تعلق پر افسانے
ہم تعلق کی ان ہی صورتوں
اورکیفیتوں سے واقف ہوتے ہیں جن سے ہم گزرتےہیں ۔ جب کہ ہرانسان کے تعلقات اوراس کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں ، ہم ان کی کہانیاں سن سکتے ہیں لیکن ان کے تجربے میں شریک نہیں ہوسکتے ۔ شاعری اظہارکا وہ ذریعہ ہے جس کی بنا پرہم دوسروں کےتجربات کوبھی ذاتی تجربےکی سطح پرمحسوس کرسکتےہیں ۔ ہم نے تعلق اوررشتوں کی ان کہانیوں کواسی لئے اکھٹا کیا ہے تا کہ آپ تعلق اوراس کی مختلف صورتوں کی اس کثرت میں شامل ہو سکیں ۔
آرٹسٹ لوگ
اس افسانہ میں آرٹسٹ کی زندگی کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ اور محمود اپنے فن کی بقا کے لئے مختلف طرح کے جتن کرتے ہیں لیکن باذوق لوگوں کی قلت کی وجہ سے فن کی آبیاری مشکل امر محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالات سے پریشان ہو کر معاشی آسودگی کے لیے وہ ایک فیکٹری میں کام کرنے لگتے ہیں۔ لیکن دونوں کو یہ کام آرٹسٹ کے رتبہ کے شایان شان محسوس نہیں ہوتا اسی لیے دونوں ایک دوسرے سے اپنی اس مجبوری اور کام کو چھپاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
انار کلی
سلیم نام کے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو خود کو شہزادہ سلیم سمجھنے لگتا ہے۔ اسے کالج کی ایک خوبصورت لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے، لیکن وہ لڑکی اسے قابل توجہ نہیں سمجھتی۔ اس کی محبت میں دیوانہ ہو کر وہ اسے انارکلی کا نام دیتا ہے۔ ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے والدین نے اسی نام کی لڑکی سے اس کی شادی طے کر دی ہے۔ شادی کی خبر سن کر وہ دیوانہ ہو جاتا ہے اور طرح طرح کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ سہاگ رات کو جب وہ دلہن کا گھونگھٹ ہٹاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسی نام کی کوئی دوسری لڑکی تھی۔
سعادت حسن منٹو
آم
’’یہ ایک ایسےبوڑھے پنشن یافتہ منشی کی کہانی ہے جو اپنی پنشن کے سہارے اپنے خاندان کی پرورش کر رہا ہے۔ اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کی امیر لوگوں سے بھی جان پہچان ہے۔ لیکن ان امیروں میں دو لوگ ایسے بھی ہیں جو اسے بہت عزیز ہیں۔ ان کے لیے وہ ہر سال آم کے موسم میں اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف آم کے ٹوکرے بھجواتا ہے۔ مگر اس بار کی گرمی اتنی بھیانک تھی کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور اس کی موت ہو گئی۔ اس کے مرنے کی اطلاع جب ان دونوں امیرزادوں کو دی گئی تو دونوں نے ضروری کام کا بہانہ کر کے اس کے گھر آنے سے انکار کر دیا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
ایک زاہدہ، ایک فاحشہ
یہ ایک عشقیہ کہانی ہے جس میں معشوق کے متعلق غلط فہمی کی وجہ سے دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ جاوید کو زاہدہ نامی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے اور اپنے دوست سعادت کو لارنس گارڈن کے گیٹ پر زاہدہ کے استقبال کے لئے بھیجتا ہے۔ سعادت جس لڑکی کو زاہدہ سمجھتا ہے اس کے بارے میں تانگہ والا بتاتا ہے کہ وہ فاحشہ ہے۔ گھبرا کر سعادت وہیں تانگہ چھوڑ دیتا ہے اور وہ لارنس گارڈن واپس آتا ہے تو جاوید کو زاہدہ سے محو گفتگو پاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ننگی آوازیں
اس کہانی میں شہری زندگی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بھولو ایک مزدور پیشہ آدمی ہے۔ جس بلڈنگ میں وہ رہتا ہے اس میں سارے لوگ رات میں گرمی سے بچنے کے لیے چھت پر ٹاٹ کے پردے لگا کر سوتے ہیں۔ ان پردوں کے پیچھے سے آنے والی مختلف آوازیں اس کے اندر جنسی ہیجان پیدا کرتی ہیں اور وہ شادی کر لیتا ہے۔ لیکن شادی کی پہلی ہی رات اسے محسوس ہوتا ہے کہ پوری بلڈنگ کے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ بیوی کی توقعات پوری نہیں کر پاتا اور جب بیوی کی یہ بات اس تک پہنچتی ہے کہ اس کے اندر کچھ کمی ہے تو اس کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے اور پھر وہ جہاں ٹاٹ کا پردہ دیکھتا ہے اکھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
اولاد
یہ اولاد نہ ہونے کے غم میں پاگل ہو گئی ایک عورت کی کہانی ہے۔ زبیدہ کی شادی کے بعد ہی اس کے والد کی موت ہو گئی تو وہ اپنی ماں کو اپنے گھر لے آئی۔ ماں بیٹی ایک ساتھ رہنے لگیں تو ماں کو فکر ہوئی کہ اس کی بیٹی کو ابھی تک بچہ کیوں نہیں ہوا۔ بچہ کے لیے ماں نے بیٹی کا ہر طرح کا علاج کرایا، پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ماں دن رات اسے اولاد نہ ہونے کے طعنے دیتی رہتی ہے تو اس کا دماغ چل جاتا ہے اور ہر طرف اسے بچے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کی اس دیوانگی کو دیکھ کر اس کا شوہر ایک نوزائیدہ کو اس کی گود میں لاکر ڈال دیتا ہے۔ جب اس کے لیے اس کی چھاتیوں سے دودھ نہیں اترتا ہے تو وہ استرے سے اپنی چھاتیوں کو کاٹ ڈالتی ہے جس سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
اپنے دکھ مجھے دے دو
کہانی ایک ایسے جوڑے کی داستان کو بیان کرتی ہے جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ سہاگ رات میں شوہر کے دکھوں کو سن کر بیوی اس کے سبھی دکھ مانگ لیتی ہے مگر وہ اس سے کچھ نہیں مانگتا ہے۔ بیوی نے گھر کی ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے۔ عمر کے آخر پڑاؤ پر ایک روز شوہر کو جب اس بات کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس سے پوچھتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ وہ کہتی ہے کہ میں نے تم سے تمھارے سارے دکھ مانگ لیے تھے مگر تم نے مجھ سے میری خوشی نہیں مانگی اس لیے میں تمھیں کچھ نہیں دے سکی۔
راجندر سنگھ بیدی
میرا نام رادھا ہے
یہ افسانہ عورت کے will power کا احاطہ کرتا ہے۔ راج کشور کے رویے اور تصنع آمیز شخصیت سے نیلم واقف ہے اسی لیے فلم اسٹوڈیو کے ہر فرد کی زبان سے تعریف سننے کے باوجود وہ اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ ایک روز سخت لہجے میں بہن کہنے سے بھی منع کر دیتی ہے اور پھر آخر کار رکشا بندھن کے دن مشتعل ہو کر اسے بلیوں کی طرح نوچ ڈالتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
بدصورتی
اس افسانہ میں دو بہنوں، حامدہ اور ساجدہ کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ ساجدہ بہت خوبصورت ہے، جبکہ حامدہ بہت بدصورت۔ ساجدہ کو ایک لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے، تو حامدہ کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس بات کو لے کر ان دونوں کے درمیان جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ پھر دونوں بہنیں صلح کر لیتی ہے اور ساجدہ کی شادی حامد سے ہو جاتی ہے۔ ایک سال بعد ساجدہ اپنے شوہر کے ساتھ حامدہ سے ملنے آتی ہے۔ رات کو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ صبح ہوتے ہی حامد ساجدہ کو طلاق دے دیتا ہے اور کچھ عرصہ بعد حامدہ سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ترقی پسند
طنز و مزاح کے پیرایہ میں لکھا گیا یہ افسانہ ترقی پسند افسانہ نگاروں پر بھی چوٹ کرتا ہے۔ جوگندر سنگھ ایک ترقی پسند افسانہ نگار ہے جس کے یہاں ہریندر سنگھ آکر پڑاؤ ڈال دیتا ہے اور مسلسل اپنے افسانے سنا کر بو رکرتا رہتا ہے۔ ایک دن اچانک جوگندر سنگھ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کی حق تلفی کر رہا ہے۔ اسی خیال کے تحت وہ ہریندر سے باہر جانے کا بہانہ کرکے بیوی سے رات بارہ بجے آنے کا وعدہ کرتا ہے۔ لیکن جب رات میں جوگندر اپنے گھر کے دروازہ پر دستک دیتا ہے تو اس کی بیوی کے بجائے ہریندر دروزہ کھولتا ہے اور کہتا ہے جلدی آ گئے، آو، ابھی ایک افسانہ مکمل کیا ہے، اسے سنو۔
سعادت حسن منٹو
اُلو کا پٹھا
قاسم ایک دن صبح سو کر اٹھتا ہے تو اس کے اندر یہ شدید خواہش جاگتی ہے کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہے۔ بہت سے طریقے اور مواقع سوچنے کے بعد بھی وہ کسی کو الو کا پٹھا نہیں کہہ پاتا اور پھر دفتر کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ راستے میں ایک لڑکی کی ساڑی سائکل کے پہیے میں پھنس جاتی ہے، جسے وہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن لڑکی کو ناگوار گزرتا ہے اور وہ اسے ’’الو کا پٹھا‘‘ کہہ کر چلی چاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
اللہ دتا
فساد میں لٹے پٹے ہوئے ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جس میں ایک باپ اپنی بیٹی سے منہ کالا کرتا ہے اور پھر اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کو بہو بنا کر لاتا ہے تو اس سے بھی زبردستی کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اس کی بیٹی کو پتہ چلتا ہے تو وہ اپنے بھائی سے طلاق دلوا دیتی ہے کیونکہ وہ اپنی سوت نہیں دیکھ سکتی۔
سعادت حسن منٹو
جانکی
جانکی ایک زندہ اور متحرک کردار ہے جو پونہ سے ممبئی فلم میں کام کرنے آتی ہے۔ اس کے اندر مامتا اور خلوص کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن ہے۔ عزیز، سعید اور نرائن، جس شخص کے بھی قریب ہوتی ہے تو اس کے ساتھ جسمانی خلوص برتنے میں بھی کوئی تکلف محسوس نہیں کرتی۔ اس کی نفسیاتی پیچیدگیاں کچھ اس قسم کی ہیں کہ جس وقت وہ ایک شخص سے جسمانی رشتوں میں منسلک ہوتی ہے ٹھیک اسی وقت اسے دوسرے کی بیماری کا بھی خیال ستاتا رہتا ہے۔ جنسی میلانات کا تجزیہ کرتی ہوئی یہ ایک عمدہ کہانی ہے۔
سعادت حسن منٹو
اصلی جن
ہم جنسیت کے تعلقات پر مبنی کہانی۔ فرخندہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بچپن میں ہی اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا تو وہ اکیلے اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ جوانی کا سفر اس نے تنہا ہی گزار دیا۔ جب وہ اٹھارہ سال کی ہوئی تو اس کی ملاقات نسیمہ سے ہوئی۔ نسیمہ ایک پنجابی لڑکی تھی، جو حال ہی میں پڑوس میں رہنے آئی تھی۔ نسیمہ ایک لمبی چوڑی مردوں کی خصلت والی خاتون تھی، جو فرخندہ کو بھا گئی تھی۔ جب فرخندہ کی ماں نے اس کا نسیمہ سے ملنا بند کر دیا تو وہ نیم پاگل ہو گئی۔ لوگوں نے کہا کہ اس پر جن ہے، پر جب ایک دن چھت پر اس کی ملاقات نسیمہ کے چھوٹے بھائی سے ہوئی تو اس کے سبھی جن بھاگ گئے۔
سعادت حسن منٹو
باسط
مختلف وجہوں سے باسط اس لڑکی سے شادی پر رضامند نہیں تھا جس لڑکی سے اس کی ماں اس کی شادی کرانا چاہتی تھیں۔ بالآخر اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ شادی کے بعد باسط کی بیوی سعیدہ ہر وقت خوفزدہ اور چپ چپ سی رہتی تھی جسے ابتدا میں باسط نے نیے ماحول اور سسرال کی جھجھک پر محمول کیا۔ لیکن ایک دن غسل خانہ میں جب سعیدہ کا حمل ضائع ہوا تب باسط کو صحیح صورت حال کا اندازہ ہوا۔ باسط نے سعیدہ کو معاف کر دیا لیکن باسط کی ماں نامکمل بچہ دیکھ کر برداشت نہ کر سکی اور دنیا سے چل بسی۔
سعادت حسن منٹو
سڑک کے کنارے
انسانیت نوازی اور مرد و عورت کے جسمانی رشتے کی ضرورت اور قدر و قیمت اس کہانی کا مرکزی نکتہ ہے۔ ایک مرد ایک عورت سے جسمانی رشتہ قائم کرکے چلا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں عورت کے حمل ٹھہر جاتا ہے۔ دوران حمل وہ مختلف قسم کے خیالات اور ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتی ہے لیکن بالآخر وہ ایک خوبصورت بچی کو جنم دیتی ہے اور خود مر جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
حسن کی تخلیق
’’یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے، جو اپنے وقت کی سب سے خوبصورت اور ذہین جوڑی تھی۔ دونوں کی محبت کا آغاز کالج کے دنوں میں ہوا تھا۔ پھر پڑھائی کے بعد انہوں نے شادی کر لی۔ اپنی بے مثال خوبصورتی کی بناپر وہ اکثر اپنے ہونے والے بچے کی خوبصورتی کے بارے میں سوچنے لگے۔ ہونے والے بچے کی خوبصورتی کا خیال ان کے ذہن پر کچھ اس طرح حاوی ہو گیا کہ وہ دن رات اسی کے بارے میں باتیں کیا کرتے۔ پھر ان کے یہاں بچہ پیدا بھی ہوا۔ لیکن وہ کوئی عام سا بچہ نہیں تھا بلکہ وہ اپنے آپ میں ایک نمونہ تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
صاحب کرامات
صاحب کرامات سادہ دل افراد کو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دھوکہ دینے اور بیوقوف بنانے کی کہانی ہے۔ ایک عیار آدمی پیر بن کر موجو کا استحصال کرتا ہے۔ شراب کے نشے میں دھت اس پیر کو کراماتی بزرگ سمجھ کر موجو کی بیٹی اور بیوی اس کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں۔ موجو کے جہالت کی حد یہ ہے کہ اس پیر کی مصنوعی داڑھی تکیہ کے نیچے ملنے کے بعد اس کی چالبازی کو سمجھنے کے بجائے اسے کرامت سمجھتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ازدواج محبت
یہ ایک ایسے فرد کی کی کہانی ہے، جو کبھی حیدرآباد کی ریاست میں ڈاکٹر ہوا کرتا تھا۔ وہاں اسے لیڈیز ڈسپینسری میں کام کرنے والی ایک لیڈی ڈاکٹر سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر اس شادی سے ناراض ہوکر ریاست کے حکام اسے 48 گھنٹے میں ریاست چھوڑنے کا حکم سنا دیتے ہیں۔ اس حکم سے ان کی زندگی پوری طرح بدل جاتی ہے۔
سجاد حیدر یلدرم
بس اسٹینڈ
مرد کے دوہرے رویے اور عورت کی معصومیت کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ سلمی ایک غیر شادی شدہ لڑکی ہے اور شاہدہ اس کی شادی شدہ سہیلی۔ ایک دن سلمی شاہدہ کے گھر جاتی ہے تو شاہدہ اپنے شوہر کی شرافت و امارت کی مبالغہ آمیز تعریف کرتی ہے۔ جب سلمی اپنے گھر واپس جاتی ہے تو راستے میں اسے ایک آدمی زبردستی اپنی کار میں بٹھاتا ہے اور اپنی جنسی بھوک مٹاتا ہے۔ اتفاقاً سلمی اس آدمی کا بٹوہ کھول کر دیکھتی ہے تو انکشاف ہوتا ہے کہ وہ شاہدہ کا شوہر ہے۔
سعادت حسن منٹو
خورشٹ
یہ افسانہ معاشرہ کے ایک نازک پہلو کو سامنے لاتا ہے۔ سردار زور آور سنگھ، ساوک کاپڑیا کا لنگوٹیا یار ہے۔ اپنا اکثر وقت اس کے گھر پہ گزارتا ہے۔ دوست ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی خورشید سے بھی بے تکلفی ہے۔ سردار ہر وقت خورشید کی آواز کی تعریف کرتا ہے اور اس کے لیے مناسب اسٹوڈیو کی تلاش میں رہتا ہے۔ اپنے ان حربوں کے ذریعہ وہ خورشید کو رام کر کے اس سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
فرشتہ
زندگی کی آزمائشوں سے پریشان شخص کی نفسیاتی کیفیت پر مبنی کہانی۔ بستر مرگ پر پڑا عطاء اللہ اپنے اہل خانہ کی مجبوریوں کو دیکھ کر خلجان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نیم غنودگی کے عالم میں دیکھتا ہے کہ اس نے سب کو مار ڈالا ہے یعنی جو کام وہ اصل میں نہیں کر سکتا اسے خواب میں انجام دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
سرمہ
فہمیدہ کو سرمہ لگانے کا بے حد شوق تھا۔ شادی کے بعد شوہر کے ٹوکنے پر اس نے سرمہ لگانا چھوڑ دیا۔ پھر اس نے نومولود بچے کے سرمہ لگانا شروع کیا لیکن وہ ڈبل نمونیا سے مر گیا۔ ایک دن جب فہمیدہ کے شوہر نے اسے جگانے کی کوشش کی تو وہ مردہ پڑی تھی اور اس کے پہلو میں ایک گڑیا تھی جس کی آنکھیں سرمے سے لبریز تھیں۔
سعادت حسن منٹو
حجامت
میاں بیوی کی نوک جھونک پر مبنی مزاحیہ افسانہ ہے، جس میں بیوی کو شوہر کے بڑے بالوں سے وحشت ہوتی ہے لیکن اس بات کو ظاہر کرنے سے پہلے ہزار قسم کے گلے شکوے کرتی ہے۔ شوہر کہتا ہے کہ بس اتنی سی بات کو تم نے بتنگڑ بنا دیا، میں جا رہا ہوں۔ بیوی کہتی ہے کہ خدا کے لیے بتا دیجیے کہاں جا رہے ہیں ورنہ میں خود کشی کر لوں گی۔ شوہر جواب دیتا ہے نصرت ہیئر کٹنگ سیلون۔
سعادت حسن منٹو
وہ بڈھا
ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کی کہانی ہے جس کی مڈبھیڑ سر راہ چلتے ایک بوڑھے سے ہو جاتی ہے۔ بوڑھا اس کی خوبصورتی اور جوانی کی تعریف کرتا ہے تو پہلے تو لڑکی کو برا لگتا ہے لیکن رات میں جب وہ اپنے بستر پر لیٹتی ہے تو اسے طرح طرح کے خیال گھیر لیتے ہیں۔ وہ ان خیالوں میں اس وقت تک گم رہتی ہے جب تک اس کی ملاقات اپنے ہونے والے شوہر سے نہیں ہو جاتی۔
راجندر سنگھ بیدی
ماہی گیر
اس میں ایک غریب مچھوارے میاں بیوی کے جذبۂ ہمدردی کو بیان کیا گیا ہے۔ مچھوارے کے پانچ بچے ہیں اور وہ رات بھر سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ ایک رات اس کی پڑوسن بیوہ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ ماہی گیر کی بیوی اس کے دونوں بچوں کو اٹھا لاتی ہے۔ صبح ماہی گیر کو اس حادثہ کی اطلاع دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ دو بچے اس کی لاش کے برابر لیٹے ہوئے ہیں تو ماہی گیر کہتا ہے پہلے پانچ بچے تھے اب سات ہو گئے۔ جاؤ انہیں لے آو۔ ماہی گیر کی بیوی چادر اٹھا کر دکھاتی ہے کہ وہ دونوں بچے یہاں ہیں۔
سعادت حسن منٹو
مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو اپنے دوستوں سے خود کو بچانے کی اپیل کرتا ہے۔ اس کے بہت سے دوست ہیں۔ سارا دن کوئی نہ کوئی اس سے ملنے آتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے وہ کچھ کام نہیں کر پاتا ہے۔ دوستوں کے اس آنے جانے سے تنگ آکر وہ ان سے خود کو بچائے جانے کی اپیل کرتا ہے۔
سجاد حیدر یلدرم
مجید کا ماضی
’’عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ماضی کو یاد کرنے والے ایک ایسے دولت مند شخص کی کہانی ہے جس کے پاس کوٹھی ہے، اچھی تنخواہ ہے، بیوی بچے ہیں اور ہر طرح کی عیش و عشرت ہے۔ ان سب کے درمیان اس کا سکون نہ جانے کہاں کھو گیا ہے۔ وہ سکون جو اسے یہ سب حاصل ہونے سے پہلے تھا، جب اس کی تنخواہ کم تھی، بیوی بچے نہیں تھے، کاروبار تھا اور نہ ہی دوسرے مسایل۔ وہ سکون سے تھوڑا کماتا تھا اور چین و سکون کی زندگی بسر کرتا تھا۔ اب سارے عیش و آرام کے بعد بھی اسے وہ سکون نصیب نہیں ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
بجلی پہلوان
امرتسر کے اپنے وقت کے ایک نامی پہلوان کی کہانی ہے۔ بجلی پہلوان کی شہرت سارے شہر میں تھی۔ حالانکہ دیکھنے میں وہ موٹا اور تھل تھل آدمی تھا جو ہر قسم کے دو نمبری کام کیا کرتا تھا۔ پھر بھی اسے پولس پکڑ نہیں پاتی تھی۔ ایک بار اسے سولہ سترہ سال کی ایک لڑکی سے محبت ہو گئی اور اس نے اس سے شادی کر لی۔ شادی کے چھہ مہینے گزر جانے کے بعد بھی پہلوان نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایک دن جب وہ اپنی بیوی کے لیے تحفے لیکر گھر پہنچا تو وہ اس کے بڑے بیٹے کے ساتھ ایک کمرے میں بند کھلکھلا رہی تھی۔ اس سے ناراض بجلی پہلوان نے اسے ہمیشہ کے لیے اپنے بیٹے کے حوالے کر دیا۔
سعادت حسن منٹو
حج اکبر
’’کہانی صغیر نام کے ایک ایسے شخص کی ہے، جسے ایک شادی میں امتیاز نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس کی محبت میں وہ کچھ اس قدر گرفتار ہوتا ہے کہ وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر شادی کے بعد بھی ان کے درمیان مرد عورت کے رشتے قایم نہیں ہو پاتے، کیونکہ صغیر اپنی چاہت کے سبب امتیاز کو ایک بہت پاک شے سمجھنے لگتا ہے۔ ایک روز صغیر کے گھر اس کا بڑا بھائی اکبر ملنے آتا ہے۔ اس کے واپس جانے سے پہلے ہی صغیر امتیاز کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
بیمار
یہ ایک تجسس آمیز رومانی کہانی ہے جس میں ایک عورت مصنف کو مسلسل خط لکھ کر اس کے افسانوں کی تعریف کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بیماری کا ذکر بھی کرتی جاتی ہے جو مسلسل شدید ہوتی جا رہی ہے۔ ایک دن وہ عورت مصنف کے گھر آ جاتی ہے۔ مصنف اس کے حسن پر فریفتہ ہو جاتا ہے اور تبھی اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی ہے جس سے ڈیڑھ برس پہلے اس نے نکاح کیا تھا۔