سید یوسف علی خاں ناظم کے اشعار
یہ کس زہرہ جبیں کی انجمن میں آمد آمد ہے
بچھایا ہے قمر نے چاندنی کا فرش محفل میں
ہے عید میکدے کو چلو دیکھتا ہے کون
شہد و شکر پہ ٹوٹ پڑے روزہ دار آج
وہی معبود ہے ناظمؔ جو ہے محبوب اپنا
کام کچھ ہم کو نہ مسجد سے نہ بت خانے سے
عید کے دن جائیے کیوں عید گاہ
جب کہ در مے کدہ وا ہو گیا
ساحل پر آ کے لگتی ہے ٹکر سفینے کو
ہجراں سے وصل میں ہے سوا دل کی احتیاط
آ گیا دھیان میں مضموں تری یکتائی کا
آج مطلع ہوا مصرع مری تنہائی کا
سنبھال واعظ زبان اپنی خدا سے ڈرا اک ذرا حیا کر
بتوں کی غیبت خدا کے گھر میں خدا خدا کر خدا خدا کر
بوسۂ عارض مجھے دیتے ہوئے ڈرتا ہے کیوں
لوں گا کیا نوک زباں سے تیرے رخ کا تل اٹھا
افسانۂ مجنوں سے نہیں کم مرا قصہ
اس بات کو جانے دو کہ مشہور نہیں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب ترا نام سنا تو نظر آیا گویا
کس سے کہئے کہ تجھے کان سے ہم دیکھتے ہیں
نہ بذلہ سنج نہ شاعر نہ شوخ طبع رقیب
دیا ہے آپ نے خلوت میں اپنی بار کسے
روزہ رکھتا ہوں صبوحی پی کے ہنگام سحر
شام کو مسجد میں ہوتا ہوں جماعت کا شریک
کہتے ہو سب کہ تجھ سے خفا ہو گیا ہے یار
یہ بھی کوئی بتاؤ کہ کس بات پر ہوا
واعظ و شیخ سبھی خوب ہیں کیا بتلاؤں
میں نے میخانے سے کس کس کو نکلتے دیکھا
جنبش ابرو کو ہے لیکن نہیں عاشق پہ نگاہ
تم کماں کیوں لیے پھرتے ہو اگر تیر نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بوس و کنار کے لئے یہ سب فریب ہیں
اظہار پاک بازی و ذوق نظر غلط
پرسش کو اگر ہونٹ تمہارے نہیں ہلتے
کیا قتل کو بھی ہاتھ تمہارا نہیں اٹھتا
عید ہے ہم نے بھی جانا کہ نہ ہوتی گر عید
مے فروش آج در مے کدہ کیوں وا کرتا
کیا کھائیں ہم وفا میں اب ایمان کی قسم
جب تار سبحہ رشتۂ زنار ہو چکا
بے دیے لے اڑا کبوتر خط
یوں پہنچتا ہے اوپر اوپر خط
بھلا کیا طعنہ دوں زہاد کو زہد ریائی کا
پڑھی ہے میں نے مسجد میں نماز بے وضو برسوں
شاعر بنے ندیم بنے قصہ خواں بنے
پائی نہ ان کے دل میں مگر جا کسی طرح
شبستاں میں رہو باغوں میں کھیلو مجھ سے کیوں پوچھو
کہ راتیں کس طرح کٹتی ہیں دن کیسے گزرتے ہیں
لڑ تو آیا اس سے لیکن ہم نشیں
دل میں کہتا ہوں کہ ناظمؔ کیا کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مٹھی میں کیا دھری تھی کہ چپکے سے سونپ دی
جان عزیز پیشکش نامہ بر غلط
خریداری ہے شہد و شیر و قصر و حور و غلماں کی
غم دیں بھی اگر سمجھو تو اک دھندا ہے دنیا کا
چلے ہو دشت کو ناظمؔ اگر ملے مجنوں
ذرا ہماری طرف سے بھی پیار کر لینا
کم سمجھتے نہیں ہم خلد سے میخانے کو
دیدۂ حور کہا چاہئے پیمانے کو
ہے جلوہ فروشی کی دکاں جو یہ اب اسی نے
دیوار میں کھڑکی سر بازار نکالی
کہتے ہیں چھپ کے رات کو پیتا ہے روز مے
واعظ سے راہ کیجیے پیدا کسی طرح
ناظمؔ یہ انتظام رعایت ہے نام کی
میں مبتلا نہیں ہوس ملک و مال کا
جاتی نہیں ہے سعی رہ عاشقی میں پیش
جو تھک کے رہ گیا وہی ثابت قدم ہوا
ایک ہے جب مرجع اسلام و کفر
فرق کیسا سبحہ و زنار کا
ہے رشتہ ایک پھر یہ کشاکش نہ چاہئے
اچھا نہیں ہے سبحہ کا زنار سے بگاڑ
کیا میرے کام سے ہے روائی کو دشمنی
کشتی مری کھلی تھی کہ دریا ٹھہر گیا
پھونک دو یاں گر خس و خاشاک ہیں
دور کیوں پھینکو ہمیں گلزار سے
گھر کی ویرانی کو کیا روؤں کہ یہ پہلے سی
تنگ اتنا ہے کہ گنجائش تعمیر نہیں
اس بت کا کوچہ مسجد جامع نہیں ہے شیخ
اٹھئے اور اپنا یاں سے مصلیٰ اٹھائیے
چاہوں کہ حال وحشت دل کچھ رقم کروں
بھاگیں حروف وقت نگارش قلم سے دور
محتاج نہیں قافلہ آواز درا کا
سیدھی ہے رہ بت کدہ احسان خدا کا
جب گزرتی ہے شب ہجر میں جی اٹھتا ہوں
عہدہ خورشید نے پایا ہے مسیحائی کا
ہے دور فلک ضعف میں پیش نظر اپنے
کس وقت ہم اٹھتے ہیں کہ چکر نہیں آتا
برسوں ڈھونڈا کئے ہم دیر و حرم میں لیکن
کہیں پایا نہ پتا اس بت ہرجائی کا
رونے نے مرے سیکڑوں گھر ڈھا دیے لیکن
کیا راہ ترے کوچے کی ہموار نکالی
کفر و ایماں سے ہے کیا بحث اک تمنا چاہئے
ہاتھ میں تسبیح ہو یا دوش پر زنار ہو
حق یہ ہے کہ کعبے کی بنا بھی نہ پڑی تھی
ہیں جب سے در بت کدہ پر خاک نشیں ہم
بند محرم کے وہ کھلواتے ہیں ہم سے بیشتر
آج کل سونے کی چڑیا ہے ہمارے ہاتھ میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