ولی محمد ولی کے اشعار
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت
جا تماشا دیکھ اس رخسار کا
-
موضوع : رخسار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یاد کرنا ہر گھڑی تجھ یار کا
ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دل عشاق کیوں نہ ہو روشن
جب خیال صنم چراغ ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پی کے بیراگ کی اداسی سوں
دل پہ میرے سدا اداسی ہے
-
موضوع : بیراگ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا
شاید کہ مرا حال اسے یاد نہ آیا
کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ
دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا
ہے مطالعہ مطلع انوار کا
-
موضوع : رخسار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آج تیری بھواں نے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
راہ مضمون تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن
تیرے لب کے حقوق ہیں مجھ پر
کیوں بھلا دوں میں دل سے حق نمک
اے نور جان و دیدہ ترے انتظار میں
مدت ہوئی پلک سوں پلک آشنا نئیں
کشن کی گوپیاں کی نئیں ہے یہ نسل
رہیں سب گوپیاں وہ نقل یہ اصل
ہر ذرہ اس کی چشم میں لبریز نور ہے
دیکھا ہے جس نے حسن تجلی بہار کا
آرزوئے چشمۂ کوثر نئیں
تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جامہ زیبوں کو کیوں تجوں کہ مجھے
گھیر رکھتا ہے دور دامن کا
رشک سوں تجھ لباں کی سرخی پر
جگر لالہ داغ داغ ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آج تجھ یاد نے اے دلبر شیریں حرکات
آہ کو دل کے اپر تیشۂ فرہاد کیا
نہ ہو کیوں شور دل کی بانسلی میں
ملاحت کا سلونا کان پہنچا
چھپا ہوں میں صدائے بانسلی میں
کہ تا جانوں پری رو کی گلی میں
مرے دل کی تجلی کیوں رہے پوشیدہ مجلس میں
ضعیفی سوں ہوا ہے پردۂ فانوس تن میرا
تشریح
ولیؔ کے لیے اگرچہ اس شعر کا مضمون نیا نہ تھا مگر ’’پردۂ فانوس‘‘ کی ترکیب نئی ضرور تھی۔ اگرچہ یہ ترکیب ہمیں سراجؔ اورنگ آبادی کے یہاں بھی نظر آتی ہےمگر چونکہ سراجