aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دادی اماں سونے سے پہلے سب بچوں کو کہانی سنایا کرتی تھیں۔ ہمارے گھر میں ان کی کہانی سننے کے لئے محلے کے دوسرے بچے بھی آجاتے۔ ہر روز رات کو ہم ان سے کہانی سنتے۔ ان کی کہانیاں بہت مزیدار ہوتیں۔ ہم انہیں مزے لے لے کر سنتے۔ آخر میں دادی اماں کہانی ختم کر
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی کیونکہ اس کا نر مر چکا تھا۔ وہ بیچاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی ہے کہ تم جلد مر جاؤگی۔ اسے یہ سن کر
اونٹ کے گلے میں بلی، دودھ کا دودھ پانی کا پانی، یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے، اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا، اس قسم کے عجیب جملے آپ اپنے بڑے بوڑھے اور بزرگوں سے اکثر سنتے ہوں گے۔ ایسے جملوں کو کہاوت یا ضرب المثل یا مختصراً صرف مثل کہا جاتا
ایک مور تھا اور ایک تھا گیدڑ۔ دونوں میں محبت تھی۔ دنوں کی صلاح ہوئی۔ کہ چل کر بیر کھاؤ۔ وہ دونوں کے دونوں مل کر چلے کسی باغ میں۔ وہاں ایک بیری کا درخت تھا۔ جب اس درخت کے قریب پہنچے۔ تو مور ار کر اس درخت پر جا بیٹھا۔ درخت پر بیٹھ کے پکے پکے بیر تو آپ
ابا جان بھی بچوں کی کہانیاں سن کر ہنس رہےتھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ نہ رہ سکے۔ بول ہی اٹھے۔ بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے۔ کہو تو سنا دیں! ’’آہاجی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے۔ ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔
ایک لکڑہارا تھا۔ وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا پیٹ پالتا تھا۔ ایک دن لکڑہارے کی کلہاڑی کھو گئی۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ دوسری کلہاڑی خرید لیتا اس نے سارے جنگل میں کلہاڑی ڈھونڈی لیکن کہیں نہ ملی۔ تھک ہار کر وہ رونے لگا۔ اچانک درختوں کے پیچھے سے ایک جن نکلا۔
شہزادی سلطانہ بادشاہ کی شادی کے بعد بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ تو اس کی پیدائش پر خوش تھے ہی مگر جس روز وہ پیدا ہوئی تھی پورے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ہر طرف جشن منایا جا رہا تھا۔ بادشاہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا
بچپن ہماری زندگی کا یقینا سنہرا دور ہے۔ اس کی حسین یادیں تا عمر ہمارے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں جگمگاتی رہتی ہیں۔ انگریزی کے مشہور شاعر جان ملٹن نے اسے ’’جنت گمشدہ‘‘ یعنی کھوئی ہوئی جنت کہا ہے۔ جب بھی ہم اپنے بچپن کے بارے میں سوچتے ہیں تو جی چاہتا
’’بیگم اب ہماری پنشن ہونے والی ہے، ذرا گھر کا خرچ کم کرو۔‘‘ ہمارے ابا میاں نے پنشن سے پہلے یہ مناسب سمجھا کہ ہماری اماں جان کو (جو ہمارے ابا میاں سے بھی زیادہ کھلے ہاتھ کی تھیں) اونچ نیچ سمجھا دیں۔ ’’اے ہے میں زیادہ خرچ کرتی ہوں تو اپنے ہاتھ میں گھر
فرخ نے پردہ سرکایا، صبح کی تازہ ہوا کے ساتھ ہی اصلی گھی کے گرما گرم پراٹھوں کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی یقیناً شیخ صاحب کے گھر گرم گرم پراٹھے بن رہے تھے اس نے سوچا اور دیر تک یہ خوشبو اپنی سانسوں میں اتارتا رہا۔ ’’آہا کتنا مزہ آئے گا یہ پراٹھے
ایک تھی چوہیا اور ایک تھی چڑیا۔ دونوں کا آپس میں بڑا اخلاص پیار تھا اور بہنیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک روز صبح کو چڑیا نے کہا: ’’کہ چلو بہن چوہیا ذرا ہوا کھا آئیں‘‘ چوہیا نے کہا چلو دونوں سہیلیاں مل کر چلیں ہوا کھانے۔ چڑیا تو ارتی اڑتی جاتی تھی اور چوہیا پھدک
محاوروں کی دنیا عجیب وغریب ہے، ہمارے شاعروں کی طرح جنھیں کہنا کچھ ہوتا ہے اور کہتے کچھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’محاوروں کو جملوں میں استعمال کیجئے‘، اس سوال میں وہ طلبا بری طرح فیل ہوتے ہیں جو ’عید کے چاند کو‘ واقعی عید کا چاند سمجھتے ہیں۔ جب انھیں اس محاورے
یہ بھائی، بہنوں کو عجیب عجیب طریقے سے بیوقوف بناتے ہیں۔ بھائی کے ہاتھوں نکو بننے والی بہن کی روداد
علی زے ایک بہت پیاری بچی ہے۔ اس کے پاس ایک گڑیا ہے۔ دیکھنے کے لائق۔ علی زے اپنی گڑیا سے بہت پیار کرتی ہے۔ ایک دن اس نے سوچا کیوں نہ میں اپنی گڑیا کی شادی کردوں۔ کل جمعہ ہے۔ جمعے کا دن اچھا رہےگا۔ سب سے پہلے علی زے اپنی آپا کے پاس گئی اور بولی: ’’آپا!
