منگل اشٹکا
کہانی کی کہانی
یہ ایک برہمچاری پنڈت کی داستان ہے جسے اپنے برہمچریہ پر ناز ہے ساتھ ہی اس کا جیون ساتھی نہ ہونے کا دکھ بھی ہے۔ اپنے ایک ججمان کی شادی کی رسم ادا کراتے ہوئے اپنی تنہائی کا احساس ہوتا ہے اور اس کی طبیعت بھی خراب ہو جاتی ہے۔ اپنی دیکھ بھال کے لیے اپنی بھابھی کو خط لکھتا ہے مگر بھابھی دھان کی کٹائی میں مصروف ہونے کے باعث اس کی عیادت کو نہیں آ پاتی ہے۔ پنڈت کا ایک عزیز پنڈت سے اپنی بیوی کی تعریف کرتا ہے اور بیوی ہونے کے فائدے کے بارے میں بتاتا ہے اور پنڈت کو شادی کرنے کی صلاح دیتا ہے جسے پنڈت قبول کر لیتا ہے۔
۱۲ کارتک۔ تلسی بیاہ کا تہوار تھا۔ اسی دن نندہ اور وجے کا بیاہ ہوا۔
نندہ کے چہرے کی سپیدی اور سرخی کسی رنگ ریز کے نا تجربہ کار شاگرد کے سرخ رنگے ہوئے کپڑے کی مانند تھی اور وہ کسی مستور جذبے سے سر تا پا کانپ رہی تھی۔ اگر اس خود فراموشی میں صرف اسے اتنا سا خیال رہتا کہ وہ کہاں کھڑی ہے اور ایسی حالت میں اسے کیا کرنا چاہیے، تو وہ آنکھیں جھپکے بغیر ایک مسلسل نظر سے جیوا رام پروہت کی آٹے سے کھینچی ہوئی لکیروں یا خوبصورت وجے کے گورے گورے پاؤں کی طرف نہ دیکھتی اور نہ ہی وہ پھیریاں لیتے ہوئے قدرے سیدھی کھڑی ہو جاتی۔ کیوں کہ قد میں وہ کچھ لمبی تھی اور سیدھی کھڑی ہونے سے وہ اپنے شوہر کے شانے سے بھی سر نکالتی تھی۔ بیاہ سے چند روز پہلے اس کی ماں نے اسے پھیری کے موقع پر جھک کر چلنے کی سخت تاکید کی تھی۔ مگر نندہ تو یہ بھی بھول چکی تھی کہ بیاہ کے وقت اور بیاہ کے بعد جسمانی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ہر لحاظ سے اسے اپنے شوہر سے نیچا ہو کر رہنا پڑے گا۔
وجے کی حرکات بہت حد تک اس کی دلی کیفیت کی ترجمان تھیں۔ اس کی بیتاب امنگیں آنکھوں کے راستے سے نہایت آوارگی کے ساتھ پل پل کر نندہ کی گوری گوری کلائیوں اور جسم سے، جس کا چھریراپن سات پردوں میں ملبوس ہونے پر بھی دکھائی دے رہا تھا، بے محابا لپٹ رہی تھیں۔ کبھی کبھی وجے کسی گہرے خیال کے زیر اثر آنکھیں بند کر لیتا۔ جیسے مستقبل کی تمام مسرّتیں سِمٹ کر اس موجودہ لمحے میں مرکوز ہو رہی ہوں اور جیوا رام پروہت ان تمام جذبات کو بھانپنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پنڈت جیوا رام کے سامنے آج یہ تیسرا جوڑا تھا، جسے وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک کر رہا تھا۔ جیوارام نے بیاہ کا ساتواں منتر پڑھا۔ منتر پڑھتے وقت اسے اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس ہوتی تھی، کیوں کہ بچپن ہی میں جب روی شنکر چٹوپادھیائے نے اسے منتر پڑھائے تو اس نے سب کچھ صحیح طور پر ایسا رٹ لیا تھا کہ تلفظ درست کرنے، لہجہ سلجھانے، آواز کو اونچا نیچا کرنے اور سُر بدلنے کی گنجائش ہی نہ رہی تھی۔ یوں بھی یہ فن اسے ورثہ میں ملا تھا۔ وہ ایک خودبخود حرکت کرنے والی مشین کی مانند باقاعدہ طور پر اور معیّن جگہ پر۔ یعنی منگل، سنیچر، گنیش سے منسوب خشک آٹے کے خانوں میں پیسے رکھواتا، یا سیندور اور چاول پھنکواتا اور ایسا کرنے میں اس سے بھول چوک کبھی نہ ہوتی۔
جیسے دو اور دو چار ہوتے ہیں، ایسی صحت سے وہ تمام ضروری رسوم سرانجام دیتے ہوئے تخیل میں کہیں کا کہیں پہنچ جاتا۔ اس دن وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ ایک اونچی پہاڑی پر کھڑا ہے۔ پہاڑی کے دامن میں اس کو ایک خوبصورت جھیل۔ اس میں تیرتے ہوئے بجرے، اس کے کنارے پر لہلہاتی ہوئی کھیتیاں اور ساتھ ہی ماہی گیروں اور دہقانوں کے وہ جھونپڑے نظر آ رہے تھے جن میں وہ لوگ ایسی مسرّت سے سرشار تھے جس پر بادشاہوں کو بھی رشک آئے اور اس سے پرے امراء کے محل جن میں وہ اپنے زر و دولت اور شان شوکت کے باوجود غریبوں سے بھی زیادہ دکھی تھے۔ جھیل کے مشرقی کناروں پر پانی میں ناگ پھنی اور کنول اگ رہے تھے اور شیشم کے ایک کمزور سے درخت کے نیچے کوئی تارک الدنیا، سنیاسی ترئی پھونک رہا تھا اور ترئی کی دلکش آواز اس بات کی یاد دلا رہی تھی، جسے نسلِ انسان ازل سے بھولتی چلی آ رہی ہے۔ اور پھر جیوارام نے ایک گہری اور ٹھنڈی سانس لی۔ اب اس نے دل میں کہا، ’’ان ہاتھوں سے سینکڑوں بیاہ رچے۔ ان ہاتھوں نے سینکڑوں گھر آباد کیے۔ کئی غم زدوں کا ایک ایک لمحہ انبساط و نشاط میں سمو دیا۔ مگر میں خود ویسے کا ویسا کنوارا، خانہ برباد اور تنہائی کی ختم نہ ہونے والی مصیبت میں گرفتار رہا۔ اس ناگ پھنی اور کنول کی مانند جو پانی میں اگتے ہیں، مگر پانی سے آلودہ نہیں ہوتے۔
اچانک اسے خیال آیا کہ وہ بیاہ کا آخری منتر۔ منگل اشٹکا پڑھ رہا ہے اور پھر اشٹکا کا بھی آخری لفظ ’’ساودھان‘‘ اس نے خود کو کہتے ہوئے پایا۔ ساودھان کے لفظ کے ساتھ ہی بیاہ مکمل ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ہر طرف سے مبارکباد کی آوازیں آنے لگیں اور اس شور و غوغا نے جیوا رام کی توجہ کو اپنی طرف مائل کر لیا۔
’’ساودھان‘‘ جیوارام نے ایک دفعہ پھر کہا اور۔ تیسرا بیاہ پڑھنے کے بعد جیوارام پنڈت کچھ تھکن سی محسوس کرنے لگا۔ آمدنی کا لالچ اسے اتنی محنت پر کم ہی مجبور کیا کرتا تھا۔ جیوارام نے اپنی بوجھل آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ آنکھوں کے نیچے بھاری بھاری تھیلے زیادہ بھاری اور سیاہ دکھائی دینے لگے۔ تھیلوں کو سکیڑ کر جیوارام نے ایک جمائی لی۔ نندہ کو منھ بسُورتے دیکھا، کیوں کہ وہ اپنے ماں باپ سے ہمیشہ کے لیے جُدا ہو رہی تھی، اور وجے کو مسکراتے ہوئے، کیوں کہ عنقریب وہ شادی کی مسرّتوں سے لطف اندوز ہونے والا تھا۔ کئی جمائیوں کے درمیان پروہت نے نہایت اختصار سے نندہ اور وجے کو خاوند اور بیوی کے جُداگانہ فرائض سے آشنا کیا۔ اس کی تقریر کا لُبِ لباب یہ تھا کہ وہ آگ، پانی، ہوا، زمین اور آسمان کی گواہی میں ایک کیے جاتے ہیں۔ نندہ کو بتایا گیا کہ وہ ہر لحاظ سے شوہر سے کم رتبہ رکھتی ہے (اگرچہ جسمانی لحاظ سے وہ شوہر سے سر نکالتی ہے) وجے سے کہا گیا کہ اسے چاہیے کہ وہ نندہ کو اپنے گھر کی رانی بنا کر رکھے۔ پھر جیوارام نے وجے کو خاص طور پر برہمن، استری اور گائے کی حفاظت کرنے کی تلقین کی۔ شِوراتری کی کتھا کا ایک حصّہ سناتے ہوئے جیوارام نے کہا، ’’وجے تم بھی پنڈت ہو۔ تم خود جانتے ہو گے۔ شکاری جو تیر مارنا چاہتا تھا، اسے جانوروں نے اپدیش دیا۔‘‘
10 بکریوں کا مارنا برابر ہے۔ ایک بیل مارنے کے
100 آدمیوں کا مارنا برابر ہے۔ ایک براہمن مارنے کے
100براہمنوں کا مارنا برابر ہے۔ ایک استری مارنے کے
100 استریوں کا مارنا برابر ہے۔ ایک گربھ وَتی (حاملہ) استری مارنے کے
10 گربھ وتی استریوں کا مارنا برابر ہے۔ ایک گائے مارنے کے۔۔۔
اپنا کام نمٹا چکنے کے بعد جیوارام نے وہاں سے جانا چاہا۔ کس لیے؟ تنہائی کی مصیبت میں پھر گرفتار ہونے کے لیے، ویسا ہی برباد، کنوارا اور اچھوتا رہنے کے لیے، جیسے سخت بارش کے بعد ناگ پھنی اور کنول بِن بھیگے سر اٹھائیں۔ اتنے بیاہ اس کے ہاتھوں سے ہوئے۔ شادیوں کی اس موسلادھار بارش میں بھی وہ ناگ پھنی کی مانند۔۔۔
اس وقت جیوا رام کے تصور میں نندہ کا نہ بھول سکنے والا چہرہ، وجے کی اوباش و آوارہ نگاہیں اور کانوں میں براتیوں کا شور و غوغا اور گانے اور ہنسی مذاق کی آوازیں تھیں۔ اس کی جذباتی طبیعت درحقیقت اسے وہاں سے رخصت ہو جانے پر مجبور کر رہی تھی۔
وہ طبیعت کیسی تھی۔ بات یہ تھی کہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہونے کی وجہ سے وہ باجے ڈھولک، گانے، مذاق اور چٹکیوں کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ بیاہ کے موقعے پر دلہن کے چہرے کا حیا سے رنگ بدلنا، نوشہ کی دزدیدہ نگاہیں، رخصت ہوتے وقت دلہن کا رونا، راگ رنگ، ہنسی اور مذاق اور قہقہے اس کے دل میں ایک ہیجان بپا کر دیتے۔ خصوصاً بیاہ کے گیت سن کر تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگ جاتا اور اپنے شدید کنوارے پن میں اسے یہ محسوس ہونے لگ جاتا کہ وہ اس تمام شور و غوغا میں ایک ادنیٰ، بے توقیر اور فالتو سی شخصیت ہے۔ اس کا یہ وہم دیوانگی کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ منگل اشٹکا پڑھنے اور ساودھان کہہ چکنے کے بعد وہ فوراً ایک کونے کی طرف سرکنا شروع کر دیتا۔ جس قدر دلہن والے اور براتی اس کی فوری کنارہ کشی دیکھتے، اسی قدر اسے بیٹھنے کے لیے مجبور کرتے۔ نہایت تکریم سے بلاتے۔ مگر جتنا کوئی اصرار کرتا، جیوارام کو اتنی ہی زیادہ خفّت ہوتی۔
ایک اور بات سے بھی اس کا اس قدر شرمیلا ہونا منسوب کیا جا سکتا تھا۔ شروع سال میں باتوں باتوں میں جیوارام نے مجھے بتایا کہ اس سال چیت کی پورنماشی کو ہنومان جینتی کے دن وہ چالیسویں سال میں قدم رکھے گا۔ یکایک مجھے خیال آیا کہ چیت کی پورنماشی کے دن ماروتی دیو یعنی ہنومان جی پیدا ہوئے تھے اور اس دن سے چالیس برس پہلے جیوارام کی پیدائش بھی انھیں ستاروں کے زیر اثر ہوئی ہو گی، جس کے باعث اس کا جسم بھی تنومند تھا اور طبیعت میں ہنومان جی کی سی بے چینی اور جوش تھا۔ یعنی وہ ایک جگہ جم کر کم ہی بیٹھ سکتے تھے۔ فقط ایک بات تھی جو ہنومان جی میں نہ تھی اور وہ جیوارام میں تھی، اور وہ جیوارام کا شرمیلاپن اور غیرضروری حجاب تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ہنومان جی کی پیدائش اور پنڈت جیوارام کی پیدائش میں کچھ وقت کا فرق پڑ گیا ہو اور جیوارام دوسری راس میں داخل ہو کر ہنومان جی سے تفریق پیدا کرچکا ہو اور کسی کمزور ستارے نے ہنومان جی کی سی بے باکی اور جرأت کو شرمیلے پن اور محجوبی میں بدل دیاہو۔ بہرحال وہ اس وجہ سے بھی شرمیلا تھا کہ برسوں سے اکیلا رہتا آیا تھا۔ عمر کے چالیسویں سال میں قدم رکھتے ہوئے وہ اس خوفناک حد تک کنوارا تھا کہ اگر بیمار پڑ جائے تو کوئی اسے پانی کو بھی نہ پوچھے۔ چوں کہ عورتوں کی بابت وہ کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے ان سے ڈرتا تھا۔ وہ فقط یہ جانتا تھا کہ دنیا میں بہت سے جھگڑوں کی ابتدا عورت سے ہوا کرتی ہے۔ اس بات کا بھی اسے علم تھا کہ عورت کی طبیعت (اس کی اپنی طبیعت کی مانند) جذباتی ہوتی ہے۔ مبہم اور شرمیلی۔ نامعلوم کس وقت کوئی بات اسے بُری معلوم ہونے لگے۔ حالاں کہ اس میں ذرّہ برابر شک نہیں کہ جیوارام بُری بات کے معیار سے ناواقف تھا۔ بیسیوں بار اس نے جی کڑاکر کے ایسی باتیں کی تھیں، جو اس نے پہلے دل میں بُری محسوس کی تھیں۔ مگر کسی عورت نے بُرا نہ مانا اور اب تو اس کی ہمت بڑھتی جاتی تھی۔
بیس برس سے چالیس برس کی عمر کے درمیان اسے خیال آیا کہ وہ برہمچریہ آشرم سے گرہست آشرم میں داخل ہو جائے۔ مگر برہمچاری پنڈت کا درجہ سماج میں کتنا اونچا ہوتا ہے، اس کا اسے غرور تھا۔ محض انگشت نمائی کے خوف سے اس نے اپنے آپ کو روکے رکھا، حتے کہ چالیس برس کی عمر کو پہنچنے تک یہ خیال بہت شکستہ ہو گیا تھا۔ کئی تخیل انگیز بیاہوں نے اس کی ہٹ پر کاری ضرب لگائی تھی اور رفتہ رفتہ یہ اس کے ذہن نشین ہو گیاکہ چلتی پھرتی دنیا میں کسی کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ اپنا کام کاج چھوڑ چھاڑ کر انگشت نمائی کے لیے وقت نکال سکے۔ ایسا خیال کرنا تو اپنے ہی من کی مایا ہے۔
گرہست کے قضیوں کا رونا اگرچہ رُلنا شہر کے متعدد گرہستیوں سے انفرادی طور پر سنتے سنتے اس کے کان پک چکے تھے، پھر بھی کسی ہوش رُبا بیاہ کے اختتام پر چند لمحے حیرت میں ڈوبے رہنے کے بعد جیوارام منھ سے انگلی نکال کر سر کو ایک جھٹکا دیتا، جیسے کسی وکیل کو اپنے موکل کے بیان میں کوئی ایسا موافق نکتہ دکھائی دے جس پر تمام مقدمہ گھوم جائے۔ وہ مشکوک انداز سے کہتا، ’’یہاں۔ یہ بات۔ بھئی! آخر کچھ تو ہے جو رونے پیٹنے کے باوجود لوگ خوش رہتے ہیں۔ اس کش مکش اور بے قراری میں بھی کچھ لطف ضرور ہے۔‘‘
