آنندی
سماج میں جس چیز کی مانگ ہوتی ہے وہی بکتی ہے۔ بلدیہ کے شریف لوگ شہر کو برائیوں اور بدنامیوں سے بچانے کے لیےشہر سے بازار حسن کو ہٹانے کی مہم چلاتے ہیں۔ وہ اس مہم میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور اس بازار کو شہر سے چھ میل دور ایک ویران جگہ پر آباد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اب بازارو عورتوں کے وہاں آباد ہو جانے سے وہ ویرانہ گلزار ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ ویرانہ پہلے گاوں، پھر قصبہ اور پھر شہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی شہر آگے چل کر آنندی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
غلام عباس
اب اور کہنے کی ضرورت نہیں
مناسب اجرت لیکر دوسروں کی جگہ جیل کی سزا کاٹنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی جو لوگوں سے پیسے لے کر ان کے کئے جرم کو اپنے سر لے لیتا ہے اور جیل کی سزا کاٹتا ہے۔ ان دنوں جب وہ جیل کی سزا کاٹ کر آیا تھا تو کچھ ہی دنوں بعد اس کی ماں کی موت ہو گئی تھی۔ اس وقت اس کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کر سکے۔ تبھی اسے ایک سیٹھ کا بلاوا آتا ہے، پر وہ جیل جانے سے پہلے اپنی ماں کو تجہیز و تکفین کرنا چاہتا ہے۔ سیٹھ اس کے لیے اسے منع کرتا ہے۔ جب وہ سیٹھ سے بات طے کرکے اپنے گھر لوٹتا ہے تو سیٹھ کی بیٹی اس کے آنے سے قبل اس کی ماں کے کفن دفن کا انتظام کر چکی ہوتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
قرض کی پیتے تھے۔۔۔
مرزا غالب کی مے خواری اور قرض کی عدم ادائیگی کی باعث معاملہ عدالت میں پہنچ جاتا ہے۔ وہاں مفتی صدر الدین آزردہ کرسی عدالت پر براجمان ہوتے ہیں۔ مرزا غالب کی غلطی ثابت ہو جانے کے بعد مفتی صدر الدین جرمانہ کی سزا بھی دیتے ہیں اور اپنی جیب خاص سے جرمانہ ادا بھی کر دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
دیکھ کبیرا رویا
کبیر کو علامت بنا کر یہ کہانی ہمارے معاشرے کی اس حقیقت کو بیان کرتی ہے جس کے بنا پر لوگ ہر اصلاح پسند کو کمیونسٹ، آمریت پسند قرار دے دیتے ہیں۔ سماج میں ہو رہی برائیوں کو دیکھ کر کبیر روتا ہے اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکتا ہے۔ لیکن سب جگہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں اور مار کر بھگا دیتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
خلائی دور کی محبت
مستقبل میں خلا میں آباد ہونے والی دنیا کا نقشہ اس کہانی کا موضوع ہے۔ ایک لڑکی برسوں سے خلائی اسٹیشنوں پر رہ رہی ہے۔۔۔ وہ مسلسل سیاروں اور مصنوعی سیاروں کے سفر کرتی رہتی ہے اور اپنے کام کو آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ انھیں مصروفیات کی وجہ سے اسے اتنا بھی وقت نہیں ملتا کہ وہ زمین پر رہنے والے اپنے افراد خانہ سے کچھ لمحے کے لیے بات کر سکے۔ انہیں اسفار میں اسے ایک شخص سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس شخص سے ایک بار ملنے کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے اسے بیس سال کا طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس درمیان وہ اپنے کام کو آگے بڑھاتی رہتی ہے، کہ آنے والی نسل کے لیے محبت کرنا آسان ہو سکے۔
اختر جمال
ماتمی جلسہ
’’ترکی کے مصطفی کمال پاشا کی موت کے سوگ میں بمبئی کے مزدوروں کی ہڑتال کے اعلان کے گرد گھومتی کہانی ہے۔ ہندوستان میں جب پاشا کے مرنے کی خبر پہنچی تو مزدوروں نے ایک دوسرے کے ذریعہ سنی سنائی باتوں میں آکر شہر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ ہڑتال بھی ایسی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر بند ہو گیا۔ شام کو جب مزدوروں کی یہ بھیڑ جلسہ گاہ پرپہنچی تو وہاں تقریر کے دوران اسٹیج پر کھڑے ایک شخص نے کچھ ایسا کہہ دیا کہ اس ہڑتال نے فساد کی شکل اختیار کر لی۔‘‘
سعادت حسن منٹو
مجید کا ماضی
’’عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے ماضی کو یاد کرنے والے ایک ایسے دولت مند شخص کی کہانی ہے جس کے پاس کوٹھی ہے، اچھی تنخواہ ہے، بیوی بچے ہیں اور ہر طرح کی عیش و عشرت ہے۔ ان سب کے درمیان اس کا سکون نہ جانے کہاں کھو گیا ہے۔ وہ سکون جو اسے یہ سب حاصل ہونے سے پہلے تھا، جب اس کی تنخواہ کم تھی، بیوی بچے نہیں تھے، کاروبار تھا اور نہ ہی دوسرے مسایل۔ وہ سکون سے تھوڑا کماتا تھا اور چین و سکون کی زندگی بسر کرتا تھا۔ اب سارے عیش و آرام کے بعد بھی اسے وہ سکون نصیب نہیں ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
پیتل کا گھنٹہ
کسی زمانے میں قاضی امام حسین اودھ کے تعلقدار تھے۔ علاقے میں ان کا دبدبہ تھا۔ کہانی کے ہیرو کی شادی کے وقت قاضی صاحب نے اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ ایک عرصہ بعد ایک سفر کے دوران ان کے گاؤں کے پاس اس کی بس خراب ہو گئی تو وہ قاضی صاحب کے یہاں چلا گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ قاضی صاحب کا تو حلیہ ہی بدل گیا ہے، کہاں وہ عیش و عشرت اور اب قاضی صاحب پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ لیکن اپنی آن بان کا بھرم رکھنے اور مہمان کی تواضع کے لیے اپنا مہر لگا پیتل کا گھنٹہ بیچ دینا پڑتا ہے۔
قاضی عبد الستار
شادی
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کی تربیت مغربی تہذیب میں ہوئی ہے۔ اس نے مغربی ادب کا مطالعہ کیا ہے اور وہاں کے سماج میں پوری طرح رچ بس گیا ہے۔ اپنے ملک لوٹنے پر والدین اس کی شادی کے لیے کہتے ہیں مگر وہ بغیر ملے، دیکھے کسی ایسی لڑکی سے شادی کے لیے راضی نہیں ہوتا جسے وہ جانتا تک نہیں۔ گھر والوں کے اصرار پر وہ شادی کے لیے راضی ہو جاتا ہے۔ شادی ہونے کے بعد وہ ایک اجنبی لڑکی جو اب اس کی بیوی ہے کے پاس جانے سے کتراتا ہے۔ ایک رات تنہا لیٹے ہوئے اسے کسی ناول کے کچھ حصے یاد آتے ہیں اور وہ اپنی بیوی کی چاہت میں تڑپ اٹھتا ہے اور اس کے پاس چلا جاتا ہے۔
احمد علی
فاصلے
ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں تنہا رہتے ہوئے بور ہو گیا ہے اور سکون کی تلاش میں ہے۔ ایک دن وہ گھر سے باہر نکلا تو گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر اور سامان بیچتے دوکاندار سے بات کرنا اسے اچھا لگا۔ اس طرح وہ وہاں روز آنے لگا اور اپنا وقت گزارنے لگا۔ ایک دن انگلینڈ سے واپس آیا بیٹا اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ کافی وقت کے بعد جب وہ واپس آتا ہے اور پھر سے اپنی گلی میں نکلتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے لیے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آگئی ہے، شاید وہ ان کے لیے ایک اجنبی بن چکا تھا۔
مرزا ادیب
بھکارن
’’ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو بچپن میں بھیک مانگ کر گزارہ کیا کرتی تھی۔ بھیک مانگتے ہوئے ایک بار اسے ایک لڑکا ملا اور وہ لڑکا اسے اپنے گھر لے گیا۔ وہاں اس لڑکے کے باپ نے کہا کہ اگر یہ لڑکی کسی شریف خاندان کی ہوتی تو بھیک مانگ کر گزارہ کیوں کرتی۔ ان کی یہ بات اس لڑکی کے دل کو اتنی لگی کہ وہ پڑھ لکھ کر شہر کی مشہور لیڈی ڈاکٹر بن گئی۔‘‘