Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ریختہ کی کہانی

لفظ ریختہ، ایک اصطلاح اوراسم  زبان کے طور پر پچھلی کئی صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔ ریختہ کے لغوی معنی "بکھرے ہوئے اور مخلوط کے ہیں"، جو اس زبان کے مزاج کو ظاہر کرتے ہیں۔ لسانیات کے علاوہ، موسیقی میں بھی لفظ  ریختہ اہم ہے۔ نصف سترہویں صدی میں معروف صوفی علاء الدین برنوی نے اپنی تصنیف چشتیہ بہشتیہ میں ریختہ کی تعریف موسیقی کی ایک صنف کے طور پر کی ہے جس میں فارسی اور ہندی کے مصرعے ساتھ گاۓ جاتے ہیں۔ تقریباً ایسی ہی روایت شاعری میں بھی موجود تھی، جو آگے چل کر اردو شاعری کے طور پر خوب پھلی پھولی۔

 

آج ہم جس زبان کو اردو کے نام سے پہچانتے ہیں، وہ پچھلے وقتوں میں مختلف ناموں سےجانی جاتی رہی ہے،  جن میں ہندوی، ہندی، دہلوی، گجری، دکنی اور ریختہ شامل ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریختہ نے عربی فارسی الفاظ کے ساتھ کھڑی بولی اور برج بھاشا کے امتزاج سے تیار ہو کر ایک ادبی زبان کے طور پر اپنی پہچان قائم کی ہے۔ اس کے ارتقائی سفر پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ریختہ نے مختلف زبانوں سے لسانی اور ثقافتی اثرات قبول کئے ہیں۔ اسے لکھنے کے لئے  شاعر، صوفی، ہندو سنت اور سکھ سنت  فارسی کے ساتھ ساتھ ناگری، گر مکھی، اور کیتھی رسم الخط کا استعمال کرتے رہے ہیں۔

 

تیرہویں صدی میں، مشہور شاعر امیر خسرو نے فارسی اور ہندوی کے انتہائی تخلیقی امتزاج کے ساتھ ایک غزل کہی، جس کےاشعار میں ایک مصرع فارسی اور ایک مصرع ہندوی کا ہے۔ اردو کی پہلی غزل کے طور پر اسی غزل کا حوالہ دیا جاتا ہے:

 

زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

 

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

 

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

 

چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر

نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں

 

بحق روز وصال دلبر کہ داد مارا غریب خسروؔ

سپیت من کے ورائے رکھوں جو جا کے پاؤں پیا کی کھتیاں

 

پندرہویں اور سولہویں صدی میں ریختہ ابھی ایک نئی زبان تھی اور صوفی تصانیف میں اس کے تخلیقی استعمال کے کئی نمونے ملتے ہیں۔ سترہویں صدی میں ولی نے اپنی شاعری سے ہر سخن سنج کو حیران کر دیا۔ ولی کی غزل میں فارسی غزل کی روایت کے ساتھ ساتھ ہندوی روایت کے بھی عناصر موجو تھے۔ ولی کی شاعری بے حد مقبول ہوئی اور اس نے دہلی کے شعرا کو بہت متاثر کیا اور دہلی میں بھی ریختہ گوئی کا رواج قائم ہوا۔اس زمانے میں ان شاعروں کے ساتھ ساتھ نرگن سنت،کرشن بھکت، گرو نانک کی ساکھیوں کے مصنفین نے بھی ریختہ کو اپنے ادبی اظہار کی زبان کے طور پر قبول کیا۔

 

اٹھارہویں صدی میں میر تقی میر نے ریختہ کو اپنی شاعری کے ذریعہ  استحکام اور توانائی بخشی۔ میر نے لفظ ریختہ کو شاعری کے معنی میں بھی خوب برتا ہے۔ میر صاحب نے  ہندوی اور فارسی کے امتزاج سے بننے والی چھ اقسام کا ذکر کیا ہے۔

 

دل کس طرح نہ کھینچیں اشعار ریختے  کے

بہتر کیا ہے میں نے اس عیب کو ہنر سے

 

میر کے ہم عصر قائم چاند پوری نے بھی ریختہ کو فخر کے ساتھ اپنے  ادبی اظہار کی زبان کے طور پر چنا ہے:

 

قائمؔ میں ریختہ کو دیا خلعت قبول

ورنہ یہ پیش اہل ہنر کیا کمال تھا

 

قائمؔ میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ

اک بات لچر سی بہ زبان دکنی تھی

 

نظیر اکبرآبادی نے بھی اس زبان کو اپنایا:

 

یار کے آگے پڑھا یہ ریختہ جا کر نظیرؔ

سن کے بولا واہ واہ اچھا کہا اچھا کہا

 

مصحفی غلام ہمدانی نے کہا ہے:

 

تھا جو شعر راست سروبوستان ریختہ

اب وہی ہے لالۂ زرد خزان ریختہ

 

کیا ریختہ کم ہے مصحفی کا

بو آتی ہے اس میں فارسی کی

 

یہاں تک کہ اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا غالب نے میر کی استادی کا اعتراف کیا ہے۔

 

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

 

اس کے علاوہ غالب نے ریختہ کے بارے میں کہا ہے:

 

طرز بیدل میں ریختہ کہنا

اسداللہ خاں قیامت ہے

 

جو یہ کہے کہ ریختہ کیونکے ہو رشک فارسی

گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوں

 

ریختہ مغل دربار میں پروان چڑھی، جہاں اسے پہلے زبان اردو معلی شاہجہان آباد کہا جاتا تھا۔ بعد میں، اس نام میں تخفیف ہوئی اور اسے زبان اردومعلی  کہا جانے لگا۔ دھیرے دھیرے اسے زبان اردو، اور آخر کار صرف اردو کہا جانے لگا، اور آج تک یہی نام رائج ہے۔ ریختہ، جو کہ فارسی اور ہندوی کے امتزاج سے نکلی تھی، اب اردو کی شکل میں ایک طاقت ور زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے ، اور اس کی پہچان ایک ایسی زبان کے طور پر قائم ہوئی ہے جو شاعرانہ قوتوں سے مالامال ہے اور بے حد خوش صوت ہے۔

 

ریختہ کا اکیسویں صدی کا روپ اردو ہی کہلاتا ہے، جو ہمارے مشترکہ کلچر کی پیدا وار ہے۔ آج ریختہ (اردو) ہندوستان، پاکستان اور اور جہاں بھی اردو بولی جاتی ہے، کے لئے  ہم آہنگی اور اتحاد کی سیکولر زبان ہے۔

Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

Register for free
بولیے