Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Manzar Lakhnavi's Photo'

منظر لکھنوی

- 1965

مشہور کلاسیکی شاعر، مضمون نگار، خوش نویس، اودھ اخبار کے مدیر بھی رہے

مشہور کلاسیکی شاعر، مضمون نگار، خوش نویس، اودھ اخبار کے مدیر بھی رہے

منظر لکھنوی کے اشعار

6.5K
Favorite

باعتبار

گھر کو چھوڑا ہے خدا جانے کہاں جانے کو

اب سمجھ لیجئے ٹوٹا ہوا تارا مجھ کو

یہ انسان نادیدہ الفت کا مارا

خدا جانے کس کس کو سجدہ کرے گا

مجھے مٹا کے وہ یوں بیٹھے مسکراتے ہیں

کسی سے جیسے کوئی نیک کام ہو جائے

جمع ہم کرتے گئے چن چن کے تنکے باغ میں

اور نہ جانے کس کا کس کا آشیاں بنتا گیا

ہم وحشیوں کا مسکن کیا پوچھتا ہے ظالم

صحرا ہے تو صحرا ہے زنداں ہے تو زنداں ہے

مری رات کیوں کر کٹے گی الٰہی

مجھے دن کو تارے نظر آ رہے ہیں

کس کا کوچہ ہے آ گیا ہوں کہاں

یاں تو کچھ نیند آئی جاتی ہے

بے خود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے

صبح سے شمع جلا دی ترے سودائی نے

دنیا کو دین دین کو دنیا کریں گے ہم

تیرے بنیں گے ہم تجھے اپنا کریں گے ہم

چنے تھے پھول مقدر سے بن گئے کانٹے

بہار ہائے ہمارے لئے بہار نہیں

دو گھڑی دل کے بہلانے کا سہارا بھی گیا

لیجئے آج تصور میں بھی تنہائی ہے

کبھی تو اپنا سمجھ کر جواب دے ڈالو

بدل بدل کے صدائیں پکارتا ہوں میں

ہنسی آنے کی بات ہے ہنس رہا ہوں

مجھے لوگ دیوانہ فرما رہے ہیں

واعظ سے نہ پوچھوں گا کبھی مسئلۂ عشق

میں خوب سمجھتا ہوں جو ارشاد کریں گے

اب اتنا عقل سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں

گلوں کے شکوے ستاروں سے کہہ رہا ہوں میں

ایک موسیٰ تھے کہ ان کا ذکر ہر محفل میں ہے

اور اک میں ہوں کہ اب تک میرے دل کی دل میں ہے

گلوں سے کھیل رہے ہیں نسیم کے جھونکے

قفس میں بیٹھا ہوا ہاتھ مل رہا ہوں میں

کیجیے کیوں مردہ ارمانوں سے چھیڑ

سونے والوں کو تو سونے دیجیے

محبت تو ہم نے بھی کی اور بہت کی

مگر حسن کو عشق کرنا نہ آیا

کھیلنا آگ کے شعلوں سے کچھ آسان نہیں

بس یہ اک بات خدا داد ہے پروانے میں

آپ کی یاد میں روؤں بھی نہ میں راتوں کو

ہوں تو مجبور مگر اتنا بھی مجبور نہیں

ہوئی دیوانگی اس درجہ مشہور جہاں میری

جہاں دو آدمی بھی ہیں چھڑی ہے داستاں میری

ایک نعمت ترے مہجور کے ہاتھ آئی ہے

عید کا چاند چراغ شب تنہائی ہے

کم سنی کیا کم تھی اس پر قہر ہے شکی مزاج

اپنا ناوک میرے دل سے کھینچ کر دیکھا کئے

پھر منہ سے ارے کہہ کر پیمانہ گرا دیجے

پھر توڑیئے دل میرا پھر لیجئے انگڑائی

اک زمانہ ہو رہا ہے عشق میں ہم سے خلاف

کس کے کس کے دل میں دل ڈالیں الٰہی کیا کریں

ظلم پر ظلم آ گئے غالب

آبلے آبلوں کو چھوڑ گئے

شب ہجر یوں دل کو بہلا رہے ہیں

کہ دن بھر کی بیتی کو دہرا رہے ہیں

چھڑی ہے آج مجھ سے آسماں سے

ذرا ہٹ جائیے گا درمیاں سے

مٹانے والے ہمارا ہی گھر مٹانا تھا

چمن میں ایک سے ایک اچھا آشیانا تھا

وحشت وحشت تری تفریح کا ساماں ہے ابھی

کہ گریباں کا مرے نام گریباں ہے ابھی

مرا بیڑی پہننا تھا کہ دنیا کی ہوا بدلی

زمانے کی بہاریں پھٹ پڑیں آ کے گلستاں پر

نہ دل میں لہو ہے نہ آنکھوں میں آنسو

غموں کی نچوڑی ہوئی آستیں ہوں

ہیں سو طریقے اور بھی اے بے قرار دل

اظہار شکوہ شکوے کے انداز میں نہ ہو

میں تنکے چنتا پھرتا ہوں صیاد تیلیاں

تیار ہو رہا ہے قفس آشیاں کے ساتھ

اپنی بیتی نہ کہوں تیری کہانی نہ کہوں

پھر مزہ کاہے سے پیدا کروں افسانے میں

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

اور جو دل ہی نہ ہو تو کیا کیجے

جگمگاتی تری آنکھوں کی قسم فرقت میں

بڑے دکھ دیتی ہے یہ تاروں بھری رات مجھے

اہل محشر دیکھ لوں قاتل کو تو پہچان لوں

بھولی بھالی شکل تھی اور کچھ بھلا سا نام تھا

وہ تو کہئے آپ کی الفت میں دل بہلا رہا

ورنہ دنیا چار دن بھی رہنے کے قابل نہ تھی

مجھے تو بخشئے اور جینے دیجے

مبارک آپ ہی کو آپ کا دل

تفریق حسن و عشق کے انداز میں نہ ہو

لفظوں میں فرق ہو مگر آواز میں نہ ہو

غم میں کچھ غم کا مشغلا کیجے

درد کی درد سے دوا کیجے

کچھ ابر کو بھی ضد ہے منظرؔ مری توبہ سے

جب عہد کیا میں نے گھنگھور گھٹا چھائی

جانے والے جا خدا حافظ مگر یہ سوچ لے

کچھ سے کچھ ہو جائے گی دیوانگی تیرے بغیر

مانگنے پر کیا نہ دے گا طاقت صبر و سکون

جس نے بے مانگے عطا کر دی پریشانی مجھے

مدتوں بعد کبھی اے نظر آنے والے

عید کا چاند نہ دیکھا تری صورت دیکھی

برا ہو عشق کا سب کچھ سمجھ رہا ہوں میں

بنا رہا ہے کوئی بن رہا ہوں دیوانہ

سادہ ورق جواب میں اک لا کے دے گیا

دیوانہ جانتا ہے مرا نامہ بر مجھے

دامن و جیب و گریباں کا نہیں کوئی ملال

غم یہ ہے دست جنوں کل کے لئے کام نہیں

Recitation

بولیے