- کتاب فہرست 181967
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1878
طب797 تحریکات284 ناول4145 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1409
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح175
- گیت87
- غزل954
- ہائیکو12
- حمد36
- مزاحیہ37
- انتخاب1509
- کہہ مکرنی6
- کلیات643
- ماہیہ18
- مجموعہ4563
- مرثیہ363
- مثنوی780
- مسدس53
- نعت503
- نظم1133
- دیگر65
- پہیلی17
- قصیدہ176
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
غلام عباس کے افسانے
آنندی
سماج میں جس چیز کی مانگ ہوتی ہے وہی بکتی ہے۔ بلدیہ کے شریف لوگ شہر کو برائیوں اور بدنامیوں سے بچانے کے لیےشہر سے بازار حسن کو ہٹانے کی مہم چلاتے ہیں۔ وہ اس مہم میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور اس بازار کو شہر سے چھ میل دور ایک ویران جگہ پر آباد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اب بازارو عورتوں کے وہاں آباد ہو جانے سے وہ ویرانہ گلزار ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ ویرانہ پہلے گاوں، پھر قصبہ اور پھر شہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی شہر آگے چل کر آنندی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اوور کوٹ
ایک خوبرو نوجوان سردیوں میں مال روڈ کی سڑکوں پر ٹہل رہاہے۔ جس قدر وہ خوبصورت ہے اتنا ہی اس کا اورکوٹ بھی اورکوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ سڑکوں پر ٹہل رہا ہے اور ایک کے بعد دوسری دکانوں پر جاتا ہے۔ اچانک ایک لاری اسے ٹکر مار کر چلی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے اسپتال لے جاتے ہیں۔ اسپتال میں علاج کے دوران جب نرسیں اس کے کپڑے اتارتی ہیں تو اورکوٹ کے اندر کے اس نوجوان کا حال دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں۔
کتبہ
شریف حسین ایک کلرک ہے۔ ان دنوں اس کی بیوی میکے گئی ہوتی ہے۔ وہ ایک دن شہر کے بازار جا پہنچتا ہے اور وہاں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک سنگ مرمر کا ٹکڑا خرید لیتا ہے۔ ایک روز وہ سنگ تراش کے پاس جاکر اس سنگ مر مر کے ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا لیتا ہے کہ جب اس کی ترقی ہو جائے گی تو وہ اپنا گھر خریدے گا اور اپنے مکان پر یہ نیم پلیٹ لگائےگا۔ عمر بیت جاتی ہے لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ بالآخر یہ کتبہ اس کا بیٹا اس کی قبر پر لگوا دیتا ہے۔
یہ پری چہرہ لوگ
ہر انسان اپنے مزاج اور کردار سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ سخت مزاج بیگم بلقیس طراب علی ایک دن مالی سے بغیچے کی صفائی کرا رہی تھیں کہ وہ مہترانی اور اس کی بیٹی کی بات چیت سن لیتی ہیں۔ بات چیت میں ماں بیٹی بیگموں کے اصل نام نہ لے کر انھیں مختلف ناموں سے بلاتی ہیں۔ یہ سن کر بلقیس بانو ان دونوں کو اپنے پاس بلاتی ہیں۔ وہ ان ناموں کے اصلی نام پوچھتی ہیں اور جاننا چاہتی ہیں کہ انھوں نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ مہترانی ان کے سامنے تو منع کر دیتی ہے لیکن اس نے بیگم بلقیس کا جو نام رکھا ہوتا ہے،وہ اپنے شوپر کے سامنے لے دیتی ہے۔
بہروپیا
ہر پل شکل بدلتے رہنے والے ایک بہروپیے کی کہانی جس میں اس کی اصل شکل کھو کر رہ گئی ہے۔ وہ ہفتے میں ایک دو بار محلے میں آیا کرتا تھا۔ دیکھنے میں خوبصورت اور ہنسوڑ مزاج کا شخص تھا۔ ایک چھوٹے لڑکے نے ایک دن اسے دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوا اور وہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر اس کا پیچھا کرتا ہوا اس کی اصل شکل جاننے کے لیے نکل پڑا۔
جواری
یہ ایک معلوماتی اور مزاحیہ انداز میں لکھی گئی کہانی ہے۔ جواریوں کا ایک گروہ بیٹھا ہوا تاش کھیل رہا تھا کہ اسی وقت پولیس وہاں چھاپا مار دیتی ہے۔ پولیس کے پکڑے جانے پر ہر جواری اپنی عزت اور کام کو لے کر پریشان ہوتا ہے۔ جواریوں کا سرغنہ نکو انھیں دلاسہ دیتا ہے کہ تھانیدار اس کا جاننے والا ہے اور جلد ہی وہ چھوٹ جائیں گے۔ لیکن جواریوں کو چھوڑنے سے قبل تھانیدار انھیں جو سزا دیتا ہے وہ کافی دلچسپ ہے۔
فینسی ہیرکٹنگ سیلون
تقسیم ملک کے بعد تلاش معاش میں بھٹک رہے چار حجام مل کر ایک دوکان کھولتے ہیں۔ دوکان چل نکلتی ہے۔ حالات کا مارا کسی سیٹھ کا ایک منشی ان کے پاس آتا ہے اور ان سے کام کی درخواست کرتا ہے۔ وہ اسے بھی کام پر رکھ لیتے ہیں۔ شروع میں منشی ان کا کھانا بناتا ہے اور دوکان کی صفائی کرتا ہے، پھر رفتہ رفتہ وہ اپنے منشی پن پر آ جاتا ہے اور ان کے دوکان پر قابض ہو جاتا ہے۔
اس کی بیوی
ایک نوجوان طوائف نسرین کی بانہوں میں پڑا ہوا ہےاور اس سے اپنی مرحوم بیوی کی باتیں کر رہا ہے۔ نسرین کی ہر ناز و انداز میں اسے اپنی بیوی کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کی ہر بات نسرین کو بتاتا ہے۔ شروع میں نسرین اس کی باتیں دلچسپی سے سنتی ہے پھر بعد میں اوبنے لگتی ہے اور ترس کھاکر اسے کسی ماں کی طرح اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہے۔
گوندنی
دوہری زندگی جیتے ایک شخص کی کہانی جو چاہتے ہوئے بھی کھل کر اپنے احساسات کا اظہار نہیں کر پاتا۔ مرزا برجیس کا خاندان کسی زمانے میں بہت امیر تھا لیکن اس وقت اس خاندان کی حالت دیگرگوں ہےَ۔ اس کے باوجود مرزا اسی شان و شوکت اور ٹھاٹ باٹ کے ساتھ رہنے کا ڈھونگ کرتا ہے۔ ایک روز بازار میں خریداری کرتے وقت اس سے کھانے کے لیے پیسے مانگے تو اس نے اسے جھڑک دیا مگر شام کو سینما دیکھتے ہوئے جب اس نے ایک بوڑھیا کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو رو دیا۔
حمام میں
تنہا زندگی گزارتی فرخ بھابھی کی کہانی ہے، جن کے یہاں ہر روز ان کے دوستوں کی محفل جمتی ہے۔ وہ اس محفل کی رونق ہیں اور ان کے دوست ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اس محفل میں ایک دن ایک اجنبی بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ دو تین بار اور آتا ہے اور پھر آنا بند کر دیتا ہے۔ اس کے نہ آنے سے باقی دوست خوش ہوتے، مگر تبھی انھیں احساس ہوتا ہے کہ اب فرخ بھابی گھر سے غائب رہنے لگی ہیں۔
کن رس
جذباتی استحصال کے ذریعہ انتہائی عیاری سے ایک شریف خاندان کو طوائفوں کی راہ پر گامزن کرنے کی کہانی ہے۔ فیاض کو فطری طور پر موسیقی سے لگاؤ تھا لیکن گھریلو حالات اور آلام روزگار نے اس کے اس شوق کو دبا دیا تھا۔ اچانک ایک دن فن موسیقی کا ماہر فقیر اسے راستے میں ملتا ہے۔ اس کے فن سے متاثر ہو کر فیاض اسے گھر لے آتا ہے۔ فیاض اس سے موسیقی کی تعلیم لینے لگتا ہے۔ حیدری خان گھر میں اس قدر گھل مل جاتا ہے کہ جلد ہی وہ استاد سے باپ بن جاتا ہے۔ فیاض کی جوان ہوتی بیٹیوں کو بھی موسیقی کی تعلیم دی جانے لگتی ہے۔ محلے والوں کی شکایت سے مجبور ہو کر مالک مکان فیاض سے مکان خالی کروا لیتا ہے تو حیدری خان فیاض کے کنبہ کو طوائفوں کے علاقہ میں مکان دلوا دیتا ہے۔ سامان شفٹ ہونے تک فیاض اور اس کی بیوی کو اس کی بھنک نہیں لگنے پاتی اور رات میں جب وہ بالکنی میں کھڑے ہو کر آس پاس کے مکانات کی رونق دیکھتے ہیں تو دونوں دم بخود رہ جاتے ہیں۔
سایہ
جدید معاشرے میں انسانی قدروں کو زندہ رکھنے والے ایک مزدور پیشہ انسان کی کہانی۔ سبحان نامی شخص شہر کے مشہور وکیل صاحب کے گھر کے باہر ٹھیلہ لگاتا ہے جو نسبتاً ایک غیرآباد علاقہ میں ہے۔ سبحان کی آمدنی کا سارا دارومدار وکیل صاحب کے کنبہ پر ہی ہے۔ وکیل صاحب بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں اور گھر کے افراد کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ سبحان کے یہاں سے ہی سامان خریدنے کو ترجیح دیں۔ سبحان دھیرے دھیرے وکیل صاحب کے افراد خانہ کے عادات و اطوار اور گھر کی معمولی سے معمولی باتوں سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ اسے وکیل صاحب کے گھر سے یک گونہ انسیت ہو جاتی ہے۔ بڑی صاحبزادی کا جب رشتہ طے ہو جاتا ہے تو سارے گھر میں خوشیاں منائی جاتی ہیں لیکن سبحان اپنے بعض تجربوں اور مشاہدوں سے یہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ صاحبزادی اپنے بھائی کے دوست میں دلچسپی رکھتی ہیں لیکن حرف مدعا زبان پر لانے سے قاصر ہیں۔ ایک دن صاحبزادی کی طبیعت اچانک بہت خراب ہو جاتی ہے تو پوری رات سبحان جاگ کر گزار دیتا ہے۔ رات تین بجے ایک کتا بھونکتا ہے تو وہ گھبرا کر مکان کی طرف بھاگتا ہے کہ شاید کچھ خبر ملے لیکن وہاں بدستور خاموشی تھی۔ سبحان پتھر مار کر کتے کو بھگا دیتا ہے۔
سمجھوتہ
بیوی کے بھاگ جانے کے غم میں مبتلا ایک شخص کی کہانی ہے۔ وہ اپنی بیوی کو بھولنا چاہتا ہے اور اس چکر میں وہ کوٹھوں پر پہنچ جاتا ہے۔ پھر ایک دن اس کی بیوی لوٹ آتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اسے اپنے گھر میں پناہ دیتا ہے مگر وہ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہے۔ ایک روز پھر وہ کوٹھے پر جانے کی سوچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے اکاؤنٹ میں روپیہ ہی نہیں بچا ہے۔ اسے اپنی بیوی کا خیال آتا ہے اور گھر کی طرف لوٹ آتا ہے۔
سرخ گلاب
ذہنی طور پر معذور ایک یتیم لڑکی کی کہانی جو گاؤں کے لوگوں کی خدمت کر کے اپنا پیٹ پالتی ہے۔ گاؤں کے پاس ہی چن شاہ کی مزار تھی جہاں ہر سال عرس لگتا تھا۔ اس سال وہ بھی چن شاہ کے عرس کے میلے میں گئی تھی اور وہاں اسے حمل ٹھہر گیا۔ گاؤں والوں کو اس کے حمل کے بارے میں پتہ چلا تو انھوں نے اسے گاؤں سے باہر نکال دیا۔ اگلے سال وہ اپنے نوزائیدہ بچے کے ساتھ پھر چن شاہ کی مزار پر نمودار ہو گئی۔
ہمسائے
ایک پہاڑی پر دو مکان ہیں۔ در اصل ایک ہی مکان کو درمیان میں دیوار کھڑی کر کے دو مکان بنا دیے گیے ہیں۔ ان مکانوں میں تین بچےرہتے ہیں، ایک میں دو بھائی اکبر اور اس کا چھوٹا بھائی اور دوسرے میں بیری۔ بیری کے لیے اکبر کےدل میں محبت، پہاڑی آب و ہوا اور ان تینوں کی دلچسپ گفتگو کو بنیاد بناکر کہانی بنی گئی ہے۔
سیاہ و سفید
میمونہ بیگم ایک اسکول میں استانی ہے۔ اپنی تنخواہ میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر سو روپے جوڑ لیتی ہے۔ اس روپے سے وہ اپنے لیے کوئی زیور بنوانا چاہتی ہے۔ لیکن تبھی اس کی بہن کا خط آتا ہے اور وہ اسے دلی گھومنے کے لیے بلا لیتی ہے۔ دہلی میں بہن کے ساتھ گھومتے ہوئے وہ ایک نوجوان کو دیکھتی ہے۔ پہلے دن وہ اسے دیکھ کر خوش ہوتی ہے لیکن دوسرے دن اس کی اصلیت جان کر وہ گھبرا جاتی ہے۔ دہلی سے واپس جاتے ہوئے بچائے گیے اپنے سو روپے کا یوں برباد ہو جانا اسے بہت تکلیف دیتا ہے۔
مجسمہ
ایک بادشاہ کی اپنی ملکہ سے بے انتہا محبت کی کہانی ہے۔ باشاہ کی خواہش یہ تھی کہ ملکہ اس سے وارفتگی سے اپنی محبت کا اظہار کرے لیکن ملکہ شاہی آداب کی پابندی کرتی تھی۔ جس کی وجہ سے بادشاہ افسردہ رہنے لگا اور اس نے اپنے غم سے نجات پانے کے لئے ایک خوبصورت مجسمے میں پناہ لی۔ مجسمہ کی طرف حد سے بڑھی ہوئی توجہ نے ملکہ کو بیدار کیا اور اس نے مجسمہ کے اعضا کو وقفہ وقفہ سے ایک ایک کرکے کاٹ ڈالا لیکن بادشاہ کی محویت میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک دن ملکہ نے مجسمے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور بادشاہ کے قدموں میں گر پڑی۔
اندھیرے میں
بیمار باپ کو شراب پیتے دیکھ کر اس کا اکلوتا بیٹا چراغ پا ہو جاتا ہے اور اس بات پر دیر تک ان میں بحث ہوتی ہے کہ شراب جب اس کے لئے مضر ہے تو وہ آخر پیتا ہی کیوں ہے۔ وہ اس گھر کو چھوڑ کر چلا جائے گا۔ باپ بیٹے کی منت سماجت کر کے اسے مناتا ہے اور یہ طے پاتا ہے کہ بچی ہوئی شراب بیٹا کہیں بیچ آئے۔ متقی، پرہیزگار بیٹا رات کے سناٹے میں اسے بیچنے کی کوشش میں ناکام ہو کر ایک بنچ پر آکر بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں ایک مرد اور ایک عورت وہسکی کی مستی میں سرشار نظر آتے ہیں۔ان کی گفتگو سے عنفوان شباب کی آگہی ہوتی ہے اور اس نوجوان کو نئی دنیا میں لے جاتی ہے۔ وہ شراب کے سلسلہ میں کافی دیر تک غور و فکر کرتا رہتا ہے اور بالآخر شراب پی کر گھر واپس لوٹ آتا ہے۔
بھنور
حاجی صاحب ایک پرہیزگار اور مذہبی شخص ہے۔ وہ شہر کی غلاظت کو دور کرنے کے لیے بازارو عورتوں کے درمیان تقریر کرتے ہیں اور انھیں گناہوں کے دلدل سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں میں دو بہنیں گل اور بہار بھی ہیں۔ گل حاجی صاحب کی باتوں سے متاثر ہو کر ان کے پاس رہنے چلی آتی ہے۔ حاجی کسی سے اس کی شادی کرا دیتا ہے۔ گل کی پہلی دو شادیاں ناکام رہتی ہیں۔ اس کا تیسرا شوہر بیمار پڑ جاتا ہے۔ حاجی صاحب ابھی گل کی فکر میں مبتلا ہے کہ گل کی بہن بہار بھی ان کے پاس چلی آتی ہے۔
