Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Dilawar Figar's Photo'

دلاور فگار

1929 - 1998 | کراچی, پاکستان

مشہور اور مقبول مزاح نگار

مشہور اور مقبول مزاح نگار

دلاور فگار کے اشعار

210
Favorite

باعتبار

عورت کو چاہئے کہ عدالت کا رخ کرے

جب آدمی کو صرف خدا کا خیال ہو

وہاں جو لوگ اناڑی ہیں وقت کاٹتے ہیں

یہاں بھی کچھ متشاعر دماغ چاٹتے ہیں

آ کے بزم شعر میں شرط وفا پوری تو کر

جتنا کھانا کھا گیا ہے اتنی مزدوری تو کر

پایان کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ

میں نے کہا حضور تو بولے کہ شکریہ

جوتے کے انتخاب کو مسجد میں جب گئے

وہ جوتیاں پڑیں کہ خدا یاد آ گیا

مردماں بسیار ہوں گے اور جائے قبر تنگ

قبر کی تقسیم پر مردوں میں چھڑ جائے گی جنگ

پوچھی جو اس کی وجہ تو کہنے لگے جناب

سردی بہت شدید تھی مصرعہ سکڑ گیا

کہیں گولی لکھا ہے اور کہیں مار

یہ گولی مار لکھا جا رہا ہے

غزل چرا کے کبھی خدمت ادب کر لی

پکڑ گئے تو وہیں معذرت طلب کر لی

سنا یہ ہے کہ وہ صوفی بھی تھا ولی بھی تھا

اب اس کے بعد تو پیغمبری کا درجہ ہے

ایک شادی تو ٹھیک ہے لیکن

ایک دو تین چار حد کر دی

ہمارا دوست طفیلی بھی ہے بڑا شاعر

اگرچہ ایک بڑے آدمی کا چمچہ ہے

ایک روایت یہ بھی ہے وہ بیاہ کے قابل نہ تھا

ورنہ لیلیٰ کو بھگا لینا کوئی مشکل نہ تھا

سیاہ زلف کو جو بن سنور کے دیکھتے ہیں

سفید بال کہاں اپنے سر کے دیکھتے ہیں

کل چودھویں کی رات تھی آباد تھا کمرا ترا

ہوتی رہی دھن تاک دھن بجتا رہا طبلہ ترا

اک روایت یہ بھی ہے لیلیٰ کی ماں تھی بد چلن

وہ تو بننا چاہتی تھی خود ہی مجنوں کی دلہن

اغوا ہی کرنا تھا تو کوئی کم تھے لکھ پتی

کس نے کہا تھا روڈ سے کنگلا اٹھائیے

سوچا تھا آدمی کا قصیدہ لکھیں گے ہم

مطلع کہا ہی تھا کہ گدھا یاد آ گیا

اس کا کیا ہوگا یہ جو عنوان آدھا رہ گیا

یہ بھی لیتے جائیں جو سامان آدھا رہ گیا

میں بھی تھا حاضر بزم میں جب تو نے دیکھا ہی نہیں

میں بھی اٹھا کر چل دیا بالکل نیا جوتا ترا

ایک اچھا خاصا مرد زنانے میں گھس پڑا

گویا کہ ایک چور خزانے میں گھس پڑا

غزل کی شکل بدل دی ہے آپریشن سے

سخن وری ہے اگر یہ تو سرجری کیا ہے

بس میں بیٹھی ہے مرے پاس جو اک زہرہ جبیں

مرد نکلے گی اگر زلف منڈا دی جائے

یہ لسٹ چوروں کی وقتی و اتفاقی ہے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

موت بھی اس شخص تک آتے ہوئے گھبرائے گی

جس کے سر پر نزع میں ڈفلی بجائی جائے گی

صرف زندوں ہی کو فکر عیش و آسائش نہیں

اب تو اس دنیا میں مردوں کی بھی گنجائش نہیں

اختلاج قلب کی واحد دوا ہے آج کل

بیکلؔ اتساہی سے سنئے اے مری جان غزل

اس لیے ہم نے بنایا ہے یہ مینی فیسٹو

''من ترا احمق بگویم تو مرا احمق بگو''

اس کو کہتے ہیں خدا کی دین یہ ہوتی ہے دین

اب سول سرجن بنے گا جانشین تان سین

میں نے کہا کلام روشؔ لا جواب ہے

کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے

وصل کی رات جو محبوب کہے گڈ نائٹ

قاعدہ یہ ہے کہ انگلش میں دعا دی جائے

کتنے غالب تھے جو پیدا ہوئے اور مر بھی گئے

قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک

خودی بلند ہو بے شک یہی تھی میری رائے

یہ کب کہا تھا کہ قوال اس میں ہاتھ لگائے

خوش قسمتی سے ہم ہیں سوار اس جہاز پر

ساحل پہ جس جہاز کا کپتان رہ گیا

شاعر تھے بند ایک سنما کے حال میں

پنچھی پھنسے ہوئے تھے شکاری کے جال میں

آپ کو مرنا ہے تو پہلے سے نوٹس دیجیے

یعنی جرم انتقال ناگہاں مت کیجیے

تمہارے گھر میں میں کودا ضرور ہوں لیکن

وصال اصال کی نیت سے میں نہیں آیا

ہر بات پر جو کہتا رہا میں بجا بجا

اس نے کہا کہ یوں ہی مسلسل بجا کرو

قبض کے مارے ہوئے بیمار کو کر دو خبر

ایک ٹھمری میں ہے اطریفل زمانی کا اثر

یوں بھی اک دفتر نے مجھ پہ خوف طاری کر دیا

بل رقیبوں کا تھا میرے نام جاری کر دیا

جاں دینے کو پہنچے تھے سبھی تیری گلی میں

بھاگے تو کسی نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا

جلدی میں منہ سے لفظ جمالو نکل گیا

کہنا یہ چاہتا تھا کہ تم مہ جمال ہو

افسوس کہ اک شخص کو دل دینے سے پہلے

مٹکے کی طرح ٹھونک بجا کر نہیں دیکھا

سچ بات تو یہی ہے وہ اب نیک ہو کہ بد

ملکوں کی سرحدوں کو نہیں مانتے اسدؔ

وہاں ریاض مسلسل سے کام چلتا ہے

یہاں گلے کے سہارے کلام چلتا ہے

حد ہو گئی کج فہمی و آشفتہ سری کی

بلبل کو برا کہتا ہے کوا مرے آگے

باقی ایسے لوگ بھی رحمت ہیں اپنے دور پر

جو کرپشن کے لئے انفٹ ہیں طبی طور پر

نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ کچھ نہ سہی

شب برات پٹاخہ تو چھوڑ سکتا ہوں

نہیں کرتے ہیں بے رشوت لیے کام

یہی ہے مجنوؤں کا آج دستور

اس سیٹھ کا بھیجا ذرا جلدی سے نکالو

اک میٹ فرائی کرو اک انڈا ابالو

Recitation

بولیے