Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چیچک کے داغ

راجندر سنگھ بیدی

چیچک کے داغ

راجندر سنگھ بیدی

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    جے رام بی اے پاس ریلوے میں اکسٹھ روپے کا ملازم ہے۔ جے رام کے چہرے پر چیچک کے داغ ہیں، اس کی شادی سکھیا سے ہوئی ہے جو انتہائی خوبصورت ہے، سکھیا کو اول اول تو جے رام سے نفرت ہوتی ہے لیکن پھر اس کی شرافت، تعلیم اور برسر روزگار ہونے کے خیال سے اس کے چیچک کے داغ کو ایک دم فراموش کر دیتی ہے اور شدت سے اس کی آمد کی منتظر رہتی ہے، جے رام کئی بار اس کے پاس سے آکر گزر جاتا ہے، سکھیا سوچتی ہے کہ شاید وہ اپنے چیچک کے داغوں سے شرمندہ ہے اور شرمیلے پن کی وجہ سے نہیں آ رہا ہے، رات میں سکھیا کو اس کی نند بتاتی ہے کہ جے رام نے سکھیا کی ناک لمبی ہونے پر اعتراض کیا ہے اور اس کے پاس آنے سے انکار کر دیا ہے۔

    اب وہ ایسی جگہ کھڑا تھا جہاں کسی کی تنقیدی نگاہ نہیں پہنچتی تھی۔۔۔لوہے کے بڑے کیلوں والے، بلند شہری پھاٹک کے پیچھے، جہاں ڈھور کا سارا گوبر بکھرا پڑا تھا اور اس کی بدبو، ماگھ کی دھند کی طرح، سطح زمین کے ساتھ ساتھ تیر رہی تھی۔ جہاں اس کی بہن ایک بٹھل میں، گلی کی کسی زچہ کے لیے، گائے کا پیشاب لے رہی تھی۔ لیکن سکھیا نے تو ان کا منھ بہلی ہی میں دیکھ لیا تھا۔ اس پر چیچک کے بڑے بڑے اور گہرے داغ تھے، جیسے اس کے میکے ماتن ہیل کی موٹی ریت پر بارش کے بڑے بڑے قطرے پڑے ہوں۔

    اس نئے گھر کا رہن سہن کتنا پرانا تھا اور یوں بھی کچھ سوجھ والے ہاتھوں کا محتاج۔۔۔ دیواروں میں رنجیت شاہی چھوٹی اینٹیں، بوڑھے کا کا کے دانتوں کی طرح اپنے مرے ہوئے جبڑوں میں علاحدہ علاحدہ اور باہر ابھری ہوئی تھیں۔ دیواروں کی ٹیپ ۔۔۔ سن، ماش اور چونا برس ہوئے اڑ چکا تھا۔ ایک دیوار پر مٹی اور بھوسہ ملا کر لیپن کیا گیا تھا۔ پھر اس پر چونا پھیر کر، گیروے رنگ سے، بڑے بڑے اور بد زیب ناگری حروف لکھ دیے گئے تھے۔ بھنڈارے کے قریب، ہنڈیا پر مہریا بیٹھی ایک بے محل اور بے سر گانا گا رہی تھی۔۔۔ اپجس (گناہ) کی مت باندھو گٹھڑیا۔۔۔ بیچاری مہریا! وہ ان گناہوں پر نادم ہو رہی تھی، جو اس نے کبھی نہیں کیے تھے، جو وہ کرنے کے اہل ہی نہ تھی۔ یا شاید وہ یہ گانا اس لیے گا رہی تھی کہ چھوٹے لالا کی شادی پر اسے بہت تھوڑا لاگ ہوا تھا۔

    ’’ارے او لالا! تو کیوں کھڑا ہو رہیا کوبرماں؟‘‘

    گھر کی اماں نے آواز دی۔ اس وقت بڑا لالا ناریل کا دم لگائے ہوئے، صحن میں کھڑا اماں پر ہنس رہا تھا۔ اب رام نام کے بعد میا نے کلی کردی۔ بھلا کیا لابھ اس پوجا پاٹ سے؟ رام نام ہی کلی کر دیا۔ واہ ری اماں! چپ رے، گھر کی اماں نے ایک بھونڈی مسکراہٹ سے کہا اور پھر پوجا کی آخری قسط پوری کرنے کے لیے بڑھیا نے پیتل کی ٹوٹی پھوٹی سی لٹیا اٹھائی اور صحن کے مبہوت برہمن۔۔۔ پیپل کے سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے پاؤں پر برف کا سا ٹھنڈا پانی گرا دیا۔ پیپل کانپ اٹھا۔ یا شاید یہ پروا کا جھونکا تھا،پھر پیڑ کے گھیر میں مولی کا سرخ اور زرد تاگا لپیٹ دیا۔ بڑے لالا کا چھوٹا لالا بہت نٹ کھٹ تھا۔ اسے چھوٹے بڑے، گلی گواہنڈ کے سب ’’صاحب‘‘ کہتے تھے۔ گھر کے سب لوگوں کے احتجاج کے باوجود اس نے ایک بیسا پلہ پال لیا تھا اور باپ دادا کا جنم بھرشٹ کر دیا تھا۔ صاحب اٹھا تو پلہ بھی ساتھ ہی۔ اٹھتے ہی پلے نے انگڑائی لی، منھ کھولا، زبان مچکائی، دھواں سا اڑایا اور صحن کے پیپل کے چرنوں میں پہنچ، ایک ٹانگ اٹھا، اپنے واحد طریقے سے پوجا کر ڈالی۔

    سکھیا کے سر میں رات کے سو میل کے چکر باقی تھے۔ لاری کی گھوں گھوں ،جھر جھر ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اور اسے گھیرے آ رہے تھے۔ بڑی نند نے چینی کی ایک پلیٹ میں لیموں کا اچار لا رکھا تھا۔ آ، ہا، چھی! سکھیا نے بیزار ہوتے ہوئے کہا۔ یہ لوگ چینی کے ٹنڈر استعمال کریں۔ انہی جھوٹے برتنوں میں کھانا کھاویں۔ ملیچھ مسلمانوں کی طرح۔۔۔ چھی! اچھی بہن! جا تو ذرا، سکھیا نے قریب کھڑی، ان کی بھانجی کو کہا۔ کوئی مراد آبادی کٹوریا نہیں تمھارے ہیاں؟ اس میں تو لے آؤ تھوڑی سی چاٹ ۔ متلی رک جائے۔ ذرا میں چینی وینی کے برتن میں نا کھاتی ۔ اور دلہن ناک چڑھا، ابکائیاں لینے لگی۔ بڑی نند، جی میں خوش ہوئی ۔ اماں تو بوڑھی ہو گئی۔ وہ تو جھوٹے برتنوں اور دوسروں میں فرق کیا دیکھے گی ،لیکن یہ۔۔۔ اب اس نیا کا کھویا آ گیا گھر ماں!

    نند نے آپی پلیٹ اٹھائی اور ٹل گئی۔ بلند شہری پھاٹک کی اوٹ میں کھڑے وہ سکھیا کو صاف دکھائی دے رہے تھے۔ انگریزی طرز کے بال کٹا رکھے تھے۔ نند کہہ رہی تھی۔ نکھلؤ سے بی، آپاس کیا جیرام نے۔ گھر سے پرے شہر میں، کنواروں کے مکان (بورڈنگ) میں رہتے تھے۔ جینؤ بھی نا پہنتے، سر پہ چوٹی بھی نا رکھتے۔ سکھیا نے جی میں کہا۔ یہ ملیچھ ودیا ہے نا۔۔۔ یہ رنگریزی (انگریزی) اور پھر ان چیچک کے داغوں کا کیا ہو گا؟ جب یہ خوفناک منھ قریب آئے گا تو طبیعت بہت گھبرائے گی اور کوئی لیموں کا اچار کام نہیں آوے گا۔ سب سو رہے ہوں گے، سب کچھ مجھے اکیلے ہی بھگتنا ہو گا۔ کیا دیکھا ان لوگوں کا چاچا نے؟ مجھے گھور نرک میں دھکیل دیا اور پلنگ پر پڑی، سکھیا سر زانوؤں میں دبا رونے لگی۔