بامبے والا
یہ ایک کالونی کی کہانی ہے جس میں دفتر کے بابو آباد تھے۔ انھیں پوری طرح سے امیر تو نہیں کہا جا سکتا تھا مگر ظاہری طور پر وہ بہت خوشحال اور متمول ہی دکھتے تھے۔ امیروں ہی جیسے ان کے شوق تھے۔ اسی کالونی میں ایک شخص ہفتے میں ایک بار بچوں کے لیے ٹافی بیچنے آیا کرتا تھا۔ اس کا نام بامبے والا تھا۔ ایک روز کالونی کی دو لڑکیاں اپنی سنگیت ٹیچر کے ساتھ بھاگ گئیں۔ لوگ غصے سے بھرے بیٹھے تھے کہ ا ن کے سامنے بامبے والا آ نکلا اور پھر۔۔۔
جوار بھاٹا
شجرہ نسب کے ذریعہ ایک کبابی کے خاندان کے عروج و زوال کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ تعلیم و دولت کے ساتھ اس خاندان کے افراد نے بڑے سے بڑا عہدہ حاصل کیا لیکن وقت کے ساتھ وہ اپنی نسبتیں بھی بدلتے رہے۔ پھر ایک نسل ایسی بھی آئی جس نے اپنے آباء و اجداد کی دولت پر تکیہ کر کے تعلیم سے منہ پھیر لیا اور پھر وہ دن بھی آیا کہ اسی خاندان کا ایک فرد ایک چھوٹے سے ہوٹل کی معمولی سی آمدنی پر گزر اوقات کرنے پر مجبور ہوا۔
بحران
بے مکانی کے کرب اور انسانی فطرت کی کمینگی کو اس کہانی میں نمایاں کیا گیا ہے۔ گورنمنٹ کی جانب سے مکانوں کی تعمیر کے لئے زمینیں الاٹ کی جاتی ہیں۔ ان زمینوں کے خریداروں کی فہرست میں جہاں ایک جانب پروفیسر سہیل ہیں وہیں دوسری جانب ایک دفتر کا چپراسی چاند خاں ہے۔ مستری اور ٹھیکے دار دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں۔ بد عنوانیوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد پروفیسر سہیل کا مکان جب بن کر تیار ہوتا ہے تو اس قدر بے ڈھنگا ہوتا ہے کہ وہ خود کو کسی طور پر بھی اس میں رہنے کے لئے تیار نہیں کر پاتے ہیں اور ایک جرمن سیاح کو کرایہ پر دے دیتے ہیں۔ کرایہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے ایک نیا گھر تعمیر کر سکتے ہیں۔ پروفیسر سہیل بے عیب مکان بنانے کا عزم کرکے اخبار اٹھا لیتے ہیں او خالی زمینوں کے اشتہار پڑھنے لگتے ہیں۔
بردہ فروش
عورت کی ازلی بے بسی، مجبوری اور استحصال کی کہانی۔ مائی جمی نے بردہ فروشی کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ وہ کسی ایسے بڈھے کو تلاش کرتی جو نوجوان لڑکی کا خواہش مند یا ضرورت مند ہوتا اور پھر ریشماں کو بطور بیوی بھیج دیتی۔ ریشما چند دن میں گھر کے زیور اور روپے پیسے چرا کر بھاگ آتی اور نئے گاہک کی تلاش شروع ہو جاتی۔ لیکن چودھری گلاب کے یہاں ریشماں کا دل لگ جاتا ہے اور وہ وہاں سےجانا نہیں چاہتی ہے۔ مائی جمی انتقاماً پرانے گاہک یا شوہر کرم دین کو اطلاع کر دیتی ہے اور وہ آکر گلاب چند کو ساری صورت حال بتاتا ہے۔گلاب چند آگ ببولا ہوتا ہے۔ حق ملکیت کے لئے دونوں میں دیر تک مقابلہ ہوتا ہے۔ آخر دونوں ہانپ کر اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ آپس میں لڑنے کے بجائے لڑائی کی جڑ ریشماں کا ہی کام تمام کر دیا جائے۔ عین اسی وقت ٹیلے کے پیچھے سے مائی جمی نمودار ہوتی ہے اور دونوں کو اس بات پر راضی کر لیتی ہے کہ دونوں کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کر دیا جائے تو وہ ریشماں کو چھوڑ دیں گے۔ دونوں راضی ہو جاتے ہیں اور پھر وہ دونوں جو چند لمحے پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، بےتکلفی سے موسم اور منہگائی پر تبصرہ کرنے لگتے ہیں۔
پتلی بائی
محبت کا جذبہ پہلے پہل انسان کے دل میں کب بیدار ہوتا ہے، اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ بعض لوگ لڑکپن ہی سےعاشق مزاج ہوتے ہیں اور بعض بلوغت کو پہنچ کے بھی اس جذبے سے بے بہرہ ہی رہتے ہیں۔ میری عمر کوئی نو دس برس کی ہوگی کہ مجھے عشق ہوگیا۔ عہد طفلی
ناک کاٹنے والے
مرد اساس معاشرے میں طوائف کو کن کن مورچوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک جھلک اس افسانہ میں پیش کی گئی ہے۔ ننھی جان کی غیر موجودگی میں تین پٹھان اس کے کوٹھے پر آتے ہیں اور اس کے دو ملازمین سے چاقو کے دم پر زور زبردستی اور بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ننھی جان کی ناک کاٹنے کا عندیہ ظاہر کرتے ہیں۔ کافی دیر انتظار کے بعد وہ تھک ہار کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد ہی ننھی جان لوٹتی ہے۔ ننھی جان اپنے ملازمین کو تسلی دے کر سونے چلی جاتی ہے اور اس کے ملازم آپس میں قیاس آرائی کرتے رہتے ہیں کہ فلاں یا فلاں نے رقابت اور حسد میں ان غنڈوں کو بھیجا ہوگا۔
غازی مرد
مسجد کے امام صاحب کی ایک دیندار، پاکباز لیکن نابینا لڑکی ہے۔ مرنے سے قبل لڑکی کی ذمہ داری امام صاحب گاوں والوں کو دیتے ہیں۔ امام صاحب کے انتقال کے بعد گاوں میں پنچایت بلائی جانتی ہے اور گاؤں کے نوجوانوں سے امام صاحب کی لڑکی سے شادی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ ان نوجوانوں میں سے ایک خوبرو نوجوان، جسے کئی اور لوگ اپنا داماد بنانا چاہتے ہیں، اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے۔ وہ نوجوان گھر کے کام کاج کے لیے ایک لڑکی کو ملازم رکھ لیتا ہے۔ ملازمہ نابینا لڑکی کو ساری باتیں بتاتی رہتی ہے۔ ایک دن وہ بتاتی ہے کہ اس کے شوہر کی ملاقات ایک خوبصورت لڑکی سے ہوئی ہے۔ اس سے اس کی بیوی کے دل میں شک پیدا ہو جاتا ہے۔ اپنے شک کو دور کرنے کے لیے وہ جو کرتی ہے وہ اس نوجوان کو ایک غازی مرد بنا دیتا ہے۔
مکرجی بابو کی ڈائری
کئی روز کی مسلسل مصروفیتوں کے بعد ورما ایشیاٹک کمپنی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرمکرجی بابو کوفراغت کی ایک شام نصیب ہوئی تو انہوں نےسوچاکہ اسے یونہی نہیں گنوانا چاہیے۔ لندن کی ایک تنگ اور پرپیچ گلی میں جو پکاڈلی سرکس سے زیادہ دور نہ تھی، ایک پرانے مکان کی چوتھی
چکر
ملازمین کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور ان کے استحصال کی کہانی ہے۔ سیٹھ چھنا مل اپنے منشی چیلا رام کو شدید گرمی میں دسیوں کام بتاتے ہیں۔ چیلا رام دن بھر لو کی شدت اور بھوک پیاس برداشت کرکے جب واپس لوٹتا ہے تو چھنا مل اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے ایک دوست آواگون کے مسئلہ پر اظہار خیال کر رہے ہوتے ہیں۔ سیٹھ چھنا مل چیلا رام کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دیتے اور وہ اپنے گھر لوٹ آتا ہے۔گھر کے باہر وہ چارپائی پر لیٹ کر اپنے پڑوسی کو دیکھنے لگتا ہے جو اپنے گھوڑے کو چمکار کر پیار سے مالش کر رہا ہے۔ چیلا رام کی بیوی کئی مرتبہ کھانا کھانے کے لئے بلانے آتی ہے لیکن وہ مسلسل خاموش محو نظارہ رہتا ہے۔ شاید وہ آواگون کے مسئلہ پر غور کر رہا ہوتا ہے، شاید وہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کا اگلا جنم گھوڑے کی جون میں ہو۔
فرار
فرار در اصل ایک حساس لیکن بزدل انسان کی کہانی ہے۔ ماموں جو اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں، فطری طور پر سست اور آرام پسند واقع ہوئے ہیں، اسی وجہ سے وہ میٹرک کا امتحان بھی نہ پاس کر سکے۔ نمائش میں جو لڑکی انہیں شادی کے لئے پسند آتی ہے اس کے والد تین شرطیں رکھتے ہیں، اول یہ کہ ان کا داماد خوبصورت ہو، دوئم کم از کم گریجویٹ ہو اور سوئم یہ کہ دو لاکھ مہر دینے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ماموں نے یہ چیلنج قبول کیا۔ بھائیوں نے اپنی اپنی جائداد بیچنے کا فیصلہ کیا اور ماموں نے تین سال میں گریجویٹ بن کر دکھا دیا۔ لیکن شادی کے دن عین نکاح کے موقع پر وہ شادی ہال سے فرار ہو جاتے ہیں۔
بندر والا
والدین اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے کس طرح بچوں سے ان کا بچپن چھین لیتے ہیں، یہ اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ مسٹر شاہ ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ آئے دن لوگوں کی دعوتیں کرتے ہیں جس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ انتہائی خلیق و ملنسار ہیں لیکن در اصل اس دعوت کے بہانے انہیں اپنے چار سالہ بچے کی نمائش مقصود ہوتی ہے جسے انہوں نے غالب کے اشعار سمیت بہت کچھ پڑھا سکھا رکھا ہے۔ وہ جاپانی جوڈو بھی جانتا ہے۔ مصنف نے اس بچے کو بندر اور مسٹر شاہ کو بندر والے سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح بندر والے کو اپنا تماشا دکھانے کے لئے ڈگڈگی کا سہارا لینا پڑتا ہے اسی طرح مسٹر شاہ کو دعوتوں کا۔
تنکے کا سہارا
خاموش طبع اور ملنسار میر صاحب کے اچانک انتقال سے اہل محلہ ان کی غربت سے واقف ہوتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ سید کی بیوہ اور ان کے بچوں کی پرورش سب مل کر کریں گے۔ چار سال تک سب کے تعاون سے بچوں کی پرورش ہوتی رہی لیکن پھر حاجی صاحب کی حد سے بڑھی ہوئی دخل اندازی سب کو کھلنے لگی کیونکہ یہ خیال عام ہو گیا تھا کہ حاجی صاحب اپنے بیٹے کی شادی بیوہ کی خوبصورت بیٹی سے کرنا چاہتے ہیں۔ بیوہ کی بیٹیاں جو حاجی صاحب کے گھر پڑھنے جایا کرتی تھیں ان کا جانا بھی موقوف ہو گیا اور محلہ کی مسجد کے امام صاحب بچیوں کی تعلیم پر مامور ہوئے۔ امام صاحب نے ایک دن محلہ کے سنجیدہ لوگوں کے سامنے بیوہ سے شادی کی تجویز رکھی اور پھر ایک ہفتہ بعد وہ بیوہ کے گھر اپنے مختصر سامان کے ساتھ اٹھ آئے۔ اگلے دن جب حسب معمول شیر فروش کا لڑکا دودھ دینے آیا تو امام صاحب نے اس سے کہا، میاں لڑکے، اپنے استاد سے کہنا وہ اب دودھ نہ بھیجا کریں، ہمیں جتنے کی ضرورت ہوگی ہم خود مول لے آئیں گے، ہاں کوئی نذر نیاز کی چیز ہو تو مسجد بھیج دیا کریں۔
دو تماشے
مرزا برجیس قدر مالی طور پر زوال پذیر خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ گرچہ وہ اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں لیکن سماجی طور پر اپنی برتری برقرار رکھنے کے لئے ظاہری آرائش و نمائش اور درشت مزاجی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی کار میں بیٹھ کر جوتوں کی خریداری کرنے جاتے ہیں اور دکان کے ملازم کو خواہ مخواہ ڈانٹتے پھٹکارتے ہیں۔ اسی درمیان ایک اندھا بوڑھا فقیر بھیک مانگنے آتا ہے جسے مرزا برجیس قدر ڈپٹ کر بھگا دیتے ہیں، کیونکہ ان کی جیب میں پیسے ہی نہیں ہوتے ہیں۔ ایک دن جب وہ ایک فلم دیکھ رہے ہوتے ہیں جس میں بھیک مانگنے کا سین آتا ہے تو مرزا برجیس قدر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
ایک دردمند دل
نوجوانوں کے خوابوں کی شکست و ریخت اور ملازمت کا بحران اس کہانی کا موضوع ہے۔ فضل اپنے والد کی خواہش پر لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے لیکن ملک کی خدمت کے جذبہ سے سرشار فضل کا دل قانون کی تعلیم میں نہیں لگتا ہے۔ ذہنی طور پر فرار حاصل کرنے کے لئے وہ ڈانسنگ کا ڈپلوما بھی کر لیتا ہے۔ اتفاق سے اسے ایک لڑکی روز میری مل جاتی ہے جو ملک کی خدمت کے اس کے جذبے سے متاثر ہو کر اس کی معاون بننے کی خواہش ظاہر کرتی ہے۔ فضل فوری طور پر گھر تار دیتا ہے کہ وہ قانون کی تعلیم چھوڑ کر وطن واپس آرہا ہے اور اس نے شادی بھی کر لی ہے۔ بندرگاہ پہ اسے گھر کا ملازم خط دیتا ہے جس میں والد نے اس سے اپنی لا تعقی ظاہر کی تھی۔ ایک مہینے تک دونوں ایک ہوٹل میں ٹھہرے رہتے ہیں۔ اس دوران انتہائی بھاگ دوڑ کے باوجود فضل کو کوئی مناسب ملازمت نہیں مل پاتی ہے اور آخر ایک دن وہ ڈانسنگ روم کھول لیتا ہے۔ اس کو دیکھ کر روز میری کے چہرے کا رنگ فق ہو جاتا ہے تو فضل اس سے کہتا ہے، آخر فنون لطیفہ کی خدمت بھی تو قومی خدمت ہی ہے نا۔۔۔
سرخ جلوس
اپنے حقوق کے تئیں نچلے طبقے کی بیداری کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ امریکی عورت مس گلبرٹ ہندوستان صرف اس غرض سے آتی ہے کہ اسے یہاں کی تحریکوں، ستیہ گرہ اور جلسے جلوس کو دیکھنے کا شوق تھا۔ لیکن آزادی کے فوراً بعد یہ سارے ہنگامے ختم ہو چکے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ افسردہ رہتی تھی۔ ہوٹل کے اسسٹنٹ منیجر کا دوست ریاض گلبرٹ کی افسردگی دور کرنے کی غرض سے اپنی ذہانت سے ایک غیر آباد علاقہ میں فرضی جلوس کا اہتمام کرتا ہے۔ سائیسوں کا یہ جلوس گلبرٹ ایک فلیٹ کی بالکنی پر بیٹھ کر دیکھتی ہے۔ مسرور ہو کر وہ سائیسوں کی مدد کے لئے چیک کاٹ کر ریاض کو دیتی ہے۔ ایک ہفتہ کے بعد شہر کے عین وسط میں ہزاروں کی تعداد میں سائیس اصل جلوس نکالتے ہیں جو ریاض ہی کا لکھا ہواگیت گا رہے ہوتے ہیں لیکن ریاض اور اس کا دوست گلبرٹ سے اس جلوس کا تذکرہ تک نہیں کرتے ہیں۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1878
-