انس خان کے دوہے
بڑے شہر سے اپنی دوری رکھیے میلوں میل
جتنی دور سمندر سے ہو اتنی میٹھی جھیل
پنچھی اڑ کر چل دیا سوکھ گئی جب جھیل
موت ہے اصلی زندگی موت نہیں تکمیل
دن میں مذہب جاگتا لاکھ بھلی ہے رات
ہر تن لاگے ایک سا اک ہی لاگے ذات
کیا مانگیں بھگوان سے کیا دے گا یہ دیر
رکشا خود چلتا نہیں بنا چلائے پیر
راون زندہ ہی رہا صدیوں جلا شریر
ترکش میں تھا ہی نہیں کبھی رام کے تیر
تن بوڑھا ہونے لگا دھندھلے ہو گئے خواب
رنگ سیاہی کا اڑا مٹنے لگی کتاب
پرکھوں کی تصویر گلے میں واحد بنی دلیل
سارے گھر کا مان سنبھالے ایک اکیلی کیل
پہلے ہوا کسان کا بالو بالو کھیت
پھر آندھی مہنگائی کی بھر گئی منہ میں ریت
ہر کروٹ پر ہلچل ہوئے من بھی آپا کھوئے
کون بسا ہے میرے اندر کھنن کھنن کھن ہوئے
اپنے ہی سب ہاتھ چھڑا لیں برا چلے جو کال
عمریں جتنی بڑھتی جائیں اڑتے جائیں بال
تو مجھ میں محدود ہے میں تجھ میں محدود
میرے سائے میں ترا دکھنے لگا وجود
ایک آنکھ میں دو پتلی ہوں تب ہوگا آدھار
اک پتلی انتر من دیکھے اک دیکھے سنسار
روح بدن کے ساتھ تھی جگ نے دے دی تاپ
پانی نیچے رہ گیا اوپر اڑ گئی بھاپ
چھپا گیا گہرائی میں دریا اپنا حال
میں جب بھی اندر گیا باہر دیا اچھال
کوئی سنبھالے دیر تو کوئی بچائے دین
انسؔ بچا لو آپ ہی مرتی ہوئی زمین
جن کاندھوں پر جھول کر چھوتا تھا آکاش
اک دروازے میں ملی اسی پیڑ کی لاش
ملے جو نینن مد بھرے دھڑکا من کا دوار
تن کے اس دربار کا من ہے چوکیدار
کل یہ ہی بن جائے گی اسی گلے کی پھانس
آج ہوا انمول ہے کھینچ زیادہ سانس
مچھلی جوگن ہو گئی چھوڑ دیا ہے تال
ہم نے انجانے کبھی پھینک دیا تھا جال
تو تو فقط زمین ہے پھر بھی ترا قصور
گر املی کے بیج سے نکلا نہیں کھجور
سدھ بدھ کھو گئی بانوری جس دن کھلا فریب
ندیا میں گاگر ملی پنگھٹ پر پازیب
آنکھوں میں پانی بھرا پانی میں گرداب
خواب ہتھیلی پر لیے کھڑا رہا تالاب
پیروں سے کمزور تھی پھر بھی پلٹا کھیل
لپٹ لپٹ کر پیڑ سے اوپر چڑھ گئی بیل
خود کو چھوٹا کر لیا خود میں خود کو بھینچ
بالآخر چرخاب نے لیا سمندر کھینچ
گھس گئی ہڈی ریڑھ کی جھکنے لگا شریر
لوچ کھا گئی چھت مری بکھر گئے شہتیر
شرابور پلکیں ہوئیں کاجل گیا ہے پھیل
اشکوں کے سیلاب میں بکھر گئی کھپریل
باہر کی اک ٹھیس بھی پیدا کر دے کھوٹ
انڈا جیون پائے جب ہو اندر سے چوٹ
اپنوں کو جب ہم نے پرکھا کھل گئی سب کی پول
جگر کلیجہ تھر تھر کانپے جیبھ نہ کھائی جھول
کوزہ گر کی انگلیاں روح مری مڑھ جائیں
ہولے سے تن کو چھوئیں اندر تک گڑھ جائیں