    محلہ ہجاری کی عورتیں ابھی تک دلہن کا کھرا کوٹا پرکھنے آ رہی تھیں۔ دلہن کھری تھی، پانسے کا سونا۔ جس دھرم کانٹے میں کہو تل جائے۔ اسے منھ بسورے دیکھ کر آپ بھی منھ بسورنے لگیں ۔۔۔ سچ ہے، ماں باپ بڑی دولت ہے کیسے چھوٹ جائیں ایک دن میں؟ ایک عورت بولی، جب میری سادی ہوئی تھی تو ۔۔۔ اس کے بعد وہ عورت سکھیا سے بھی اونچے سسکیاں لینے لگی۔ سکھیا حیران تھی۔ اس نے اس وقت تو ماں باپ کو یاد نہیں کیا تھا اور اس اَدھکڑ عورت کا نچلا ہونٹ، اونٹ کے ہونٹ کی طرح لٹک گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس ادھکڑ کو آپ ہی بیاہ سادی کے گھر رونے کا اشگن محسوس ہونے لگا۔ اپنے دوپٹے سے اس نے آنکھوں کا سیل پونچھ لیا ۔ دنیا کی یہی ریت چلی آئی ہے، بٹو! تو سکھ یہاں کا مانگ! تمھارے کاکا تو گؤ روپ ہیں اور جے رام تو بیٹیوں جیسا بیٹا ہے۔ جبان کاں ہے منھ میں؟ رات کو رات کہے، دن کو دن ۔۔۔ ناچے گا تیرے اسارے۔

    آج بڑا شبھ دن ہے، گھر کی اماں بولی۔ گلی میں جو امر تو ہے نا، اس کے ہاں بالا ہوا۔ تیرہ دن ہوئے پنجابیوں کے ہاں بیٹا ہوا۔ تبھی وہ آج گؤتر (گائے کا پیشاب) نہلاوے کے لیے لے گئی۔ یہ پھصل بیٹوں کی ہے۔ بیٹوں کی بہار ہے اور سادیوں کی۔ ادھر بیٹا ہوا، ادھر سادی ہوئی۔ اری! سمدری کی ماں۔ کاں رہا تیرا صاحب؟ بڑی بہو گھر آئی تو میں نے تیرا صاحب گودی ڈالا تھا۔ اوپر تلے تین بیٹے ہوئے۔ منجھلی کی گودی میں بٹھایا تو ٹپک پہلے سال لالا اور دوسرے سال بٹو۔ لیکن بٹو کا بری ہے۔ لالا سے بھی زیادہ موہوے۔ گودی ہری چہئے اور کاں ہے وہ؟ میں اسے دلہن کی گود میں بٹھاؤں ہوں۔

    سکھیا گٹھڑی ہو گئی۔۔۔ بیٹا اور چیچک کے داغ!

    گوجر ڈھور کھولنے کے لیے آ گیا تھا اور ایک کمین لنگر لنگوٹا کس صحن کو پھاؤڑے سے صاف کر رہا تھا۔ دھند، شرماتے ہوئے سورج کی کرنوں میں حل ہو رہی تھی اور بدبو کو کمین کے تیج نے سمیٹ لیا تھا۔ دھند کا گھونگٹ اٹھتے ہی صبح کا چاند سا مکھڑا دکھائی دینے لگا۔ قصبے کے ہیجڑے، بٹ کر پنجابیوں کے ہاں اور ادھر گانے بجانے چلے آئے۔ اس وقت امرتو کے ہاں جمعدارنی سرس باندھ رہی تھی۔ سکھیا سبھی کچھ دیکھتی تھی، لیکن اسے سب کچھ کاٹنے کو دوڑتا تھا۔

    صحن کے دھوئے جانے سے ’یہ‘ ہلے اور پلے کو چمکارتے ہوئے بڑے بھیا کے پاس چلے آئے۔ لیکن یہاں بھی یہی دکھائی دیتا تھا جیسے چھپ رہے ہیں اور اپنا چیچک سے بھرا ہوا چہرہ خود ہی دکھانے سے ہچکچاتے ہیں۔ سکھیا کے دل میں کچھ رحم سا پیدا ہو گیا۔ رام کسی کو بدصورت بھی نہ بنائیں۔ اپنے آپ سے شرم آتی ہے۔ مانتی ہوں، اس میں ان کا کوئی قصور نہیں، لیکن میرا کیا قصور ہے؟ میری شکل سے تو عورتیں جلتی تھیں اور ان کی شکل سے تو بھوت بھی نا جلیں۔

    بڑی نند مرادآبادی برتن میں اچار لے آئی۔ سکھیا نے اپنی پتلی پتلی انگلیاں کشمیری فرو سے باہر نکالیں اور اچار کی طرف بڑھائیں۔ نند نے بھابی کی انگلیاں دیکھیں اور پھر اپنی موٹی گوبھی کے ڈنٹھر کی سی انگلیاں، اور بولی ،جیرام نے تو کوئی موتی دان کیے ہیں پچھلے جنم میں۔ سرسوں کی ناڑھ کی سی نازک اور لانبی انگلیاں ہیں، سچ بتا، سکھیا بھابی،کون سانچے میں ڈھالی تھیں تم؟

    اتنا پریم؟ سکھیا سوچنے لگی۔ یہ رشتے ہی کچھ ایسے ہوتے ہیں۔ آپی آپ اتنا پیار ہو جاتا ہے۔ اس کی خاطر سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے۔ اس کے لیے ساس، سسر، جٹھانی، دیورانی، نند، نندوئی سبھی کی سہنی پڑتی ہے۔ لیکن جب وہی ایسی صورت کا ہو تو کس کی سہے گا آدمی؟ افیم کا گولا کھا، سو رہے۔

    ’’تو برتن بٹائے گی؟‘‘ نند نے پوچھا۔

    سکھیا چپ رہی۔ وہ اس رسم کو ادا کرنے سے شرماتی تھی۔

    نند نے سکھیا کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا اور منھ کو اوپر اٹھا دیا۔ آنکھیں بند تھیں جیسے بہت رس آ رہا ہو۔ ہونٹ سیپ کی طرح ملے ہوئے تھے۔ اوپر کے ہونٹ کی کمان کتنی اچھی دکھائی دیتی تھی۔ نند نے کہا۔

    ’’اچھی ! ایک بات بتا۔‘‘ سکھیا نے سوال کی صورت میں آنکھیں کھول دیں۔ نند نے ادھر ادھر دیکھا۔ سب عورتیں اپنے اپنے کام میں مشغول تھیں۔ ’’کیا جیرام نے تجھے دیکھا ہے؟‘‘ وہ بولی ۔ سکھیا کا جی چاہا کہ وہ پوچھے۔ کون جیرام؟ اور پھر بڑا مزا رہے۔ لیکن اس نے منھ پرے ہٹا لیا اور گٹھڑی ہونے لگی۔ نند ایک دیہاتن تھی اور زیادہ طاقتور۔ اس نے دلہن کو سکڑنے نہ دیا اور پھر اپنا سوال دہرا دیا۔ سکھیا نے جان چھڑانے کے لیے ہاں میں سر ہلا دیا۔

    اسی شادی کے سلسلے میں کسی رسم کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ شاید وہی برتن بانٹنے تھے۔ پرات میں دودھ اور پانی ملا کر کچھ روپئے بھی رکھ دیے گئے تھے۔ کاکا ہلو ان کی گتھی لے آئے تھے۔ اس میں روپئے ہی روپئے تھے، تاکہ سکھیا ایک مٹھی میں جی بھر کر روپئے نکال لے۔ نند نے بتایا، بہو کا ہاتھ بہت نازک ہے۔ کاکا جی ہی جی میں خوش ہوئے۔ ایک ہاتھ میں بہو زیادہ سے زیادہ ساٹھ روپئے نکال لے گی۔ کاکا کے قریب نندوئی کھڑا تھا۔ وہ گھر کا داماد تھا۔ چھوٹا نندوئی، اس کا حریف نہیں آیا تھا۔ اس نندوئی نے سر پر ململ کا پورا ایک تھان لپیٹا ہوا تھا۔ نیچے لمبا کوٹ وہ بھی لٹھے کا اور کمر میں آدھی دھوتی نے اسے بہت مضحکہ خیز بنا دیا تھا۔ گھر کا داماد ہونے کی وجہ سے اس کی بہت پوچھ ہوتی تھی۔ وگرنہ وہ فورا بگڑ جاتا تھا اور اس معتبر آدمی کے بگڑنے سے سبھی ڈرتے تھے۔ ایک جیرام اس سے نہیں ڈرتا تھا۔ اسے نندوئی کے وجود سے شرم آتی تھی۔

    سب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ سکھیا کے کمرے کی کھڑکی سے دور زمین کا اونچ نیچ، دوشیزہ کی ان ڈھکی چھاتیوں کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ ان ٹیلوں کے قریب، کسی کھیت کی پنیری سرکی ہوئی انگیا سی بن گئی تھی۔ زمین اپنی عریانی کو چھپانے کے لیے دھند کی چادر لپیٹتی تھی، لیکن سورج اس کی ساری چادر کو کھینچ لیتا تھا۔ آخر زمین بے بس ہو کر پڑی رہی۔ ’یہ‘ اب اور قریب آ گئے تھے اور سکھیا انھیں اچھی طرح سے دیکھ سکتی تھی۔ وہ دو منٹ کے قریب ایک ٹک جیرام کو دیکھتی رہی۔ جیرام کو ایک اور عادت بھی تھی۔ وہ پل دو پل کے بعد سر کو ایک جھٹکا سا دیتا تھا۔ جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔ ادھر آ جاؤ۔ شاید اسی لیے جیرام عورتوں کے قریب نہیں جاتا تھا۔ دو منٹ دیکھنے سے سکھیا کی نظروں میں چیچک کے داغ گویا دھل گئے اور جیرام کا چہرہ بے عیب دکھائی دینے لگا۔ سکھیا سوچنے لگی۔ جس طرح دو پل دیکھتے رہنے سے وہ چہرہ صاف دکھائی دینے لگا ہے، ساری عمر ساتھ رہنے سے شاید یہی منھ اتنا مانوس ہو جائے کہ چیچک کے داغ دیکھتے ہوئے بھی دکھائی نہ دیں۔

    ہولے ہولے دوپہر ہوئی۔ دن ڈھلنے لگا۔ سکھیا نے کاکا کی گتھی میں ہاتھ ڈالا۔ اپنے ہاتھ کو پورا پھیلایا اور اسی پچاسی کے قریب روپئے نکال لیے۔ سب عورتیں ہنسنے لگیں۔ بہو بڑی چالا ک ہے، اے کاکا! سنبھال کے رکھیو اپنی گتھی کو۔ بہت خرچیلی بہو آئی ہے۔ دوسری بولی۔ اتنا کمایا ہے کاکا نے دودھ سے، سات پشت تک کافی ہے اور کاکا کیا دھن کو سمادھی میں لے جائے گا؟ گھر کی اماں اپنے کاکا کو بچانے کے لیے نکل آئی۔ میرا جیرام کیا کم کماوے ہے؟ تین بیس سے اوپر ایک پاوے ہے ریلوائی ماں۔ دو جیو ہیں۔ کوئی بوجھ نہیں، باجھ نہیں۔ کھاویں، موج اڑا ویں۔

    اچھا ہوا، سکھیا کو بھی ان کی آمدنی کا اندازہ ہو گیا۔ تنخواہ تو اتنی بری نہیں تھی۔ آج کل کہاں اکسٹھ روپے ملتے ہیں؟ انھوں نے چودہ جماعتیں پڑھی ہیں۔ تو کون سی بڑی بات کی ہے۔ سکھیا کے چچیرے بھائی نے سولہ پڑھی تھیں۔ اوپر سے ’’کانون‘‘ اور صوبے کا کونہ کونہ چھان مارا۔ آخر ایک ٹھگ کمپنی میں نوکر ہو گیا۔ اس کے بعد برتن بانٹنے تھے لیکن جیرام نہ آئے۔ شاید انھیں سکھیا کی نفرت کا پتہ چل گیا تھا اور وہ اکیلے میں اپنی صورت کو کوس رہے تھے۔ مہریا اپنی ہی ’گجل‘‘ (غزل) گا رہی تھی۔ سکھیا نے کہا۔۔۔ اپجس کی مت ۔۔۔ اور جیرام کو یہی محسوس ہوتا تھا جیسے یہ گانا اس کے حسب حال ہے۔ جو بھی سنتا تھا مہریا کو یہ گانا گانے سے روکنا چاہتا تھا، لیکن روکنے سے پہلے ہر مرد عورت کو اس میں اپنی ہی زندگی دکھائی دیتی تھی اور وہ مہریا کو ڈانٹتے ڈانٹتے آپ اس کے رس میں غرق ہو جاتے۔

    سکھیا نے جیرام کی تصور میں اپنے قریب آتے دیکھا۔ اس وقت سکھیا کو کمر سے نیچے سارا جسم جلتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ یا پھر کانوں کی کنونیاں بھڑک رہی تھی۔ یہ اگن اتنی زبردست تھی کہ اس میں چیچک کے سب داغ بھسم ہو گئے تھے۔ داغ تو ایک طرف اگر چہرہ حبشی کا سا ہوتا تب بھی سکھیا کو کچھ محسوس نہ ہوتا۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور یا پھر آگ کے شعلے تھے جس میں ایک مرد اور عورت کے مجسمے کندن کی طرح دمکنے لگے تھے۔

    ان ہی خیالوں میں سکھیا جیرام کی شکل کو بھول چکی تھی۔ وہ بہت سی باتیں بھول جاتی تھی۔ اسے رہ رہ کر خیال آتا۔ وہ رسم پر آئے کیوں نہیں؟ ذرا رونق ہو جاتی۔ اگرچہ دل نفرت سے دگ دگ کرنے لگتا، لیکن اسی نفرت کا اور کیا علاج ہے؟ یہی نا کہ اور قریب ہو جائے آدمی اور کسی کی تمام خامیاں، خوبیوں میں تبدیل ہو جائیں۔

    وہ نہیں آئے۔ انھیں کیسے پتہ چل گیا کہ مجھے ان سے نفرت ہے۔ سکھیا سوچنے لگی۔ جونہی میں نے منھ کے داغ اڑتے دیکھنے چاہے تھے، توں ہی وہ چہرے سے اڑ گئے۔ اب آنگن میں ٹہلنے والے کا منھ پھٹکار کی طرح دکھائی نہ دیتا تھا اور یہ ازدواجی زندگی کا پہلا دن تھا اور چیچک کے داغوں کو اتنا بھول گئی تھی۔اتنا۔۔۔

    دودھ رسوئی میں تسلے پر ایک کوڑیالے سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا آگ میں گرنے لگا۔ ہوری اپجس کی گٹھڑیا۔ اماں نے مہریا کو آواز دی۔ کاہو گوا تو کو؟ دودھ ابلتا وا نا دکھے؟ رانڈ! اور پیسے مانگنے کو سر پر چڑھی چلی آوے۔ پیسے نہ دوں گی۔ راکھ جھونک دوں گی منھ ماں! اور ماں پپلاتے ہوئے منھ کے ساتھ نہ جانے کیا کچھ کہہ گئی۔

    ڈھور شام کے قریب پھاٹک کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ دودھ بھی دوہا جاچکا تھا، پیتل کے دوہنے تخت پوش پر رکھے ہوئے تھے۔ کاکا داماد کی مدد سے تخت پوش پر بیٹھے ایک لال جلد والی بہی پر جلدی جلدی کچھ لکھ رہے تھے۔ عینک بار بار منھ پر گرتی تھی۔ عینک کے کنارے ایک کند سفید رنگ کے ہو گئے تھے۔ کمانی کی جگہ ایک دھاگا کان تک چلا گیا تھا اور ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے کبھی کبھی ایک آدمی کے دو دو دکھائی دینے لگتے تھے۔

    گھر کی عورتوں میں ہلکی ہلکی کھسر پھسر ہو رہی تھی۔ وہ کڑی نگاہوں سے جیرام کی طرف دیکھتی تھیں۔ سکھیا کا ما تھا ٹھنکا۔ وہ کیوں نہ آئے۔ سکھیا نے پھر اپنے آپ سے سوال کیا۔ اور اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اسے پھر ماتن ہیل یاد آیا۔ پھر جیرام۔۔۔ سبھی عورتیں جیرام کو کچھ کہہ رہی تھیں۔ گھر کی اماں کی طرح سکھیا کو بھی جیرام کی طرفداری کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ سندر چہرے پر اگر کالا داغ ہو، تو چہرہ اور بھی زیادہ خوبصورت ہو جاتا ہے۔ مرد کماؤ ہو ، شریف ہو، صحت مند ہو، تعلیم یافتہ ہو تو پھر چیچک کے داغ اس کی سندرتا ہو جاتے ہیں، اور سکھیا اب تک ان چیچک کے داغوں میں خوبصورتی پا لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

    رات ہوئی۔ سر جوڑی کے لیے جیرام کی تلاش ہوئی، لیکن جیرام غائب تھا۔ بڑی نند گھبرائی ہوئی آئی اور بولی۔

    ’’سکھیا بہن، برا نہ ماننا، جوانی میں سبھی ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔‘‘

    سکھیا بولی’’کیا ہٹ دھرمی ہے؟‘‘

    ’’یہی بچپنا ہے نا، تھوڑا وقت گزر جائے گا۔ تو آپی آپ سمجھ آ جائے گی۔‘‘

    سکھیا حیرت سے نند کے منھ کی طرف دیکھتی ہوئی بولی ’’جیجی! یہ کا باتیں ہیں میری سمجھ میں تو نا آویں۔‘‘

    ’’کوئی بات بھی ہو‘‘ نند بولی۔ ’’جیرام کالج کا پڑھاوا ہے نا، اسے کھیال ہے کہ سکھیا کا ناک لمبا ہے۔۔۔ اسی لیے وہ رسم پر نہیں آیا اور اب کہاں لمبا ہے ناک تمھارا؟۔۔۔ تھوڑا وقت گزر جائے گا تو آپی آپ۔۔۔

    سہاگ رات اپنے تمام دھڑکے کے ساتھ سر پر آ رہی تھی۔ سکھیا نے چیچک کے داغوں کو معاف کرنے کی حد سے پرے جا کر اس میں حسن تلاش کر لیا تھا، لیکن جیرام اس کے ناک کو معاف نہ کرسکا اور رات، سرد، اداس، بے خواب رات گزرتی گئی۔۔۔ گزرتی گئی۔۔۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے