اک عمر بھٹکتے رہے گھر ہی نہیں آیا
اک عمر بھٹکتے رہے گھر ہی نہیں آیا
ساحل کی تمنا تھی نظر ہی نہیں آیا
روشن ہیں جہاں شمع محبت کی قطاریں
وہ کنج کم آثار نظر ہی نہیں آیا
میں جھوٹ کو سچائی کے پیکر میں سجاتا
کیا کیجیے مجھ کو یہ ہنر ہی نہیں آیا
وہ گنبد بے در تھا کہ دیوار انا تھی
منظر کوئی باہر کا نظر ہی نہیں آیا
اک ایسا سفر بھی مجھے درپیش تھا لوگو
کچھ کام جہاں زاد سفر ہی نہیں آیا
بیٹھے رہے پلکوں کو بچھائے سر راہے
وہ جان جہاں گشت ادھر ہی نہیں آیا
اک پل کو جہاں بیٹھا ہوں تھک کر کبھی اخترؔ
رستے میں کوئی ایسا شجر ہی نہیں آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.