیں گے۔ ایسی ایسی مٹھائی کی طرف ہم پھر کے بھی نہ دیکھیں گے۔ راستے میں چھوڑ کر چلے جانا نمک حرامی ہے، مگر گھر پہنچ کر میاں ہمارا حساب ہو جائے۔ پیچ پی ہزار نعمت کھائی۔ اب ہم نوکری نہ کریں گے۔ چار آدمیوں کے بیچ میں جب دیکھو آپ ہم کو چوری لگاتے ہیں، ہاتھ بیچا ہے کوئی ذات نہیں بیچی ہے، جب آبرو ہی نہ رہی تو نوکری کس کام کی۔ اپنے گھر کے سوکھے ٹکڑے ہم کو بہت ہیں، جہاں کام کریں گے وہیں پیٹ پل جائےگا۔

    بڑے مرزا صاحب (نائب صاحب کی طرف اس طرح مخاطب ہوئے گویا انھوں نے ملازم کی باتیں سنی ہی نہیں) شیخ جی یہ مٹھائی کہاں رکھوائی جائے۔

    شیخ جی: آپ کو اگر ایسا ہی خیال ہے تو منشی بخت بلی کے ساتھ کر دیجیے، صبح کو لیتے آئیں گے۔ ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ لالہ تم یہ ٹوکری لیتے جاؤ، اسی طرح یہ بچ سکتی ہے، نہیں تو یہ مزدور ضرور کھا جائےگا۔

    ناظرین! ایسے بدتمیز، بدنیت نوکر کو رکھنا مرزا صاحب ہی کا کام تھا۔ کیونکہ بجائے ہمارے آپ کے مرزا صاحب ہی کا ہاتھ پتھر کے نیچے دبا تھا۔ گھر میں ایک نوجوان لڑکی رہتی تھی۔ اس سے اور بڑے مرزا صاحب سے کچھ لگا سگا ہو گیا، بےچارے بھاری بھرکم، مہذب، شائستہ، ذی عزت آدمی تھے، مگر دل کے ہاتھو ں مجبور ہوگیے تھے اور اس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں رذیل شریف سب میں مساوات ہوتی ہے۔

    بندۂ عشق شدی ترک نسب کن جامی

    کاندریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست

    چیز اچھی تھی، جیسے گھورے کا گلاب، نہ پگڑی میں لگاتے بنے نہ توڑکر پھینکتے بنے۔ اس لیے یہی ٹھہری تھی کہ ایک ٹٹی کی آڑ ضرور ہونی چاہیے اور یہ ملازم صاحب وہی ٹٹی تھے، جن کی آڑ میں شکار ہوتا تھا۔ چونکہ ان واقعات سے تینوں فریق واقف تھے۔ اس وجہ سے آپ ہی کہیے کہ اس تثلیث میں تفریق کیوں کر ہو سکتی تھی۔ رات کو لوگوں نے آرام کیا اور صبح اندھیرے منھ چلنے کا پاتراب ہوا۔ مگر منشی جی کو آنے میں کچھ دیر ہوئی۔ مرزا صاحب کا ملازم دوڑا گیا۔ منشی جی آئے تو مگر بہت پریشان اور شرمندہ۔

    منشی جی: حضور ایک بڑی غلطی ہو گئی ہے، جو سزا دیجیے کم ہے، مجھ سے ایک چوک ہو گئی۔

    مرزا صاحب: کیا چوک ہو گئی ہے؟

    منشی جی: چوک حضور یہ ہو گئی ہے کہ جب آپ کا خدمتگار پہنچا تو میں نے اپنے عزیز سے کہا کہ مٹھائی اندر سے منگواؤ اور میں بیٹھ کر داتون کرنے لگا، اتنے میں ٹوکری میں کتے نے منھ ڈال دیا۔

    بڑے مرزا صاحب: ایں یہ کیسے ہوا (خدمت گار کی طرف اشارہ کرکے) اور یہ کہاں تھا؟

    منشی جی: یہ بھی وہیں تھے۔ انھوں نے ہی دوت دوت کہا مگر وہ منھ ڈال چکا تھا۔

    بڑے مرزا صاحب: اجی بالکل غلط، کتا وتا کچھ نہیں، یہ اسی بےایمان کی حرکت ہے۔ تم منشی جی اس کو کیا جانو یہ بڑا حرام زادہ ہے۔ حرام خور نمک حرام آدمی ہے۔

    ملازم: آپ ہم ہی کو کہتے ہیں، دیکھیے کپڑا دانت سے پھٹا ہے کہ نہیں، اگر میں دوت دوت نہ کرتا تو سب کھا جاتا۔

    بڑے مرزا صاحب: کچھ نہیں، ایک ہی طرف تو خراب ہوئی ہے۔ اس نے کپڑا دانت سے پھاڑ ڈالا ہوگا اور پھر دوت دوت چلایا ہوگا۔ اجی میں اس کے ہتھکنڈوں سے خوب واقف ہوں۔ بھٹیاری سے کہو کہ جلدی سے اس کو سی دے، یہ مٹھائی خراب وراب نہیں ہے۔

    لیجیے صاحب دوسرے دن کا سفر شروع ہوا اور شام کو بجائے سرائے میں سونے کے میدان میں پڑاؤ ڈالنے کی ٹھہری، چاندنی آدھی رات کے پہلے پہلے کھیت کر آئےگی۔ چپقلش سے یہ کھلے میدان کی ہوا کہیں خوشگوار ہے۔ بہلی ایک طرف کھڑی کی گئی اور بیل اور گھوڑا درختوں سے باندھے گیے۔ گاڑی بان اور سائیس جانوروں کی حفاظت کے لیے نکل گیے۔ باقی لوگ مٹھائی کی رکھوالی کرنے لگے۔ بیچ میں مٹھائی کی ٹوکری اور اس کے ایک طرف بہ نفس نفیس خود مرزا صاحب کا بستر لگا۔ دوسری طرف نائب صاحب، تیسری طرف منشی جی کا اور چوتھی جانب سپاہی تعینات ہوا۔ یہ دیکھ کر خدمتگار نے اپنا مختصر بچھونا بہت دور ہٹ کر لگایا۔ رات کو دوکا عمل رہا ہوگا کہ دور سے آواز آئی، دوت دوت۔مرزا صاحب اٹھ بیٹھے اور نائب صاحب سے کہنے لگے، شیخ جی دیکھتے ہیں آپ، کتا اسی سالے کو دکھائی دیا اور کسی کو نہیں۔

    خدمت گار: میاں آپ گالی دے رہے ہیں۔ وہ دیکھیے کالا کالا جا رہا ہے۔ خیر رات کو بھاگتا ہوا کتا کسی کو کیا دکھائی دیا ہوگا۔ مگر ٹوکری کا کپڑا پھر اسی طرح پھٹا ہوا پایا گیا اور کچھ مٹھائی بھی ادھر ادھر پڑی دیکھی گئی۔ کتے اور آدمی کا مسئلہ دوبارہ تازہ ہوا۔ آج بھٹیاری تو تھی نہیں، لیکن سوئی دھاگہ سپاہی کے بٹوے میں نکل آیا اور مرزا صاحب نے خود گانٹھ گانٹھ کر ٹوکری کو درست کیا اور شامو شام بخیر و خوبی لکھنؤ پہنچ گیے۔

    لکھنؤ سے دو چار کوس پہلے جب بڑے مرزا صاحب ایک خاص ضرورت سے اَرہر کے کھیت کی طرف تشریف لے گیے تھے اور خدمت گار لوٹا لے کر ساتھ گیا تھا، اس وقت منشی جی اور سپاہی میں مٹھائی کی باتیں چھڑیں تھیں۔ ان دونوں آدمیوں کو مٹھائی سے کوئی واسطہ نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے یہ لوگ بہتر رائے قائم کر سکتے تھے۔ منشی جی کا خیال تھا کہ مرزا صاحب اتنے شوق سے مٹھائی کی سوغات لے کر چلے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ کتے والی بات ثابت ہو جائے کیونکہ پھر تو مٹھائی پھینک ہی دینا پڑے گی۔ سپاہی اس کے خلاف تھا، مگر اس کی بھی رائے بدل چکی تھی کہ نائب صاحب کا ملازم آ گیا اور اس نے آہستہ سے کہا کہ خدمت گار نے مٹھائی کی دو ڈلیاں مجھ کو بھی دی ہیں۔ اب معاملہ صاف ہو گیا۔ مرزا صاحب سے کسی نے نہیں کہا۔ بہرحال لکھنؤ پہنچ کر مٹھائی رات کو سرائے کی کوٹھری کے اندر قفل میں رکھی گئی اور رات ہی سے صبح کو کچہری کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ منشی جی کسی اور کام سے بھیجے گئے اور خود مرزا صاحب مع نائب صاحب کے عدالت کو چلے۔ احتیاطاً خدمتگار علیہ ماعلیہ کو ساتھ لے لیا کہ مٹھائی اس کے دست برد سے بچی رہے۔

    عدالت کے دروازے پر خدمتگار سے بستہ مانگا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ کوٹھری ہی میں رکھا ہے۔ مٹھائی کی تباہی اور نیز لذت تینوں آدمیوں کی نگاہوں میں پھر گئی، مگر مرتا کیا نہ کرتا، وہی خدمتگار واپس بھیجا گیا اور سخت حکم دیا گیا کہ الٹے پاؤں واپس آئے، مٹھائی کا خیال بار بار آیا، مگر مجبوری تھی۔ اب مرزا صاحب کی الجھن نہ پوچھیے، بے چارے پریشان حال سراسیمہ ادھر ادھر ٹہل رہے ہیں۔ کیوں شیخ جی اگر پکار ہو گئی تو کیا ہوگا۔ مقدمہ تو خاک میں مل ہی چکا۔ غضب تو یہ ہے کہ جو کوئی سنےگا کیا کہےگا کہ گیے تھے مقدمہ لڑنے اور مسل گھر ہی چھوڑ آئے۔ ہمارے مدمقابل وطن پہنچ کر کیا کیا ہنسی اڑائیں گے۔ قصے کو کیسا کیسا مشہور کریں گے، نمک حرامی کی انتہا کر دی۔

    اب گھر پہنچتے ہی اس مردود بےایمان، مربی کش محسن سوز مارآستین کو نکال ہی دیں گے اور بری طرح نکالیں گے۔ بھلا میں کہتا ہوں کہ دوسرے فریق سے مل تو نہیں گیا ہے اور جو مسل سرا میں بھی نہ ہوئی تو۔ یہ بڑا بےوقوف ہے اس کا اعتبار تو شاید دشمن بھی نہ کریں۔

    شیخ جی: جی نہیں، اتنے دنوں کا رہا سہا ہے، ایسا تو کیا کرےگا، دیکھیے معلوم ہوا جاتا ہے۔ اگر پیشی کے وقت تک نہ آیا تو کوئی نہ کوئی ترکیب نکال ہی لی جائےگی۔ آپ پریشان نہ ہوں۔

    بڑے مرزا صاحب: پریشان کیسے نہ ہوں، سب کی کرائی محنت غارت غول ہوئی جا رہی ہے۔ نقصان مایہ اور شماتت ہمسایہ اوپر سے۔ خدا کرے ابھی پکار نہ ہو۔مرزا صاحب یہ دعائیں مانگ ہی رہے تھے کہ قیامت کا صور پھنک گیا، مرجا فلاں بنام فلاں کوئی حاجر ہے۔ چہرے پر ہوائیاں چھوٹنے لگیں۔ کلیجہ بلیوں اچھلنے لگا، ہاتھ پاؤں برف ہوگیے، حواس یہ جا وہ جا۔ خدمت گار سے جا ملے۔

    بڑے مرزا صاحب: اب کیا ہوگا شیخ جی۔

    شیخ جی: چلیے تو عدالت سے عذر کریں گے۔

    خدا نے خیر کی کہ وہاں پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ تاریخ بڑھ گئی۔ جان میں جان آئی۔ باہر نکلے، کچھ خوش کچھ غصہ لمبے لمبے قدم رکھتے چلے کہ مسل کی خبر لیں۔ سرا کے پھاٹک پر نائب صاحب کا نوکر دکھائی دیا۔

    بڑے مرزا صاحب: اور وہ کیوں نہیں آیا۔

    نوکر: اس نے کہا کہ میرے پاؤں میں موچ آ گئی ہے۔ تم لے کر جاؤ۔

    بڑے مرزا صاحب: شیخ جی مٹھائی کی خیر نہیں معلوم ہوتی۔

    دور ہی سے کوٹھری کی کنڈی اتری ہوئی اور دروازہ بھڑا ہوا دکھائی دیا۔ مرزا صاحب نے چال بدل دی اور دبے پاؤں چلنے لگے۔ دراڑ سے بھڑ کر ملاحظہ کیا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ پلنگ پر رنگ برنگ کی مٹھائی کا چورا اور ٹکڑے بکھرے ہوئے بہار دکھا رہے ہیں۔ ٹوکری کا گریبان پہلے ہی سے تار تار ہو چکا ہے اور رقیب رو سیاہ کا منھ اور جیبیں پھولی ہوئی ہیں اور وہ پانچوں انگلیاں زمین پر رگڑ رگڑ کر صاف چادر پر موقع موقع سے کتے کے پاؤں بنا رہا ہے۔ دروازہ کھلا دھڑ سے۔ چٹاخ چٹاخ، چٹ پٹ، دھم پٹ تڑ، بھلا بےاندھی رانڈ کے جنے، آج پکڑا گیا نا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے