دو بہنیں دو سال بعد ایک تیسرے عزیز کے گھر ملیں۔ اور خوب رودھوکر خاموش ہوئیں۔ تو بڑی بہن روپ کماری نے دیکھا کہ چھوٹی بہن رام دلاری سرسے پاؤں تک گہنوں سے لدی ہوئی ہے۔ کچھ اس کا رنگ کھل گیا۔ مزاج میں کچھ تمکنت آگئی ہے اور بات چیت کرنے میں کچھ زیادہ مشاق ہوگئی ہے۔ بیش قیمت ساری اوربیلدار عنابی مخمل کے جمپرنے اس کے حسن کو اور بھی چمکا دیا ہے۔
وہی رام دلاری جو لڑکپن میں سر کے بال کھولے پھوہڑسی ادھر ادھر کھیلا کرتی تھی۔ آخری بار روپ کماری نے اسے اس کی شادی میں دیکھا تھا۔ دوسال قبل تک بھی اس کی شکل وصورت میں کچھ زیادہ تغّیر نہ ہوا تھا۔ لمبی تو ہوگئی تھی مگر تھی اتنی ہی دبلی۔ اتنی ہی زرد رواتنی ہی بد تمیز ذراذرا سی بات پرروٹھنے والی۔ مگر آج تو کچھ حالت ہی اور تھی۔ جیسے کلی کھل گئی ہو۔ اور حسن اس نے کہاں چھپارکھا تھا، نہیں نظروں کو دھوکا ہورہا ہے۔ یہ حسن نہیں محض دیدہ زیبی ہے۔ ریشم مخمل اور سونے کی بدولت نقشہ تھوڑا ہی بدل جائے گا۔ پھر بھی وہ آنکھوں میں سمائی جاتی ہے۔ پچاسوں عورتیں جمع ہیں۔ مگر یہ سحر، یہ کشش اور کسی میں نہیں۔
اور اس کے دل میں حسد کا ایک شعلہ سا دہک اٹھا۔
کہیں آئینہ ملتا تو وہ ذرا اپنی صورت بھی دیکھتی۔ گھر سے چلتے وقت اس نے اپنی صورت دیکھی تھی۔ اسے چمکانے کے لیے جتنا صیقل کرسکتی تھی وہ کیا تھا لیکن اب وہ صورت جیسے یادداشت سے مٹ گئی ہے۔ اس کی محض ایک دھندلی سی پرچھائیں ذہن میں ہے اسے پھر سے دیکھنے کے لیے وہ بے قرار ہورہی ہے۔ یوں تو اس کے ساتھ میک اپ کے لوازمات کے ساتھ آئینہ بھی ہے لیکن مجمع میں وہ آئینہ دیکھنے یا بناؤ سنگھار کرنے کی عادی نہیں ہے۔ یہ عورتیں دل میں خدا جانے کیا سمجھیں۔ یہاں کوئی آئینہ تو ہوگا ہی۔
ڈرائنگ روم میں تو ضرور ہوگا۔ وہ اٹھ کر ڈرائنگ روم میں گئی۔ اور قد آدم شیشہ میں اپنی صورت دیکھی اس کے خدوخال بے عیب ہیں۔ مگر وہ تازگی وہ شگفتگی وہ نظرفریبی نہیں ہے۔ رام دلاری آج کھلی ہے اور اسے کھلے ہوئے زمانہ ہوگیا لیکن اس خیال سے اسے تسکین نہیں ہوئی۔ وہ رام دلاری سے ہیٹی بن کر نہیں رہ سکتی۔ یہ مرد بھی کتنے احمق ہوتے ہیں کسی میں اصلی حسن کی پرکھ نہیں۔ انھیں تو جوانی، شوخی اور نفاست چاہیے۔ آنکھیں رکھ کر بھی اندھے بنتے ہیں۔ میرے کپڑوں میں رام دلاری کو کھڑا کر دو۔ پھردیکھو۔ یہ سارا جادو کہاں اڑگیا ہے۔ چڑیل سی نظر آئے۔ ان احمقوں کو کون سمجھائے۔
رام دلاری کے گھر والے تو اتنے خوش حال نہ تھے۔ شادی میں جو جوڑے اور زیور آئے تھے وہ بہت ہی دل شکن تھے۔ امارت کا کوئی دوسرا سامان ہی نہ تھا۔ اس کے سُسر ایک ریاست کے مختار عام تھے۔ اور شوہر کالج میں پڑھتا تھا۔ اس دو سال میں کیسے ہن برس گیا۔ کون جانے زیور کسی سے مانگ کر لائی ہو۔ کپڑے بھی دوچار دن کے لیے مانگ لیے ہوں۔ اسے یہ سوانگ مبارک رہے۔میں جیسی ہوں ویسی ہی اچھی ہوں۔اپنی حیثیت کو بڑھا کر دکھانے کا مرض کتنا بڑھتا جاتا ہے۔ گھر میں روٹیوں کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح بن ٹھن کر نکلیں گی گویا کہیں کہ راجکماری ہیں۔ بساطیوں کے درزیوں کے اور بزاز کے تقاضے سہیں گی شوہر کی گھڑکیاں کھائیں گی۔ روئیں گی روٹھیں گی۔ مگرنمائش کے جنون کو نہیں روک سکیں۔گھر والے بھی سوچتے ہوں گے کتنی چھچھوری طبیعت ہے اس کی مگر یہاں تو بے حیائی پر کمر باندھ لی۔ کوئی کتنا ہی ہنسے بے حیا کی بلا دور۔ بس یہی دھن سوار ہے کہ جدھر سے نکل جائیں ادھر اس کی خوب تعریفیں کی جائیں۔ رام دلاری نے ضرور کسی سے زیور اور کپڑے مانگ لیے ہیں۔ بے شرم جو ہے۔ اس کے چہرے پر غرور کی سرخی جھلک پڑی۔ نہ سہی اس کے پاس زیور اور کپڑے کسی کے سامنے شرمندہ تو نہیں ہونا پڑتا۔ ایک ایک لاکھ کے تو اس کے دولڑکے ہیں۔ بھگوان انھیں زندہ سلامت رکھے۔ وہ اسی میں خوش ہے۔خود اچھا پہن لینے اور اچھا کھا لینے ہی سے تو زندگی کا مقصد پورا نہیں ہوجاتا۔اس کے گھر والے غریب ہیں پر عزّت تو ہے کسی کا گلہ تو نہیں دباتے۔ کسی کی بد دعا تو نہیں لیتے۔
اس طرح اپنا دل مضبوط کرکے وہ پھر برآمدے میں آئی تو رام دلاری نے جیسے رحم کی آنکھوں سے دیکھ کر کہا، ’’جیجاجی کی کچھ ترقی ورقی ہوئی کہ نہیں بہن۔، یا ابھی تک وہی پچھتّر پر قلم گھس رہے ہیں۔‘‘
روپ کماری کے بدن میں آگ سی لگ گئی۔ افوہ رے دماغ۔ گویا اس کا شوہر لاٹ ہی تو ہے۔اکڑکر بولی، ’’ترقی کیوں نہیں ہوئی۔ اب سو کے گریڈ میں ہیں۔آج کل یہ بھی غنیمت ہے۔ میں تو اچھے اچھے ایم۔اے پاسوں کو دیکھتی ہوں کہ کوئی ٹکے کو نہیں پوچھتا۔ تیرا شوہر اب بی۔ اے میں ہوگا۔‘‘
’’انھوں نے تو پڑھنا چھوڑدیا ہے۔ بہن ! پڑھ کر اوقات خراب کرنا تھا اور کیا، ایک کمپنی کے ایجنٹ ہوگئے ہیں۔ اب ڈھائی سو روپیہ ماہوار کماتے ہیں۔ کمیشن اوپر سے۔ پانچ روپیہ روز سفر خرچ کے بھی ملتے ہیں۔ یہ سمجھ لو پانچ سو کا اوسط پڑجاتا ہے۔ ڈیڑھ سور روپیہ ماہوار تو ان کا ذاتی خرچ ہے۔ بہن ! اونچے عہدہ پر ہیں تو اچھی حیثیت بھی بنائے رکھنی لازم ہے۔ ساڑھے تین سو روپیہ بے داغ گھر دے دیتے ہیں۔ اس میں سو روپے مجھے ملتے ہیں۔ ڈھائی سو میں گھر کاخرچ خوش فعلی سے چل جاتا ہے۔ ایم۔ اے پاس کرکے کیا کرتے۔‘‘
روپ کماری اسے شیخ چلی کی داستان سے زیادہ وقعت نہیں دینا چاہتی تھی۔ مگر رام دلاری کے لہجے میں اتنی صداقت ہے کہ تحت الشعور میں اس سے متاثر ہو رہی ہے۔اور اس کے چہرے پر خفّت اور شکست کی بدمزگی صاف جھلک رہی ہے۔ مگر اسے اپنے ہوش وحواس کو قائم رکھنا ہے۔ تو اس اثر کو دل سے مٹا دینا پڑے گا۔ اسے جرحوں سے اپنے دل کو یقین کرادینا پڑے گاکہ اس میں ایک چوتھائی سے ز یادہ حقیقت نہیں ہے۔ وہاں تک وہ برداشت کرے گی۔ اس سے زیادہ کیسے برداشت کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں دھڑکن بھی ہے کہ اگر یہ روداد سچ نکلی تو وہ کیسے رام دلاری کو منہ دکھا سکے گی۔اسے اندیشہ ہے کہ کہیں اس کی آنکھوں سے آنسونکل پڑیں۔ کہاں پچھتّر اور کہاں پانچ سو، اتنی رقم ضمیر کا خون کرکے بھی کیوں نہ ملے۔ پھر بھی روپ کماری اس کی متحّمل نہیں ہوسکتی۔ ضمیر کی قیمت زیادہ سے زیادہ سو روپیہ ہوسکتی ہے پانچ سو کسی حالت میں نہیں۔
اس نے تمسخر کے اندز سے پوچھا، ’’جب ایجنٹی میں اتنی تنخواہ اور بھتّے ملتے ہیں توکالج بند کیوں نہیں ہوجاتے ؟ ہزاروں لڑکے کیوں اپنی زندگی خراب کرتے ہیں۔‘‘
رام دلاری بہن کی خفت کا مزا اٹھاتی ہوئی بولی، ’’بہن تم یہاں غلطی کررہی ہو ایم۔اے تو سب ہی پاس ہو سکتے ہیں۔ مگر ایجنٹی کرنی کس کو آتی ہے۔ یہ خدا داد ملکہ ہے۔کوئی زندگی بھرپڑھتا رہے۔ مگر ضروری نہیں کہ وہ اچھا ایجنٹ ہوجائے۔روپیہ پیدا کرنا دوسری چیز ہے علمی فضیلت حاصل کرنا دوسری چیز ہے اپنے مال کی خوبی کا یقین پیدا کردینا یا ذہن نشین کرادینا کہ اس سے ارزان اور دیرپا چیز بازار میں مل ہی نہیں سکتی آسان کام نہیں ہے۔ایک سے ایک گاہکوں سے ان کا سابقہ پڑتا ہے۔ بڑے بڑے راجاؤں اور رئیسوں کی تالیف قلب کرنی پڑتی ہے۔ اور وں کی تو ان راجاؤں اور نوابوں کے سامنے جانے کی ہمّت بھی نہ پڑے اورکسی طرح پہنچ جائیں تو زبان نہ نکلے۔ شروع شروع میں انھیں بھی جھجھک ہوئی تھی۔ مگر اب تو اس دریا کے مگرہیں۔ اگلے سال ترقی ہونے والی ہے۔‘‘
روپ کماری کی رگوں میں جیسے خون کی حرکت بند ہوئی جارہی ہے۔ ظالم آسمان کیوں نہیں گر پڑتا۔ بے رحم زمین کیوں نہیں پھٹ جاتی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ روپ کماری جو حسین ہے تمیزدار ہے کفایت شعار ہے اپنے شوہر پر جان دیتی ہے بچوں کو یہ جان سے عزیز سمجھتی ہے اس کی خستہ حالی میں بسر ہو اور یہ بدتمیز، تن پرور چنچل چھوکری رانی بن جائے۔مگر اب بھی کچھ امید باقی تھی۔ شاید اس کی تسکین قلب کا کوئی راستہ نکل آئے۔ اسی تمسخر کے انداز سے بولی، ’’تب تو شاید ایک ہزار ملنے لگیں۔‘‘
’’ایک ہزار تو نہیں مگر چھ سو میں شبہہ نہیں۔‘‘
’’کوئی آنکھ کا آندھا مالک بن گیا ہوگا ؟‘‘
’’بیوپاری آنکھ کے اندھے نہیں ہوتے۔ جب تم انھیں چھ ہزار کما کر دو تب کہیں چھ سو ملیں۔ جو ساری دنیا کو چرائے اسے کوئی کیا بیوقوف بنائے گا۔‘‘
تمسخر سے کام چلتے نہ دیکھ کر روپ کماری نے تحقیر شروع کی۔ ’’میں تو اس کو بہت معزز پیشہ نہیں سمجھتی۔ سارے دن جھوٹ کے طومارباندھو۔ یہ ٹھیک بدیا ہے۔‘‘
رام دلاری زور سے ہنسی روپ کماری پر اس نے کامل فتح پائی تھی، ’’اس طرح تو جتنے وکیل بیرسٹر ہیں سبھی ٹھیک بدیا کرتے ہیں اپنے موکل کے فائدے کے لیے انھیں جھوٹی شہادتیں تک بنانی پڑتی ہیں۔ مگر ان ہی وکیلوں کو ہم اپنا لیڈر کہتے ہیں۔ انھیں اپنی قومی سبھاؤں کاصدر بناتے ہیں۔ انکی گاڑیاں کھینچتے ہیں ان پر پھولوں کی اور زروجواہر کی برکھا کرتے ہیں۔ آج کل دنیا پیسہ دیکھتی ہے، پیسے کیسے آئیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا۔ جس کے پاس پیسہ ہو اس کی پوجاہوتی ہے۔ جو بدنصیب ہیں، ناقابل ہیں، پست ہمت ہیں، ضمیر اور اخلاق کی دہائی دے کر اپنے آنسو پونچھ لیتے ہیں۔ ور نہ ضمیر اور اخلاق کو کون پوچھتا ہے۔‘‘
روپ کماری خاموش ہوگئی۔ اب یہ حقیقت اس کی ساری تلخیوں کے ساتھ تسلیم کرنی پڑے گی کہ رام دلاری اس سے زیادہ خوش نصیب ہے۔ اس سے مفر نہیں۔ تمسخر یا تحقیرسے وہ اپنی تنگ دلی کے اظہار کے سوا اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی۔ اسے بہانے سے رام دلاری کے گھر جاکر اصلیت کی چھان بین کرنی پڑے گی۔ اگر رام دلاری واقعی لکشمی کا بردان پاگئی ہے۔تو وہ اپنی قسمت ٹھونک کر بیٹھ رہے گی۔ سمجھ لے کہ دینا میں کہیں انصاف نہیں ہے۔ کہیں ایمانداری کی قدرنہیں ہے۔ مگرکیا سچ مچ اس خیال سے اسے تسکین ہوگی۔ یہا ں کون ایماندار ہے۔ وہی جسے بے ایمانی کا موقعہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی اتنی ہمت ہے کہ وہ موقعہ پیداکرلے۔ اس کے شوہر پچھتّر روپے ماہوار پاتے ہیں۔ مگر کیا دس بیس روپے اوپر سے مل جائیں تو وہ خوش ہوکے نہ لیں گے؟ ان کی ایمانداری اور اصول پروری اس وقت تک ہے جب تک موقعہ نہیں ملتا۔ جس دن موقعہ ملا ساری اصول پروری دھری رہ جائے گی۔ اور تب تک روپ کماری میں اتنی اخلاقی قوّت ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ناجائز آمدنی سے روک دے۔ روکنا تو درکنار، وہ خو ش ہوگی۔ شاید وہ اپنے شوہر کی پیٹھ ٹھونکے۔ابھی ان کے دفتر سے واپسی کے وقت من مارے بیٹھی رہتی ہے۔ تب دروازے پر کھڑی ہوکر ان کا انتظارکرے گی اورجوں ہی وہ گھر میں آئیں گے ان کی جیبوں کی تلاشی لے گی۔
آنگن میں گانا بجانا ہورہا تھا۔ رام دلاری امنگ کے ساتھ گارہی تھی اور روپ کماری وہیں برآمدے میں اداس بیٹھی ہوئی تھی۔ نہ جانے کیوں اس کے سرمیں درد ہونے لگا تھا۔ کوئی گائے۔ کوئی ناچے اسے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تو بدنصیب ہے رونے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔
نو بجے رات کے مہمان رخصت ہونے لگے۔ روپ کماری بھی اٹھی یکّہ منگوانے جارہی تھی کہ رام دلاری نے کہا، ’’یکہ منگواکر کیا کروگی بہن مجھے لینے کے لیے ابھی کار آتی ہوگی دوچار دن میرے یہاں رہو پھر چلی جانا۔ میں جیجاجی کو کہلا بھیجوں گی۔‘‘
روپ کماری کا آخری حربہ بھی بے کار ہوگیا۔ رام دلاری کے گھر جاکر دریافت حال کی خواہش یکایک فنا ہوگئی۔ وہ اب اپنے گھر جائے گی۔ اور منہ ڈھانپ کر پڑ رہے گی۔ ان پھٹے حالوں کیوں کسی کے گھر جائے۔ بولی، ’’ابھی تو مجھے فرصت نہیں ہے پھر کبھی آؤں گی۔‘‘
’’کیا را ت بھر بھی نہ ٹھہروگی۔‘‘
’’نہیں میرے سر میں زور کا درد ہورہا ہے۔‘‘
’’اچھا بتاؤ۔ کب آؤ گی۔ میں سواری بھیج دوں گی۔‘‘
’’میں خود کہلا بھیجوں گی۔‘‘
’’تمھیں یاد نہ رہے گی۔ سال بھر ہوگیا۔ بھول کر بھی نہ یاد کیا۔ میں اسی انتظار میں تھی کہ دیدی بلائیں تو چلوں۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہیں پھر بھی اتنی دور کہ سال بھر گزرجائے اور ملاقات نہ ہو۔‘‘
’’گھر کی فکروں سے فرصت ہی نہیں ملتی کئی بار ارادہ کیا کہ تجھے بلا بھیجوں مگر موقعہ ہی نہ ملا۔‘‘
اتنے میں رام دلاری کے شوہر مسٹر گروسیوک نے آکر بڑی سالی کو سلام کیا۔ بالکل انگریزی وضع تھی۔ کلائی پر سونے کی گھڑی۔آنکھوں پر سنہری عینک بالکل اپٹوڈیٹ، جیسے کوئی تازہ وارد سویلین ہو۔ چہرے سے ذہانت، متانت اور شرافت برس رہی تھی۔ وہ اتناخوش رو اور جامہ زیب ہے۔ روپ کماری کو اس بات کا گمان بھی نہ تھا۔
دعادے کر بولی، ’’آج یہاں نہ آتی تو تم سے ملاقات کیوں ہوتی۔‘‘
گروسیوک ہنس کر بولا، ’’بجا فرماتی ہیں۔ الٹی شکایت کبھی آپ نے بلایا اور میں نہ گیا۔‘‘
’’میں نہ جانتی تھی کہ تم اپنے کو مہمان سمجھے ہو۔ وہ بھی تمھارا ہی گھر ہے۔‘‘
’’اب مان گیا بھابی صاحب بے شک میری غلطی ہے۔ انشااللہ اس کی تلافی کروں گا۔ مگر آج ہمارے گھر رہئے۔‘‘
’’نہیں آج بالکل فرصت نہیں ہے پھر آؤں گی لڑکے گھر پر گھبرارہے ہوں گے۔‘‘
رام دلاری بولی۔’’میں کتنا کہہ کر ہار گئی مانتی ہی نہیں۔‘‘
دونوں بہنیں کارکی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ گروسیوک ڈرائیو کرتا ہوا چلا۔ ذرا دیر میں اس کا مکان آگیا۔رام دلاری نے پھر روپ کماری سے چلنے کے لیے اصرار کیا مگر وہ نہ مانی۔ لڑکے گھبرارہے ہوں گے۔ آخر رام دلاری اس سے گلے مل کرا ندر چلی گئی۔ گروسیوک نے کار بڑھائی روپ کماری نے اڑتی ہوئی نگاہ سے رام دلاری کا مکان دیکھا، اور ٹھوس حقیقت سلاخ کی طرح اس کے جگر میں چبھ گئی۔ کچھ دور چل کر گروسیوک بولا، ’’بھابی میں نے اپنے لیے کیسا اچھا راستہ نکال لیا دوچار سال کام چل گیا توآدمی بن جاؤں گا۔‘‘روپ کماری نے ہمدردانہ لہجہ میں کہا، ’’رام دلاری نے مجھ سے کہا۔ بھگوان جہاں رہو خوش رہو۔ ذرا ہاتھ پیر سنبھال کر رہنا۔‘‘
’’میں مالک کی آنکھ بچا کر ایک پیسہ لینا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔دولت کا مزا تو جب ہے کہ ایمان سلامت رہے۔ ایمان کھوکے پیسے ملے تو کیا۔ میں ایسی دولت پر لعنت بھیجتا ہوں۔ اور آنکھیں کس کی بچاؤں۔ سب سیاہ سفید تو میرے ہاتھ میں ہے مالک تو کوئی ہے