جاوید صبا
غزل 13
نظم 1
اشعار 20
وحشت کا یہ عالم کہ پس چاک گریباں
رنجش ہے بہاروں سے الجھتے ہیں خزاں سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہمیں کسی نے کبھی آب دیدہ دیکھا ہے
اب آپ سوچیے کتنا شدید دکھ ہوگا
تشریح
اس شعر کا جو پہلا مفہوم ابھر کر سامنے آتا ہے اس کے مطابق پہلا مصرع سوالیہ ہے۔ کہ ہم پر ہزاروں ستم گزرے لیکن کیا کبھی کسی نے ہم کو ان پر روتے چیختے دیکھا؟ لہذا اب اگر ہم رو پڑے ہیں تو ہمیں دیکھنے والے خود اندازہ لگا لیں کہ کس شدت کا دکھ ہمیں ملا ہے کہ آج ہم خود پر ضبط نہ رکھ پائے۔ اس شعر کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ تمام مضمون کا لب لباب شاعر کے بالآخر رونے پر منتج ہے لیکن تمام شعر میں رونے کا ذکر موجود نہیں۔
اب ذرا پہلے مصرعے کو سوالیہ کی بجائے مثبت سمجھا جائے تو معانی کا ایک اور جہان سامنے آتا ہے۔ یعنی ہم تو اکثر روتے رہتے ہیں لیکن ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہمیں کسی نے روتے ہوئے دیکھ لیا۔ نیچے والے مصرعے میں شاعر اپنے مخاطبین کو دعوت دے رہا ہے کہ آپ یہ بات خود پر رکھ کر سوچیے اور پھر بتائیے کہ آپ کو کتنا شدید دکھ ہو گا کہ جس گریے کو آپ نے ہمیشہ پوشیدہ رکھا تھا، آج کسی کو اس کی خبر ہو گئی۔
اب ایک اور زاویے سے اس شعر کو دیکھتے ہیں۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ ہم اکثر چھپ چھپا کر روتے تھے اور دنیا کو کبھی اس کی خبر نہ ہوئی۔ لیکن ایک بار اتنا شدید غم ملا کہ ہم یہ بھول ہی گئے کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یعنی ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ اب اس بات سے خود اندازہ کر لیجیے کہ ہمیں کتنا بڑا دکھ ملا ہو گا۔ شعر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ غم کی تفصیل بتائے بغیر قاری کو اس غم کی شدت کا احساس دلایا گیا ہے۔
ایک اور خاص بات کہ دوسرے مصرعے میں موجود اب اور آپ پر باری باری زور دے کر شعر پڑھیے تو یہ شعر آپ کو دو الگ الگ مناظر کی سیر کرائے گا۔
یقینا درج بالا شعر کی مزید پرتیں بھی آپ لوگوں کے ذہن میں آ رہی ہوں گی اور ممکن ہے جاوید صبا صاحب اس شعر کی یکسر مختلف توضیح لیے بیٹھے ہوں۔
افضل خان