Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیوی کے پر کیسے گم ہو گئے

سلمیٰ جیلانی

کیوی کے پر کیسے گم ہو گئے

سلمیٰ جیلانی

MORE BYسلمیٰ جیلانی

    دلچسپ معلومات

    نوٹ : اس کہانی میں صرف نیو زی لینڈ اور اس کے آس پاس کے خطے کے وہ تمام قدیم مقامی پرندےشامل ہیں جن کی نسل کو معدوم ہونے کا خدشہ لا حق ہے جیسے پوکے کو: نیلے رنگ کا لمبی ٹانگوں والا مرغی کی قامت کا پرندہ۔ ٹوئی: جو مینا کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ پیپی وارو روا: یعنی سنہری اور سبزپروں والی بلبل جیسا پرندہ۔ اور کیوی: جس کے جسم پر بالوں کی طرح کے پر ہوتے ہیں اور پنکھ تو بلکل ہی نہیں ہوتے لمبی سی چونچ سے رات کے وقت سونگھ کر کیڑے مکوڑے تلاش کر کے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے اور درختوں کی جڑوں میں اپنا ٹھکانا بناتا ہے۔

    یارے بچو! آج میں آپ کو اپنے موجودہ دیس نیوزی لینڈ کی ایک لوک کہانی سناتی ہوں جو یہاں کے قومی پرندے کیوی سے متعلق ہے۔ آپ نے یا آپ کے امی ابو نے وہ اشتہار شائد سنا ہو جس میں سوال کیا جاتا ہے۔ ’’پیارے پچو کیوی کیا ہے؟ اور پھر جواب دیا جاتا ہے کہ ’’کیوی ایک پرندہ ہے جو پالش کی ڈبیہ پر رہتا ہے‘‘۔

    نہیں بھئی، کیوی ہے تو پرندہ مگر پا لش کی ڈبیہ پر نہیں بلکہ نیو زی لینڈ کے جنگلوں میں رہتا ہے یہ جانوروں کی سب سے قدیم نسل سے تعلق رکھتا ہے اوریہ واحد پرندہ ہے جو اڑ نہیں سکتا کیونکہ اس کے پر ہی نہیں ہوتے اس کے باوجود پرندہ کہلاتا ہے، اس کے علاوہ اس کی کئی اور باتیں عام پرندوں سے مختلف ہیں یعنی یہ رات کے وقت کھانا پینا تلاش کرنے نکلتا ہے اکثر قومی شاہراہ پر بھی نکل آتا ہے اور تیز رفتار کاروں کا نشانہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نسل اور بھی تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انڈا اس کے قد کی مناسبت سے بہت بڑا ہوتا ہے اور اکثر انڈے دیتے ہوئے بھی مادہ کی جان چلی جاتی ہے اس وجہ سے بھی یہ تعداد میں بہت ہی کم رہ گئے ہیں اور اگر ان کی دیکھ بھال نہ کی گئی تو اگلی نسل ان کو دیکھ بھی نہیں سکےگی۔

    خیر یہ تو تھا کیوی کا مختصر تعارف اب آتے ہیں اس لوک کہانی کی طرف جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا۔

    ایک دن ’تنی مہوٹہ‘ یعنی جنگل کا دیوتا (یہ یہاں کے سب سے قدیم درخت کاوری کو بھی کہتے ہیں جو ساٹھ ہزار سال پرانے ہیں )جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بچے یعنی درخت جو آسمانوں کو چھوتے تھے کچھ بیمار لگ رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کیڑے انہیں کھا رہے ہوں، اس نے اپنے بھائی ’تنی ہوکا ہوکا‘ یعنی آسمانوں کے بادشاہ سے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو بلائے چنانچہ اس نے فضاؤں کے تمام پرندوں کو ایک جگہ پر جمع کیا۔

    ’تنی مہوٹہ‘ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کوئی چیز میرے بچوں یعنی درختوں کو کھا رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی ایک آسمانوں کی چھت سے نیچے اتر آئے اور زمین کے فرش پر اپنا گھر بنائے ، تاکہ درخت اس تکلیف سے نجات پائیں اور تمہارا گھر بھی محفوظ رہے۔ ہاں تو بتاؤ تم سے کون ایسا کرنے کو تیار ہے؟‘‘

    ان میں سے کوئی پرندہ بھی نہیں بولا سب کے سب ایکدم خاموش رہے۔

    ’تنی ہوکا ہوکا‘ مینا کی طرح کے پرندہ ’ٹوئی‘ کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا

    ’’ٹوئی! کیا تم زمین کے فرش پر جاکر رہنا پسند کروگے؟‘‘

    ٹوئی نے درختوں کے اوپر کی طرف نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتوں سے چھن کر نیچے جا رہی تھی، پھر نیچے جنگل کے فرش کی طرف دیکھا، جو بہت ٹھنڈا اور سیلا معلوم ہو رہا تھا اور وہاں بہت اندھیرا تھا ایسا لگتا تھا جیسے زمین کپکپا رہی ہو

    ٹوئی نے ڈرتے ہوئے کہا محترم تنی ہوکا ہوکا۔۔۔ نیچے تو بہت اندھیرا ہے اور مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔ اس لئے میں نیچے نہیں جا سکتا‘‘۔

    پھر ’تنی ہوکا ہوکا‘ نیلے رنگ کے لمبی ٹانگوں والے پرندے ’پوکے کو کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ اور اپنا سوال دہرایا

    ’’پوکے کو ! کیا تم نیچے جا کر رہنا چاہوگے؟‘‘

    ’پوکے کو‘ نے نیچے کی طرف دیکھا۔۔۔ اسے بھی زمین نم آلود اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی معلوم ہوئی۔

    اسے نے ادب سے جواب دیا ’’جناب ’تنی ہوکا ہوکا۔۔۔ ’زمین کا فرش تو بہت ہی گیلا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میرے خوبصورت پاؤں گیلے ہو جائیں

    اس کے بعد’ تنی ہوکا‘ ہوکا۔۔۔ ’پیپی وارو۔ روا‘ یعنی سنہری بلبل کی طرح کے پرندے سے مخاطب ہوا۔

    ’’تو ’پیپی وارو۔ روا‘! تمہارا کیا جواب ہے۔۔۔ کیا۔۔۔ تم درختوں کی جان بچانے کے لئے جنگل کی چھت سے نیچے اتروگے؟‘‘

    سنہری پرندے نے جنگل کی چھت سے چھنتی ہوئی سورج کی روشنی کی طرف دیکھا، پھر دوسرے پرندوں کی طرف نظر دوڑائی اور لا پرواہی سے بولا

    ’’جناب محترم ’تنی ہوکا ہوکا‘ فی الحال تو میں اپنا گھونسلا بنانے میں بےحد مصروف ہوں، میں نیچے جا کر نہیں رہ سکتا‘‘

    باقی سب پرندے خاموشی سے ان کی باتیں سن رہے تھے اور ان میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔

    ایک گہری اداسی ’تنی ہوکا ہوکا‘ کے دل میں اتر گئی، جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے بچوں میں سے کوئی بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنے کو تیار نہیں، اس طرح نا صرف اس کا بھائی اپنے بچوں یعنی درختوں کو کھو دےگا بلکہ کسی پرندے کا گھر بھی باقی نہیں بچےگا۔

    ’تنی ہوکا ہوکا‘ اس مرتبہ کیوی کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا

    ’’اے کیوی ! کیا تم جنگل کی چھت سے نیچے اترنا پسند کروگے؟‘‘

    کیوی نے درختوں پر نگاہ ڈالی جہاں سورج کی روشنی پتوں سے چھن چھن کر ایک خوب صورت منظر پیش کر رہی تھی، اس نے اپنے اطراف دیکھا جہاں اسے اپنا خاندان دکھائی دیا، پھر اس نے زمین کے فرش کی جانب نظر کی، ٹھنڈی اور نم آلود زمین، اس کے بعد اپنے اطراف دیکھتے ہوئے’ تنی ہوکا ہوکا ‘کی طرف گھوما اور بولا

    ’’ہاں۔۔۔ میں۔۔۔ نیچے جاؤں گا‘‘

    یہ سن کر ’تنی مہوٹا‘ اور تنی ہوکا ہوکا کے دل خوشی سے اچھل پڑے۔۔۔ اس ننھے پرندے کی بات انہیں امید کی کرن دکھا رہی تھی، لیکن۔۔۔ تنی مہوٹا نے سوچا۔۔۔ کیوی کو ان خطرات سے آگاہ کر دیا جائے جن کا سامنا زمین پر جا کر رہنے سے اسے ہو نے والا تھا۔

    ’’اے کیوی! جب تم زمین پر جا کر رہوگے تو تم موٹے ہو جاؤ گے لیکن تمہاری ٹانگیں اتنی مضبوط ہو جائیں گی جو ایک جھٹکے سے لکڑی کو توڑ ڈالیں گی، تم اپنے خوب صورت چمکیلے پر کھو دوگے یہاں تک کہ اڑ کر دوبارہ جنگل کی چھت تک بھی نہیں پہنچ سکوگے اور تم دن کی روشنی بھی دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکوگے، کیا تمہیں یہ سب منظور ہے؟کیا۔۔۔ تم پھر بھی جنگل کی چھت سے نیچے اترنا چاہوگے؟‘‘

    تمام پرندے خاموشی سے یہ گفتگو سن رہے تھے، کیوی نےاداسی سے درختوں کی شاخوں سے چھن کر آتی ہوئی سورج کی روشنی کی طرف ایک الوداعی نظر ڈالی، پھر دوسرے پرندوں کی جانب دیکھا ان کے خوب صورت اور رنگین پروں اور اڑان بھرنے والے بازوؤں کو خاموش الوداع کہی، ایک بار پھر اپنے اطراف دیکھا اور ’تنی ہوکا ہوکا‘ سے مخاطب ہوا

    ’’ہاں۔۔۔ میں پھر بھی جاؤں گا‘‘

    تنی ہوکا ہوکا نے اس کی بات سنی اور پھر دوسرے پرندوں کی طرف متوجہ ہوا

    ’’اے ٹوئی! چونکہ تم جنگل کی چھت سے اترنے سے بہت خوف زدہ ہو اس لئے آج سے تمہیں دو سفید پر دئیے جاتے ہیں جو تمہارے بزدل ہونے کی نشانی کے طور پر تمہاری گردن پہ ہمیشہ ثبت رہیں گے۔

    اور ہاں ’پوکے کو‘! تم نیچے جا کر اس لئے رہنا نہیں چاہتے کہ تمہارے پاؤں گیلے نہ ہو جائیں تو آج سے تم ہمیشہ دلدلوں اور گندے پانی کے جوہڑوں میں رہا کروگے اور تمہارے خوب صورت پاؤں کیچڑ میں لتھڑے رہیں گے۔

    ’پیپی وارو۔روا‘! چونکہ تم اپنا گھونسلا بنانے میں اتنے مصروف ہو کہ نیچے اتر کر رہنا تو کیا میری بات تک سننے کے لئے تمہارے پاس وقت نہیں تو آج سے تمہاری سزا یہ ہے کہ تم کبھی اپنا گھونسلا نہیں بنا سکوگے بلکہ دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں انڈے دیا کروگے۔

    لیکن پیارے کیوی ! اپنی اس بے مثال قربانی کی وجہ سے تم تمام پرندوں میں سب سے زیادہ مشہور پرندے ہوگے اورتمہیں لوگ سب سے زیادہ پیار کریں گے‘‘۔

    اور۔۔۔ اس دن سے آج تک کیوی ایک مختلف پرندہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے نیو زی لینڈ کا قومی پرندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے