تہہ میں جو رہ گئے وہ صدف بھی نکالیے
تہہ میں جو رہ گئے وہ صدف بھی نکالیے
طغیانیوں کا ہاتھ سمندر میں ڈالیے
اپنی حدوں میں رہئے کہ رہ جائے آبرو
اوپر جو دیکھنا ہے تو پگڑی سنبھالیے
خوشبو تو مدتوں کی زمیں دوز ہو چکی
اب صرف پتیوں کو ہوا میں اچھالیے
صدیوں کا فرق پڑتا ہے لمحوں کے پھیر میں
جو غم ہے آج کا اسے کل پر نہ ٹالیے
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لیے
کہہ دو صلیب شب سے کہ اپنی منائے خیر
ہم نے تو پھر چراغ سروں کے جلا لیے
دنیا کی نفرتیں مجھے قلاش کر گئیں
اک پیار کی نظر مرے کاسے میں ڈالیے
محسوس ہو رہا ہے کچھ ایسا مجھے قتیلؔ
نیندوں نے جیسے آج کی شب پر لگا لیے
- کتاب : Dastavez (Pg. 68)
- Author : Aziz Nabeel
- مطبع : Edarah Dastavez (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.