آمنہ
یہ افسانہ دولت کی ہوس میں رشتوں کی ناقدری اور انسانیت سے عاری حرکات کر گزرنے والے افراد کے انجام کو پیش کرتا ہے۔ دولت کی حریص سوتیلی ماں کے ستائے ہوئے چندو اور بندو کو جب قسمت نوازتی ہے تو وہ دونوں بھی اپنے مشکل دن بھول کر رشتوں کے تقدس کو مجروح کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ چندو اپنے بھائی بندو کے بہکاوے میں آکر اپنی بیوی اور بچے کو صرف دولت کی ہوس میں چھوڑ دیتا ہے۔ جب دولت ختم ہو جاتی ہے اور نشہ اترتا ہے تو وہ اپنی بیوی کے پاس واپس جاتا ہے۔ اس کا بیٹا اسے اسی دریا کے پاس لے جاتا ہے جہاں چندو کی سوتیلی ماں نے ڈوبنے کے لیے ان دونوں بھائیوں کو چھوڑا تھا اور بتاتا ہے کہ یہاں پر ہے میری ماں۔۔۔
سعادت حسن منٹو
چوری
یہ ایک ایسےبوڑھے بابا کی کہانی ہے جو الاؤ کے گرد بیٹھ کر بچوں کو اپنی زندگی سے وابستہ کہانی سناتا ہے۔ کہانی اس وقت کی ہے جب اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا اور اس شوق کو پورا کرنےکے لیے اس نے کتابوں کی ایک دکان سے اپنی پسند کی ایک کتاب چرا لی تھی۔ اس چوری نے اس کی زندگی کو کچھ اس طرح بدلا کہ وہ ساری عمر کے لیے چور بن گیا۔
سعادت حسن منٹو
وقفہ
ماضی کی یادوں کے سہارے بے رنگ زندگی میں تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانہ کا واحد متکلم اپنے مرحوم باپ کے ساتھ گزارے ہوے وقت کو یاد کر کے اپنی شکستہ زندگی کو آگے بڑھانے کی جد و جہد کر رہا ہے جس طرح اس کا باپ اپنی عمارت سازی کے ہنر سے پرانی اور اجاڑ عمارتوں کی مرمت کر کے قابل قبول بنا دیتا تھا۔ نیر مسعود کے دوسرے افسانوں کی طرح اس میں بھی خاندانی نشان اور ایسی مخصوص چیزوں کا ذکر ہے جو کسی کی شناخت برقرار رکھتی ہیں۔
نیر مسعود
وقار محل کا سایہ
وقار محل کے معرفت ایک گھر اور اس میں رہنے والے لوگوں کے ٹوٹتے بنتے رشتوں کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ وقار محل کالونی کے وسط میں واقع ہے۔ ہر کالونی والا اس سے نفرت بھی کرتا ہے اور ایک طرح سے اس پر فخر بھی۔ مگر وقار محل کو پچھلے کئی سالوں سے گرایا جا رہا ہے اور وہ اب بھی ویسے کا ویسا کھڑا ہے۔ مزدور دن رات کام میں لگے ٹھک ٹھک کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ٹھک ٹھک کی اس آواز سے ماڈرن خیال کی ماڈرن لڑکی زفی کے بدن میں سہرن سی ہونے لگتی ہے۔ اور یہی سہرن اسے کئی لوگوں کے پاس لے جاتی ہے اور ان سے دور بھی کرتی ہے۔