بچوں کے لئے نظمیں پر دوہے
فن کارکی سب سے بڑی قوت
اس کا تخیل ہوتا ہے ۔ وہ اسی کے سہارے نئے جہانوں کی سیرکرتا ہے اورگزرے ہوئے وقت کی کیفیتوں کو پوری شدت کے ساتھ تخلیقی بساط پر پھیلاتا ہے ۔ بچپن ، اس کےجذبات واحساسات اوراس کی معصومیت کا جوایک سچا اظہار شاعری میں نظرآتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ ہم بچپن اوراس کی کیفیتوں کومحسوس کرسکتے ہیں لیکن زبان نہیں دے سکتے ، بچپن کو موضوع بنانے والی یہ شاعری ہمارے اسی عجز کا بدل ہے۔
خدمت سے استاد کی رہتا ہے جو دور
چہرے پر اس کے نہیں اچھائی کا نور
کیا ناداں سے دوستی کیا دانا سے بیر
دونوں ایسے کام ہیں جن میں نہیں ہے خیر
امی ہوں گی منتظر اور کہیں مت جاؤ
چھوٹو جب اسکول سے سیدھے گھر کو آؤ
دشمن بھی حیران ہے کر کے لاکھ بگاڑ
تیری مرضی کے بنا ہلتا نہیں پہاڑ
گالی دینا پاپ ہے ٹھیک نہیں توہین
اوروں کو کر کے دکھی خود ہو گے غمگین
ذات پات اور دھرم کی ٹھیک نہیں تکرار
بھول گئے کیوں آج ہم صدیوں کا وہ پیار
جو راہ کی اچھی ہے ادھر جاتا ہے
بچ کر وہ برائی سے گزر جاتا ہے
پڑھ کر ہی تو آتا ہے سلیقہ بچو
تعلیم سے انسان سدھر جاتا ہے
بن کر آئے آخری جگ میں آپ رسول
پیش کیے ہیں آپ نے اچھے نیک اصول
سائل کو دھتکارنا بات نہیں ہے ٹھیک
در پر آئے جب گدا دے دینا کچھ بھیک
منجن یا مسواک سے رکھوگے گر صاف
دانت چمکتے پاؤ گے موتی سے شفاف