ہوا تو ہے ہی مخالف مجھے ڈراتا ہے کیا
ہوا تو ہے ہی مخالف مجھے ڈراتا ہے کیا
ہوا سے پوچھ کے کوئی دیئے جلاتا ہے کیا
گہر جو ہیں تہہ دریا تو سنگ و خشت بھی ہیں
یہ دیکھنا ہے مری دسترس میں آتا ہے کیا
نواح جاں میں جو چلتی ہے کیسی آندھی ہے
دیئے کی لو کی طرح مجھ میں تھرتھراتا ہے کیا
گلے میں نام کی تختی گلاب رکھتے ہیں
چراغ اپنا تعارف کہیں کراتا ہے کیا
نشان قبر بھی چھوڑا نہیں رقابت نے
کسی کو ایسے کوئی خاک میں ملاتا ہے کیا
فنا کے بعد ہی ملتی ہے زندگی کو دوا
طلبؔ یہ رمز تمہاری سمجھ میں آتا ہے کیا
- کتاب : Jahaan Gard (Pg. 52)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.