Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں

آرزو لکھنوی

جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں

آرزو لکھنوی

MORE BYآرزو لکھنوی

    جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں

    دروازوں سے ٹکرا جاتے ہیں دیواروں سے باتیں ہوتی ہیں

    آشوب جدائی کیا کہیے ان ہونی باتیں ہوتی ہیں

    آنکھوں میں اندھیرا چھاتا ہے جب اجالی راتیں ہوتی ہیں

    جب وہ نہیں ہوتے پہلو میں اور لمبی راتیں ہوتی ہیں

    یاد آ کے ستاتی رہتی ہے اور دل سے باتیں ہوتی ہیں

    گھر گھر کے بادل آتے ہیں اور بے برسے کھل جاتے ہیں

    امیدوں کی جھوٹی دنیا میں سوکھی برساتیں ہوتی ہیں

    امید کا سورج ڈوبا ہے آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہے

    دنیائے فراق میں دن کیسا راتیں ہی راتیں ہوتی ہیں

    طے کرنا ہیں جھگڑے جینے کے جس طرح بنے کہتے سنتے

    بہروں سے بھی پالا پڑتا ہے گونگوں سے بھی باتیں ہوتی ہیں

    آنکھوں میں کہاں رس کی بوندیں کچھ ہے تو لہو کی لالی ہے

    اس بدلی ہوئی رت میں اب تو خونیں برساتیں ہوتی ہیں

    قسمت جاگے تو ہم سوئیں قسمت سوئے تو ہم جاگیں

    دونوں ہی کو نیند آئے جس میں کب ایسی راتیں ہوتی ہیں

    جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے

    اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے اور پہروں باتیں ہوتی ہیں

    جو ناز ہے وہ اپناتا ہے جو غمزہ ہے وہ لبھاتا ہے

    ان رنگ برنگی پردوں میں گھاتوں پر گھاتیں ہوتی ہیں

    ہنسنے میں جو آنسو آتے ہیں نیرنگ جہاں بتلاتے ہیں

    ہر روز جنازے جاتے ہیں ہر روز براتیں ہوتی ہیں

    جو کچھ بھی خوشی سے ہوتا ہے یہ دل کا بوجھ نہ بن جائے

    پیمان وفا بھی رہنے دو سب جھوٹی باتیں ہوتی ہیں

    جب تک ہے دلوں میں سچائی سب ناز و نیاز وہیں تک ہیں

    جب خود غرضی آ جاتی ہے جل ہوتے ہیں گھاتیں ہوتی ہیں

    ہمت کس کی ہے جو پوچھے یہ آرزوئے سودائی سے

    کیوں صاحب آخر اکیلے میں یہ کس سے باتیں ہوتی ہیں

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے