دیکھنے اس کو کوئی میرے سوا کیوں آئے
دیکھنے اس کو کوئی میرے سوا کیوں آئے
میرے ہم راہ یہ نقش کف پا کیوں آئے
کل تھی یہ فکر اسے حال سنائیں کیسے
آج یہ سوچتے ہیں اس کو سنا کیوں آئے
کم نہیں ہے یہ اذیت کہ ابھی زندہ ہوں
اب مرے سر پہ کوئی اور بلا کیوں آئے
میں بلندی پہ اگر جاؤں تو کیسے جاؤں
آسمانوں سے زمینوں پہ خدا کیوں آئے
عدل و انصاف تقاضائے مشیت ہی سہی
زندگی ہی میں مگر روز جزا کیوں آئے
دوڑتے خون کی اک لہر بہت کافی ہے
شفق شام کو اتنی بھی حیا کیوں آئے
قیدیوں کے لیے بہتر ہے کہ گھٹ کر مر جائیں
روشنی جب نہیں آتی تو ہوا کیوں آئے
لوگ خاموشی کا کرتے ہیں تقاضا یعنی
سانس لینے کی بھی شہزادؔ صدا کیوں آئے
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 417)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.