Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بلیوں کی کانفرنس

اشتیاق احمد

بلیوں کی کانفرنس

اشتیاق احمد

MORE BYاشتیاق احمد

    گھر کے کباڑ خانے میں بلیوں کی کانفرنس ہو رہی تھی۔ تمام بلیاں اس طرح ایک گول دائرے میں بیٹھی تھیں جیسے کسی گول میز کانفرنس میں شرکت کر رہی ہوں۔ بیٹھنے سے پہلے ان سب نے اپنی اپنی دم سے اپنی جگہ بھی صاف کی تھی۔ لکڑی کی ایک ٹوٹی کرسی پر اس وقت ایک بوڑھی بلی بیٹھی تھی۔ یہ بی حجّن تھی۔ تمام بلیاں اسے اسی نام سے پکارتی تھیں کیونکہ اس کے متعلق مشہور تھا کہ نو سو چوہے کھانے کے بعد حج کو گئی تھی۔

    اچانک اس نے اپنا بازو اٹھا کر مُکے کی شکل میں لہرایا اور بلند آواز میں بولی: ’’یہ تو تم سب کو معلوم ہی ہے کہ ہم یہاں کس لیے جمع ہوئے ہیں۔ اس گھر کے رہنے والے اب ہم پر ظلم کرنے لگے ہیں کسی کی دم پر پاؤں رکھ دیتے ہیں تو کسی پر لکڑی یا پتھر اٹھا مارتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اس گھر پر چوہوں کی حکومت تھی۔ ہر طرف چوہے ہی چوہے تھے۔ باورچی خانے کے ہر کونے میں چوہے، گھر کی الماریوں میں چوہے، کھانے پینے کی چیزوں میں چوہے۔ یہاں تک کہ سوتے وقت ان لوگوں کے بستروں میں گھر کر چوہے لحافوں کے مزے بھی لیا کرتے تھے۔ آخر جب گھر والے بالکل ہی تنگ آگئے تو انہوں نے ایک بلی پالنے کی سوچی۔ اس کام پر منے میاں کو لگایا گیا۔ منے میاں ایک گلی میں سے گزرے۔ اس گلی میں ایک ٹوٹا پھوٹا مکان تھا جس میں میں اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ منے میاں کی نظر مجھ پر پڑی تو جھٹ مجھے اٹھا لیا۔ میں بہت گھبرائی مگر کیا کرسکتی تھی۔ ابھی بہت چھوٹی تھی نہ پنجے مار سکتی تھی نہ بھاگ سکتی تھی۔ منے میاں مجھے اس گھر میں لے آئے اور میں نے یہاں چوہوں کا ایک لشکر عظیم دیکھا۔ اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر میں گھبرا گئی کیونکہ ابھی تو میں دودھ پیتی بچی تھی۔ میں بھلا کیا چوہے کھاتی۔ پھر بھی اتنا ہوا کہ میری آواز سن کر چوہے ادھر سے ادھر بھاگ جاتے اور بلوں میں سے منہ نکال نکال کر مجھے دیکھتے رہتے۔ رفتہ رفتہ میں بڑی ہوتی گئی اور چوہوں کا شکار کرنے لگی۔ اب تو چوہے مجھ سے خوب ڈرنے لگے۔ ایک دن کیا ہوا، مجھے دیکھ کر بلی کے دو تین بچے اور اس گھر میں آکر رہنے لگے۔ اب تو روز بروز ہماری تعداد بڑھنے لگی اور چوہوں کی تعداد کم ہونے اب ہم اس گھر میں خوب اچھل کود مچانے لگے۔ ہماری تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔ پہلے پہل تو گھر کے لوگ خوش ہوتے رہے کیونکہ چوہے غائب ہوتے جارہے تھے اور ان کو ہماری وجہ سے بہت سکون ہوگیا تھا۔ جب ہماری تعداد بہت زیادہ ہوگئی تو ہم نے رہنے کے لئے اس کباڑخانے کو چن لیا۔ رات کو یہاں رہنے لگے اور دن میں سارے گھر میں اچھلتے کودتے پھرتے۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ ہماری تعداد بڑھ رہی تھی۔ آخر ایک دن ہم نے چوہوں کی فوج کا مکمل طور پر صفایا کردیا، اب گھر میں کوئی چوہا باقی نہ بچا تھا۔

    جس دن اس گھر کا آخری چوہا بھی ہماری خوراک بن گیا تو ہم نے اس گھر کے اسی کمرے میں جشن منایا اس جشن میں ہم نے اپنے بچوں کی آپس میں شادیاں کردیں اس دن ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ پھر ایسا کہ ہماری تعداد اور بھی بڑھ گئی اور اب یہ اضافہ ہی ہمارے لئے مصیبت بن گیا ہے۔ گھر والے کھانے کی تمام چیزیں تالوں میں رکھتے ہیں ہمیں کچھ کھانے کو نہیں دیتے۔ اگر کبھی اتفاق سے کھانے کی کوئی چیز ہم میں سے کسی کے ہاتھ لگ جائے تو اسے لکڑیوں سے پیٹا جاتا ہے یا دم سے پکڑ کر ہوا میں جھلایا جاتا ہے۔ ان گھر والوں کے اس ظلم کے خلاف آج ہم سب یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر یہ لوگ ہمیں کھانے کو کچھ نہیں دیتے تو نہ سہی ہم خود کھانے کی چیزیں حاصل کریں گے۔ اس فیصلے کے بعد ہم گھر کی چیزوں پر ٹوٹ پڑے تھے اور خوب جی بھر کر چیزیں کھائیں تھیں، لیکن نتیجہ کیا نکلا۔ کسی کی ٹانگ توڑ دی گئی تو کسی کو بوری میں بند کر کے دریا پار چھوڑ دیا گیا۔ مس بھوری تم کھڑی ہو جاؤ اور سب کو چل کے دکھاؤ‘‘

    ایک بھوری بلی اٹھ کھڑی ہوئی اور ان سب کو چل کر دکھایا۔ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور وہ بری طرح لنگڑا رہی تھی۔

    ’’اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے دودھ کی دیگچی میں سے دو تین گھونٹ دودھ پی لیا تھا۔ اسی وقت منے میاں ادھر آنکلے۔ انہوں نے لکڑی اٹھائی اور اس کی ٹانگوں پر دے ماری۔ کتنے احسان فراموش ہیں یہ انسان اور ان کے بچے یہ ہمارے اس احسان کو بالکل ہی بھول گئے ہیں، جو ہم نے چوہوں کو کھا کر ان پر کیا ہے، یہ وہ دن بھول گئے جب اس گھر میں ہر طرف چوہے ہی چوہے ہوتے تھے اور ان کی راتوں کی نیند حرام ہوچکی تھی۔ سوتے میں چوہے ان کے اوپر اچھلتے کودتے تھے۔ آج ہم نے انہیں ان سے چھٹکارا دلا دیا ہے تو انہوں نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں آخر کس لیے۔ صرف اس لئے کہ ہمارے بچے بہت ہوگئے ہیں، لیکن خود ان کے کتنے بچے ہیں۔ سارے گھر میں بچے ہی بچے بھرے پڑے ہیں۔ آخر ہمیں بھی بچوں سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ انہیں۔ پھر یہ کیوں ہماری جان کے دشمن بن گئے ہیں اور کیا تم سب کو معلوم ہے کہ گھر والوں نے ہمارے خلاف ایک ہی ترکیب سوچی ہے۔‘‘ بی حجّن یہ کہہ کر خاموش ہوگئی اور تمام بلیوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ وہ سب ایک ساتھ بول اٹھیں:

    ’’نئی ترکیب، آخر وہ کیا ہے اور ہمیں اس کا پتا کیوں نہیں چلا۔‘‘

    ’’یہ کل رات کی بات ہے، تم سب کو تو سونے کی پڑی رہتی ہے، صرف میں جاگ کر اللہ اللہ کر رہی تھی کہ میرے کانوں میں منے کے ابا کی آواز پڑی وہ کہہ رہے تھے ان بلیوں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب ہم گھر میں شکاری کتا پالیں گے جو ان سب بلیوں کو بھگا دے گا یا چٹ کر جائے گا۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ سب بلیاں خوف سے چلا اٹھیں۔ ان کی آنکھوں میں خوف سما گیا اور وہ تھرتھرکانپنے لگیں۔

    ’’کانپنے اور ڈرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں تو کہتی ہوں، اس سے پہلے کہ اس گھر میں کتا آئے، گھر کی ساری چیزوں کو درہم برہم کردو، الٹ پلٹ دو۔ ہر طرف تباہی مچا دو۔ تمہارے ساتھ آج تک جو ناانصافیاں ہوئی ہیں اورؤ ہو رہی ہیں، ان کا انتقام لو۔‘‘

    ’’لیکن اس کا کیا فائدہ۔‘‘ ایک عقل مند بلے نے کہا۔ ’’ہم نے اس گھر کا برسوں نمک کھایا ہے، ہم نمک حرامی نہیں کریں گے۔‘‘

    ’’ہاں ہاں، ہم نمک حرامی نہیں کریں گے۔‘‘

    ’’تو پھر اس گھر سے نکلنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔‘‘ بی حجّن نے کہا۔

    ’’ہاں ہم اس گھر سے چلے جائیں گے لیکن نمک حرامی نہیں کریں گے۔‘‘

    اسی وقت گھر میں کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ آواز اسی طرف بڑھتی آرہی تھی۔ ان کے رنگ اڑ گئے وہ سب تھرتھر کانپنے لگیں۔

    ’’لو، آخر وہ کتّا لے ہی آئے۔‘‘

    اچانک دروازہ کھلا اور ایک خوفناک شکل کا کتّا ان کی طرف جھپٹا۔ تما بلیاں بدحواسی کے عالم میں ادھر بھاگنے لگیں۔ وہ دیوار پھلانگ کر گلی میں کود رہی تھیں۔ سب سے آخر میں بی حجّن دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہوئی۔ وہ منے سے بولی جو کتے کی زنجیر تھامے ہوئے تھا: ’’منے میاں ہم تو جارہے ہیں، لیکن ایک دن آئے گا جب تمہیں اس برے سلوک کا افسوس ہوگا۔ اچھا خدا حافظ‘‘

    مأخذ:

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے