عید پر اشعار

عید ایک تہوار ہے اس

موقعے پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں لیکن عاشق کیلئے خوشی کا یہ موقع بھی ایک دوسری ہی صورت میں وارد ہوتا ہے ۔ محبوب کے ہجر میں اس کیلئے یہ خوشی اور زیادہ دکھ بھری ہوجاتی ہے ۔ کبھی وہ عید کا چاند دیکھ کر اس میں محبوب کے چہرے کی تلاش کرتا ہے اور کبھی سب کو خوش دیکھ کر محبوب سے فراق کی بد نصیبی پر روتا ہے ۔ عید پر کہی جانے والی شاعری میں اور بھی کئی دلچسپ پہلو ہیں ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب پڑھئے ۔

عید کا چاند تم نے دیکھ لیا

چاند کی عید ہو گئی ہوگی

ادریس آزاد

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم

رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

قمر بدایونی

تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی

عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی

ظفر اقبال

عید آئی تم نہ آئے کیا مزا ہے عید کا

عید ہی تو نام ہے اک دوسرے کی دید کا

نامعلوم

ہم نے تجھے دیکھا نہیں کیا عید منائیں

جس نے تجھے دیکھا ہو اسے عید مبارک

لیاقت علی عاصم

مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی

اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں

نامعلوم

فلک پہ چاند ستارے نکلتے ہیں ہر شب

ستم یہی ہے نکلتا نہیں ہمارا چاند

پنڈت جواہر ناتھ ساقی

دیکھا ہلال عید تو آیا تیرا خیال

وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے

نامعلوم

جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں

عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی

امجد اسلام امجد

کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی

ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی

غلام بھیک نیرنگ

اے ہوا تو ہی اسے عید مبارک کہیو

اور کہیو کہ کوئی یاد کیا کرتا ہے

تری پراری

اس سے ملنا تو اسے عید مبارک کہنا

یہ بھی کہنا کہ مری عید مبارک کر دے

دلاور علی آزر

جو لوگ گزرتے ہیں مسلسل رہ دل سے

دن عید کا ان کو ہو مبارک تہ دل سے

عبید اعظم اعظمی

عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ

اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے

اسلم کولسری

ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز

شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی

جلیل نظامی

عید اب کے بھی گئی یوں ہی کسی نے نہ کہا

کہ ترے یار کو ہم تجھ سے ملا دیتے ہیں

مصحفی غلام ہمدانی

عید کے بعد وہ ملنے کے لیے آئے ہیں

عید کا چاند نظر آنے لگا عید کے بعد

نامعلوم

اس مہرباں نظر کی عنایت کا شکریہ

تحفہ دیا ہے عید پہ ہم کو جدائی کا

نامعلوم

وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو

ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو

مصحفی غلام ہمدانی

ہے عید کا دن آج تو لگ جاؤ گلے سے

جاتے ہو کہاں جان مری آ کے مقابل

مصحفی غلام ہمدانی

شہر خالی ہے کسے عید مبارک کہیے

چل دیے چھوڑ کے مکہ بھی مدینہ والے

اختر عثمان

آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے

راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے

آبرو شاہ مبارک

عید کا دن تو ہے مگر جعفرؔ

میں اکیلے تو ہنس نہیں سکتا

جعفر ساہنی

عید تو آ کے مرے جی کو جلاوے افسوس

جس کے آنے کی خوشی ہو وہ نہ آوے افسوس

مصحفی غلام ہمدانی

حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں

عید ہے اور ہم کو عید نہیں

بیخود بدایونی

تو آئے تو مجھ کو بھی

عید کا چاند دکھائی دے

ہربنس سنگھ تصور

مہک اٹھی ہے فضا پیرہن کی خوشبو سے

چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے

محمد اسد اللہ

آئی عید و دل میں نہیں کچھ ہوائے عید

اے کاش میرے پاس تو آتا بجائے عید

شیخ ظہور الدین حاتم

ابرو کا اشارہ کیا تم نے تو ہوئی عید

اے جان یہی ہے مہ شوال ہمارا

حاتم علی مہر

عید کا دن ہے گلے مل لیجے

اختلافات ہٹا کر رکھیے

عبد السلام بنگلوری

عید کا چاند جو دیکھا تو تمنا لپٹی

ان سے تقریب ملاقات کا رشتہ نکلا

رحمت قرنی

کسی کی یاد منانے میں عید گزرے گی

سو شہر دل میں بہت دور تک اداسی ہے

اسحاق وردگ

عید کو بھی وہ نہیں ملتے ہیں مجھ سے نہ ملیں

اک برس دن کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی

شعلہؔ علی گڑھ

عید میں عید ہوئی عیش کا ساماں دیکھا

دیکھ کر چاند جو منہ آپ کا اے جاں دیکھا

شاد عظیم آبادی

ہے عید میکدے کو چلو دیکھتا ہے کون

شہد و شکر پہ ٹوٹ پڑے روزہ دار آج

سید یوسف علی خاں ناظم

وہاں عید کیا وہاں دید کیا

جہاں چاند رات نہ آئی ہو

شارق کیفی

جہاں نہ اپنے عزیزوں کی دید ہوتی ہے

زمین ہجر پہ بھی کوئی عید ہوتی ہے

عین تابش

کئی فاقوں میں عید آئی ہے

آج تو ہو تو جان ہم آغوش

تاباں عبد الحی

اگر حیات ہے دیکھیں گے ایک دن دیدار

کہ ماہ عید بھی آخر ہے ان مہینوں میں

مرزارضا برق ؔ

عشق مژگاں میں ہزاروں نے گلے کٹوائے

عید قرباں میں جو وہ لے کے چھری بیٹھ گیا

شاد لکھنوی

بادباں ناز سے لہرا کے چلی باد مراد

کارواں عید منا قافلہ سالار آیا

جوش ملیح آبادی

خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں

ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش

میر محمدی بیدار

رہنا پل پل دھیان میں

ملنا عید کے عید میں

حسن شاہنواز زیدی

کچھ دیر اس نے دیکھ لیا چاند کی طرف

کچھ دیر آج چاند کو اترانا چاہئے

عقیل نعمانی

میری تو پور پور میں خوشبو سی بس گئی

اس پر ترا خیال ہے اور چاند رات ہے

وصی شاہ

شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں

چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں

گلزار

چھپ گیا عید کا چاند نکل کر دیر ہوئی پر جانے کیوں

نظریں اب تک ٹکی ہوئی ہیں مسجد کے میناروں پر

شاعر جمالی

چھیڑا ہے ایک نغمۂ شیریں بھی کو بہ کو

دل نے ہلال عید کی تائید کے لئے

افروز رضوی

مہ جبیں عید میں انگشت نما کیوں نہ رہیں

عید کا چاند ہی انگشت نما ہوتا ہے

صفی اورنگ آبادی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے