سہیل عظیم آبادی
اشعار 19
پتھر تو ہزاروں نے مارے تھے مجھے لیکن
جو دل پہ لگا آ کر اک دوست نے مارا ہے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
تیری بے پردگی ہی حسن کا پردہ نکلی
کام کچھ کر گئی ہر حال میں غفلت میری
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
کیا غم ہے جو ہم گمنام رہے تم تو نہ مگر بدنام ہوئے
اچھا ہے کہ میرے مرنے پر دنیا میں مرا ماتم نہ ہوا
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
کوئی محفل سے اٹھ کر جا رہا ہے
سنبھل اے دل برا وقت آ رہا ہے
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے
وہ راتیں کیف میں ڈوبی وہ تیری پیار کی باتیں
نکل پڑتے ہیں آنسو جب کبھی ہم یاد کرتے ہیں
- پسندیدہ انتخاب میں شامل کیجیے
-
شیئر کیجیے