مگر جب جیوارام کے کان میں یہ الفاظ پڑتے کہ جیوارام چالیس برس کا ہو چکا ہے اور اس نے ابھی استری کا منھ تک نہیں دیکھا، تو اس کو اپنی فوقیت اور عظمت میں شک نہ رہتا۔ ایسی بات سن کر جیوارام کے خوش آئند تخیل کی بنائی ہوئی بیاہ کی حسین عمارت ملبہ سمیت نیچے آ رہتی اور اسے از سرِ نو اور زیادہ وسیع اور شاندار بنانے کے لیے ایک ہوش رُبا بیاہ، اس کی تمام رونق، ازدواجی رشتوں میں منسلک ہونے والے لڑکی اور لڑکے کی غائبانہ کشش، ان کے والدین کی خوشی، اسی راگ رنگ، اور ہنگامۂ ہاؤ ہو کی ضرورت ہوتی۔ اور نندہ اور وجے کا بیاہ پڑھ چکنے کے بعد ایک ایسی تعمیر کے کنگرے جیوارام کے تخیل میں آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔
چند دنوں کے بعد اوباش وجے جو رُلنا ہی میں رہتا تھا اور دور نزدیک سے جیوارام کا رشتہ دار بھی تھا، آیا۔ اس کی آنکھوں کے سرخ ڈورے زیادہ پھول رہے تھے اور ان سے شعلے نکلتے دکھائی دیتے تھے، جیسے اس کے اندر کوئی بھٹی جل رہی ہو۔ ہاں! شباب کی بھٹی تھی نا وہ۔
’’ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام‘‘
وجے نے کنوئیں کی چرخی کا سہارا لیتے ہوئے جیوارام سے کہا،
’’کہو دادا (بھائی) اتنے اداس کیوں ہو؟‘‘
جیوارام نے اپنی افسردگی کو چھپا لیا اور بولا،
’’بھئی کل سے بیمار ہوں۔ بہت لاچار ہوں۔ بھائی کو خط لکھا ہے۔ بھاوج کو یہاں بھیج دے۔ مجھے تو یہاں پانی دینے والا بھی کوئی نہیں۔‘‘
’’ارے بھاوج؟ ایک ہی کہی تم نے۔ دھانوں کے دن ہیں۔ آج کل چھٹائی میں سر دھنتی ہو گی۔ جیٹھو کی کمائی انھیں تک محدود ہے اور آج کل تو بھاؤ پھلانگتا ہوا اوپر جا رہا ہے۔ ایک پانی برس گیا تو ان کے کوڑی دام نہیں۔‘‘
دور سے نیل رتن آتا دکھائی دیا۔ نیل رتن مجسم شیطان تھا۔ وہ ہمیشہ بے وجہ ہنستا تھا۔ بے موقع ہنسی مذاق کیا کرتا۔ جب لوگ ہنستے تو وہ روتا۔ جب لوگ روتے تو وہ ہنستا۔ یہ تعریف اولیاء کی ہوتی ہے۔ مگر وہ ولی بھی تو نہ تھا اور یہی بات خطرناک تھی۔
نیل رتن سے ذکر کیا گیا تو وہ بولا، ’’ٹھیک ہے، بھاوج کو غرض پڑی ہے کہ تمھارے ہاں آئے۔ اس کے تین بچے ہیں، تینوں کمسن، تینوں لڑکیاں۔ جن کا تن ڈھانپتے ہی آدھا دن گزر جاتا ہے۔ بھلا آئے تو ایک ایک کٹوری سے کم دودھ کسی کو کیا دو گے۔ کیا کہتے ہو سیر؟ ایں؟ میں کہتا ہوں دو اڑھائی سیر سے کم نہ لگے گا۔ ذرا حساب تو لگاؤ۔ اور پھر کئی قسم کا خرچ آپڑے گا۔ یوں دبو گے جیسے چوہا بلّی کے نیچے دبا ہوتا ہے۔‘‘
پھر اس بات کا رخ خود بخود پلٹ گیا۔ نیل رتن بولا، ’’کیوں وجے۔ بیاہ کیسا رہا۔ بیوی تو اچھی ہے نا؟‘‘ جیوارام نے بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’بھئی نندہ تو یوں بھی دیوی ہے۔ نری دیوی، وہ جہاں بھی جاتی گھر کو سورگ بنا دیتی۔‘‘
’’ٹھیک کہتے ہو دادا۔‘‘ وجے نے کنوئیں کی چرخی کا سہارا ہٹاتے ہوئے کہا، ’’گرہست تو سچ مچ سورگ ہوتا ہے۔ کیا بتاؤں؟ نندہ تو سچ مچ نندہ ہی ہے۔ میں نے پچھلے جنم میں کوئی اچھے کرم کیے ہوں گے۔ جو مجھے نندہ ملی۔ ایشور کرے میرے ایسا سکھ ہر ایک کو نصیب ہو۔‘‘ اس کے بعد وجے نے اپنے آپ بتایا کہ نندہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتی، جب تک اسے نہ کھلا لے۔ وہ کہیں باہر چلا جائے تو تمام دن انتظار ہوا کرتا ہے۔ دیر لگا کر آئے تو اسے روتا ہوا پاتا ہے۔ شکوے ہوتے ہیں۔ رات کو سونے سے پہلے اس کے پاؤں دباتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ شاید یہ خوش ہونے کی بات تھی۔ اسی لیے نیل رتن نے افسردہ سا منھ بناتے ہوئے کہا، ’’ایسا ہی ہوتا ہے بیٹا جی۔ چند روز۔ ذرا ایک دو برس گزرنے دو۔ ایک آدھ بچہ ہو جائے گا، پھر دیکھنا یہ گرہست کس بھاؤ پڑتا ہے۔ کدھر جاتے ہیں وہ چوچلے۔‘‘
’’خیر کچھ بھی ہو۔‘‘ جیوارام نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، ’’جس گھر میں نندہ سی بیوی چلی جائے۔ وہ گھر تو۔۔۔‘‘
پھر نا معلوم جیوارام کو کیا ہوا۔ فوراً ہی مغموم سا منھ بناتے ہوئے بولا،
’’وہ زندگی ہماری طرح تو نہیں کہ بیمار پڑ گئے تو کوئی پانی بھی نہ پوچھے۔ بھاوج کو لکھیں تو وہ دھانوں یا بچوں کی وجہ سے نہ آئے۔ اگر آئے تو دو اڑھائی سیر دودھ وغیرہ۔ یہی اندازہ تھا نا رتن؟‘‘
وجے اور نیل رتن نے شدید طور پر جیوارام پنڈت کی مصیبت کو محسوس کیا۔ نیل رتن نے ایک خاص انداز سے وجے کی طرف دیکھا۔ وجے بولا۔
’’دادا تم جانتے ہو۔ میں کس لیے تمھارے پاس آیا ہوں؟‘‘
’’نہیں۔ میں کیا جانوں۔‘‘
’’میں تم سے منگل اشٹکا سیکھنے آیا ہوں، باقی کے سات منتر تو مجھے آتے ہیں۔ منگل اشٹکا پڑھتے وقت کچھ روانی نہیں پاتا ہوں۔‘‘
’’تم بھی پروہتوں کا کام کرنے لگے۔ اپنا کام چھوڑ دیا تم نے؟‘‘
’’تمھیں سِکھا دینے میں تامل ہی کیا ہے۔ ایک خاص بیاہ پر ضرورت ہے۔‘‘
پھر جیوارام کے قریب آتے ہوئے وجے نے کہا۔
’’دادا! بات یہ ہے۔ ہمارے ہاتھ تلے ایک لڑکی ہے۔ نہایت سندر، ذرا چنچل ہے تمھاری طرح۔ عورتیں ہوتی ہی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں۔ تمھارا اس سے بیاہ ہو جائے۔ بیاہ میں ہی پڑھ دوں۔ اور زیادہ لاگ لپٹ اور شور نہ ہو۔ گرہست میں تمھیں بہت سکھ ملے گا۔ تمھاری حالت کا اندازہ میں نے اسی دن لگا لیا تھا۔ جب تم میرا بیاہ پڑھ رہے تھے۔‘‘
وجے اور نیل رتن، جیوارام کے اثبات و نفی کا انتظار کرنے لگے۔
چند لمحات کے لیے خاموشی رہی۔
جیوارام کا جواب خاموشی تھا۔ جس کا مطلب تھا، نیم رضامندی۔
نیل رتن نے چپکے سے کہا، ’’دادا۔ اچھی بات ہے۔ وجے پنڈت ہی ہے نا۔ وہ منگل اشٹکا وشٹکا پڑھ لے گا۔ بہت شور مچائے بغیر بیاہ ہو جائے گا۔ سکھی رہو گے۔ تم جانو تمھارا کام۔ ہم بھلے کی کہتے ہیں۔ دن مت دیکھو۔ 25۔ کارتک، بدھ وار، شبھ لگن، شبھ مہورت، بس منگل اشٹکا اور ساودھان۔‘‘
ناگ پھنی اور کنول کو اپنی پتیاں بھیگتی ہوئی نظر آنے لگیں، جیوارام کی ذہنی تعمیر کے کنگرے آسمان سے باتیں کرتے کرتے بالکل آسمان سے جا ملے۔
جیوارام پروہت کے بیاہ کے لیے بہت ٹھاٹھ باٹھ کیا گیا۔ باجے بھی بجے اور ڈھولک بھی۔ مذاق بھی ہوئے اور قہقہے بھی بلند ہوئے۔ جیوارام کا دل بھی دھڑکا۔ اور بہت زور زور سے۔ فقط اتنی کسر تھی کہ چھاتی کی دیواریں نہ ہوتیں تو کبھی کا اچک کرباہر آ رہتا۔
وجے نے دیکھا۔ پنڈت جیوارام کی نظریں بھی آوارہ ہو چکی تھیں اور مچل مچل کر اپنی ہونے والی بیوی کی گوری گوری کلائی پر چمکتی ہوئی چوڑیوں اور جسم، جس کا چھریراپن سات کپڑوں میں ملبوس ہونے پر بھی دکھائی دے رہا تھا، کا جائزہ لے رہی تھیں۔ اس کی زوجہ نندہ کی طرح لمبی تھی اور اپنے شوہر سے سر نکالتی تھی اور یہ محض اتفاق کی بات تھی۔
وجے نے رسمیہ طور پر عہد کے لیے جیوارام کا ہاتھ اس کی ہونے والی بیوی کے ہاتھ میں دیا۔ اس پر گیلا آٹا رکھا اور ساتواں منتر پڑھ دیا۔ چاروں طرف سے چاول وجے کے آگے گرنے لگے۔ وجے ایک استادانہ طرز سے پیسے منگل، سنیچر، گنیش، وغیرہ کے خانوں میں رکھوا رہا تھا۔ کانپتے ہوئے جیوارام نے اشارہ سے وجے کو بلایا۔ منتر گنگناتے ہوئے وجے نے اپنا کان جیوارام کے منھ کے پاس کر دیا۔ جیوارام نے کہا، ’’بھیا۔ میرا دل بہت دھڑک رہا ہے۔ میں کانپ رہا ہوں۔ دیکھتے نہیں مجھے سردی لگ رہی ہے۔ نیل رتن سے کہنا مجھے ذرا تھامے رکھے۔‘‘ وجے برابر منتر گنگناتا گیا۔ وجے کا ایک اور ساتھی بولا، ’’دادا۔ نیل رتن گیر ہٹ گیا ہے۔ تم جانتے ہو رُلنا سے بہت دور نہیں ہے۔ آتا ہی ہو گا۔‘‘
’’وجے۔ ٹھہرو۔‘‘ جیوارام نے آہستہ سے کہا، ’’منگل اشٹکا ابھی نہ پڑھو۔ مجھے سوچ لینے دو۔ میری عمر چالیس برس کی ہے۔ اور میں برہمچاری پنڈت ہوں۔‘‘ وجے نے دیکھا، جیوارام سچ مچ بیاہ کے لیے بہت معمر تھا۔ اس کے گلے میں خشکی پیدا ہو رہی تھی۔ لب سوکھ گئے تھے، جن پر جیوارام دیوانہ وار زبان پھیر رہا تھا۔ وجے نے آہستہ مگر ایک حقارت آمیز آواز سے جیوارام سے کہا، ’’چھی چھی۔ تمھارے ایسے کمزور آدمیوں کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں دادا۔ دنیا ایسے لوگوں کا مذاق اڑایا کرتی ہے۔‘‘
جیوارام کے بس کی بات ہوتی تو وہ منگل اشٹکا کا جاپ ہونے سے پہلے ہی اپنے پاک برہمچریہ کو گرہست کی آلودگیوں سے بچا لے نکلتا۔ مگر اس نے دیکھا کہ اس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو اس کی ہونے والی بیوی نے بہت زور سے دبا رکھا تھا۔ شاید وہ سوچتی تھی کہ وہ ہاتھ کیوں کانپ رہے ہیں؟ شاید شرارت کے طور پر۔ چنچل تھی نا۔ جوانی تھی نا۔ عورت!
پھر جیوارام منگل اشٹکا کے جلدی جلدی پڑھے جانے کا انتظار کرنے لگا، تاکہ وہ جلد ہی اس ذہنی کوفت سے نجات حاصل کر لے اور اپنی ہونے والی بیوی کا چہرہ دیکھے۔ اس کے تخیل کی مشین چلنے لگی۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک دلفریب پہاڑی پر کھڑا ہے۔ پہاڑی کے دامن میں اس کو ایک خوبصورت نیلی جھیل۔ اس میں تیرتے ہوئے بجرے، اس کے کنارے پر لہلہاتی ہوئی کھیتیاں اور ساتھ ہی ماہی گیروں اور دہقانوں کے وہ جھونپڑے نظر آ رہے تھے، جن میں وہ لوگ ایسی مسرّت سے سرشار تھے جس پر بادشاہوں کو بھی رشک آئے، اور ان سے پرے امراء کے محل، جن میں وہ زر و دولت اور شان و شوکت کے باوجود غریبوں سے بھی زیادہ دکھی تھے۔ جھیل کے مشرقی کناروں پر پانی میں ناگ پھنی اور کنول اگ رہے تھے اور شیشم کے ایک پودے سے درخت کے نیچے کوئی تارک الدنیا سنیاسی ترئی پھونک رہا تھا۔ اور ترئی کی دلکش آواز اس بات کی یاد دلا رہی تھی، جسے نسلِ انسان ازل سے بھولتی چلی آ رہی ہے۔
فقط اب وہ اکیلا نہ تھا۔ اس کی بیوی بھی اس کے بازو میں بازو ڈالے محوِ نظارہ تھی۔
پانی میں ناگ پھنی اور کنول تر بتر ہو رہے تھے۔
یکایک منگل اشٹکا نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ کتنا خوبصورت پُر معنی منتر ہمارے بزرگوں نے۔۔۔
’’ساودھان‘‘ کی آواز آئی اور لوگوں نے مبارک باد دی۔
وجے نے اپدیش دیا۔ بالکل جیوارام کی طرح۔ وجے نے آخر میں کہا۔
10 بکریوں کا مارنا برابر ہے۔ ایک بیل مارنے کے
100 آدمیوں کا مارنا برابر ہے۔ ایک براہمن مارنے کے
پاس ہی ایک شرارتی لڑکے نے آہستہ سے کہا۔
ایک من برابر ہے۔ چالیس سیر کے
ایک سیر برابر ہے۔ سولہ چھٹانک کے
اور وجے نے گھورتے ہوئے کہا، ’’ہشت، ہشت‘‘
شام کو حجلۂ عروسی میں جیوارام نے اپنی دلہن کو گٹھڑی بنے ایک کونے میں بیٹھے دیکھا۔ جیوارام کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اپنی بیوی کا منھ دیکھنے کی اس میں جرأت نہ تھی۔ ’’شاید یہ حرکت اسے بُری لگے۔‘‘ جیوارام نے دل میں کہا، ’’عورت ہے نا۔‘‘ جیوارام نے جتنی دفعہ کوشش کی، اتنی دفعہ ہی ناکام رہا۔ اسے یہ محسوس ہونے لگاجیسے اس کے کمرے میں اور بھی بہت سے آدمی ہیں۔ اسے واہمہ گردانتے ہوئے جیوارام نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ مگر پھر روک لیا۔
’’تمھارے ایسی کمزور طبیعت والے آدمی کو تو دنیا آڑے ہاتھوں لیتی ہے۔
’’چھی چھی‘‘ وجے کے الفاظ جیوارام کے کانوں میں گونجنے لگے۔
جیوارام نے جب نہایت ہمّت سے کام لے کر آناً فاناً دلہن کا منھ بے نقاب کیا تو دلہن دیوانی ہو کر تالیاں بجانے لگی۔ جیوارام کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ اس نے دیکھا کہ بیاہا ہوتے ہوئے بھی وہ کنوارا تھا۔ یا کنوارا ہوتے ہوئے وہ رنڈوا تھا یا۔۔۔‘‘
دور چارپائی پر دلہن کی بجائے نہایت قیمتی کپڑوں میں ملبوس نیل رتن تالیاں بجا رہا تھا، اور باہر سے منگل اشٹکا کے اونچے اونچے جاپ کے درمیان بے تحاشا قہقہے بلند ہو رہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.