لاکھوں برس گزرے۔ آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔ یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر
ترکستان کے ایک سوداگر کی درھم کی ایک تھیلی راستہ میں کہیں گرپڑی۔ اس نے گاؤں میں منادی کردی کہ تھیلی جس کوملی ہو واپس کردے۔ تھیلی میں جس قدر درھم ہوں اس کے نصف انعام کا وہ حقدار ہوگا۔ اس تھیلی میں دوسودرہم تھے۔ یہ تھیلی کسی جہاز کے ملاّح کو ملی تھی
ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ ایک امیر آدمی کے گھر میں اسے بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ پانی بھر کے لاتی، کھانا پکاتی۔ بچوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔ کھیلنا
ایک فقیر تھا۔ وہ اپنی جھونپڑی میں رہا کرتا تھا۔ اس نے ایک مینا پال کے پنجرے میں بند کر کے اپنی جھونپڑی میں لٹکا رکھی تھی۔ فقیر روز بھیک مانگنے جایا کرتا تھا۔ اس مینا نے جو اس فقیر کو بھیک مانگتے دیکھا۔ تو اس پر بھی فقیر کی صحبت کا اثر ہوا۔ اور وہ بھی
ایک سوداگر کچھ دنوں کے لیے ایک سفر پر جانے لگا تو اس نے سومن لوہا اپنے ایک دوست کے گھر امانت کے طور پر رکھوا دیا تاکہ ضرورت پڑے تو اسے بیچ کر روپیہ حاصل کر سکے۔ جب وہ سفر سے لوٹا تو اپنے دوست کے پاس آیا اور اس سے لوہا طلب کیا۔ دوست نے کہا۔ ’’تمہارا
بچے جب مل بیٹھتے ہیں تو کوئی نہ کوئی کھیل ضرور شروع ہو جاتا ہے۔ خواہ کوئی ملک ہو یا کوئی موسم، بچوں کو کھیلنے سے باز نہیں رکھا جا سکتا۔ کچھ کھیل ایسے ہوتے ہیں جو کمروں میں کھیلے جاتے ہیں اور کچھ میدانی کھیل ہوتے ہیں۔ آپ بھی بہت سے کھیل کھیلے ہوں گے۔
راجہ کا ایک باغ تھا۔ اس کے بیچ میں ایک تالاب تھا۔ وہ تالاب بڑا ہی تھا اور گہرا بھی تھا۔ اس کا پانی ایسا سفید تھا جیسا دودھ۔ اس کے کنارے سبزہ تھا اور اس سبزے میں رنگ رنگ کے پھول تھے۔ راجہ اپنی رانی کے ساتھ ہر روز شام کو سیر کرنے آتا تھا۔ رانی کو بھی
جب میں اپنے استادوں کا تصور کرتا ہوں تو میرے ذہن کے پردے پر کچھ ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو بہت دلچسپ، مہربان، پڑھے لکھے اور ذہین ہیں اور ساتھ ہی میرے محسن بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا خیال کر کے مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور ان پر پیار بھی آتا ہے۔ اب میں باری باری
سلطان محمود اپنے نوکروں میں سے ایاز پر بڑا مہربان تھا۔ اس لیے تمام نوکر اسی فکر میں رہتے تھے کہ اس کی کوئی شکایت کر کے سلطان کا دل کھٹا کردیں۔ آخر بہت تلاش کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ایاز جس پلنگ پر سویا کرتا ہے۔ اس کے سرہانے چاندی کا ایک صندوق رکھا
سارہ کے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا باغ تھا جہاں کچھ ہرے بھرے پیڑ پودے اور گھاس موجود تھی۔ لیکن جب سخت گرمی پڑتی تو وہاں گھاس اور پیڑ پودوں کی ہریالی ماند پڑتی جاتی۔ پرندے اور دوسرے جانور بھی اپنے اپنے بلوں، گھونسلوں اور گھروں میں دبکے بیٹھے رہتے۔ لیکن
’’ارے یہ کمبخت کوا کب سے دیوار پر بیٹھا کائیں پہ کائیں کرے جا رہا ہے۔ تجھے نظر نہیں آ رہا تھا اسے۔ کان کھا گیا یہ تو، کہاں مر گئی رخسانہ پھر کتابوں میں سر کھپائے بیٹھی ہے، کسی کونے میں، ایک تو اس لڑکی کو چین نہیں آتا۔‘‘ ’’کیا ہوا پھوپھو جان؟‘‘ رخسانہ
بچو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، انھیں اپنے ملک ہندوستان سے بےپناہ محبت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسروؒ گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہرولی پہنچتے ہی انھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی
حسن اور روہن کی دوستی گاؤں بھر میں مشہور تھی۔ بچپن کے دوست تھے، جوانی میں بھی دوستی قائم تھی۔ دونوں کے مزاج میں اتنی ہم آہنگی تھی کہ ایک چیز ایک کو پسند آتی تو دوسرا بھی اسے پسند کرنے لگتا۔ کسی بات سے ایک ناراض ہوتا تو دوسرا بھی اس طرف سے رخ پھیر
راجستھان کے مہاراج پور میں ایک تاجر تھا رامنا وہ اونٹوں پر سامان لاد کر دوسرے شہروں میں لے جاتا، وہاں فروخت کرتا۔ اچھا خاصا منافع حاصل ہوتا۔ رامنا کئی برسوں سے تجارت کر رہا تھا۔ سفر اکثر ہی رات کو کیا جاتا۔ اونٹ سدھے ہوئے تھے۔ تمام رات چل کر وہ دوسرے
ایک دن حضرت عیسیٰ کہیں جا رہے تھے۔ ساتھ ایک اور آدمی بھی ہو لیا۔ آپ نے ایک رومال میں تین روٹیاں باندھ کر اس کے حوالے کیں کہ انہیں سنبھال رکھو جہاں بھوک لگے گی مل کر کھا لیں گے۔‘‘ ساتھی کو بھوک لگی تو اس نے موقع پا کر چپکے سے ایک روٹی نکال کر کھا لی
ایک دیہاتی اپنی لاٹھی میں ایک گٹھری باندھے ہوئے گانے گاتا سنسان سڑک پر چلا جارہا تھا۔ سڑک کے کنارے دور دور تک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کئی جانوروں کے بولنے کی آوازیں سڑک تک آ رہی تھیں۔ تھوڑی دور چل کر دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بڑا سا لوہے کا پنجرہ سڑک
آخر جوجو نے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا بیڑا اٹھایا۔ برکت فلور مل چوہوں کی ایک قدیم اور وسیع ریاست تھی۔ گندم کی بوریوں کے ساتھ سوکھی روٹیوں کی بوریاں بھی موجود ہوتی تھیں تاکہ دونوں کو ملا کر آٹا تیار کیا جا سکے اور یوں حاجی برکت علی کی آمدنی
میں اسکول سے چھٹی لے کر اپنے ماما کی شادی میں گاؤں گیا تھا۔ ایک ہفتہ اسکول سے غائب رہنے کے بعد اسکول آیا تو مجھے کلاس میں کچھ کمی سی محسوس ہوئی۔ دراصل میرے سامنے بیٹھنے والا شہزاد اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھا۔ درمیانی چھٹی میں میں نے اپنے دوست کیلاش سے
ایک مکھی بیٹھی اپنا گھر لیپ رہی تھی۔ گھر لیپتے لیپتے اپنا نام بھول گئیں۔ گھر لیپتے لیپتے لیپتے جو انہیں اپنے نام کا خیال آیا۔ تو گئیں ہمسائی کے ہاں۔ ہمسائی سے جاکر کہا۔ بی ہمسائی بی ہمسائی میرا نام بتاؤ۔ اس نے کہا۔ بوا میں نہیں جانتی۔ میرے گھر میں جو
میرے بچے کی پانچویں سالگرہ تھی۔ ماں نے اسے نئے کپڑے پہنائے۔ دوستوں نے تحفے پیش کیے۔ دوسرے گھروں سے اور بھی بچے آئے تھے۔ میرا بچہ دن بھر ان سے کھیلتا رہا۔ آم کھا کر اپنے کپڑے میلا کرتا رہا۔ جامن اور چیکو کے درختوں پر چڑھنے کی کوشش کرتا رہا اور جب اس
ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن بھی اس کے لیے کتنا منحوس تھا۔ اسے دن بھر بھوکا ہی رہنا پڑا۔ وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ
گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔ بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘ چوہا اس بات پر چڑ گیا۔
شفیق میاں آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ انہیں بچوں کے رسالے پڑھنے کا شوق تھا، اس لیے ہر ہفتے اسکول کی لائبریری سے کوئی رسالہ لے آتے۔ جب وہ اسکول کی کتابیں پڑھتے اور ان میں دی ہوئی مشقیں حل کرتے کرتے تھک جاتے تو دماغ تازہ کرنے کے لیے رسالوں سے دل بہلاتے۔ اسکول
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں میاں بیوی رہتے تھے جو بہت ہی بوڑھے تھے۔ ان کا مکان دیہات سے ذرا الگ تھلگ تھا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ دودھ کے لیے ایک گائے رکھی ہوئی تھی۔ ضرورت کے مطابق اناج اور سبزی اگا لیتے تھے اور اپنے
ابا جان بھی بچوں کی طرح کہانیاں سن کر ہنس رہے تھے کہ کس طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ نہ رہ سکے بول ہی اٹھے، ’’بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے کہو تو سناؤں؟‘‘ ’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا
ایک تھا طوطا اور ایک تھی مینا۔ طوطے کا گھر تو تھا نون کا اور مینا کا گھر تھا موم کا۔ ایک دن جو پڑی دھوپ۔ ایسی دھوپ پڑی۔ ایسی دھوپ پڑی۔ کہ مینا کا گھر جو تھا سو پگھل گیا۔ وہ گئیں طوطے کے پاس۔ کہ اے بھئی طوطے آج ایسی دھوپ پڑی۔ کہ میرا گھر پگھل گیا۔ اگر
ننھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لئے چائے بنا رہی تھی۔ کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہے۔ لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچوں کو گود میں لئے کھڑی ہے۔ اس عورت
شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی۔ جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اسی دوران اس کے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے۔ بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار
ہمارے چچاجان اچھا کھاتے ہیں، اچھا پہنتے ہیں۔ یوں دیکھنے میں انہیں کوئی پریشانی یا کسی قسم کی تکلیف نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ رنجیدہ اور پریشان رہتے ہیں۔ ہم نے تو کبھی انہیں خوش نہیں دیکھا۔ جب دیکھو ان کامنہ پھولا ہوا ہے۔ بھویں تنی ہوئی ہیں۔ چچا
ننھے بھائی ہمیں کتنی بار ہی بےوقوف بناتے، مگر ہم کو آخر میں کچھ ایسا قائل کر دیا کرتے تھے کہ ان پر سے اعتبار نہ اٹھتا۔ مگر ایک واقعے نے تو ہماری بالکل ہی کمر توڑ دی۔ نہ جانے کیوں بیٹھے بٹھائے جو آفت آئی تو پوچھ بیٹھے، ’’ننھے بھائی! یہ ریشم کیسے بنتا
کسی دور دراز کے ملک میں ایک بادشاہ رہا کر تا تھا جس کے تین بیٹے تھے تینوں بہت ذہیں اور تمام عمل و فن میں یکتا تھے۔ تیر اندازی ہو یا تلوار چلانے کے جوہر ،جنگ کے تمام باریکیوں سے واقف تھے۔ شہزادے جوان ہو چکے تھے بادشاہ کی خواہش تھی کہ انکی شادی کر دی
گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا اور اس کی بیوی۔ کسان کا نام تھا منسا اور اس کی بیوی کا گریا۔ ان کے پاس روپیہ پیسہ اچھا خاصا تھا مگر گھر میں کام کرنے والے آدمی کم تھے۔ اس لئے ہمیشہ دوسروں سے یا تو مزدوری پر کام لینا پڑتا تھا یا میٹھی بات کر کے بیساکھ کا مہینہ
پیرس میں ابراہیم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایماندار اور سخی۔ اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔ اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سے سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے
ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔ وہ آدمی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور لگا چیخنے، ’’اے پیاری پریوں، آؤ اور میری مدد کرو۔ میں اکیلا ہوں گاڑی کو کیچڑ سے نکال نہیں سکتا۔‘‘ یہ سن کر ایک پری آئی اور
اسکول میں چھٹیاں ہوتیں تو فرحان کبھی کبھی نانا کے یہاں آجاتے تھے۔ نانا گاؤں میں رہتے تھے۔ فرحان کو وہاں بہت مزہ آتا تھا۔ بڑا سا کھلا کھلا سرخ ٹائلوں والا گھر تھا۔ گھر کے پیچھے کافی وسیع باغ۔ سامنے بھی پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ پھول آنکھوں کو کیسے بھلے
شرارت اور حماقت میں سے کون بازی لے گیا۔ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ معلوم نہیں کہ بچپن کا دور ایسا ہی سہانا، حسین، دلفریب اور سنہرا ہوتا ہے یا وقت کی دبیز چادر کے جھروکے سے ایسا لگتا ہے۔ اب میرے سامنے میرے خاندان کی تیسری نسل کے شگوفے پروان چڑھ رہے
You have exhausted 5 free content pages per year. Register and enjoy UNLIMITED access to the whole universe of Urdu Poetry, Rare Books, Language Learning, Sufi Mysticism, and more.
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books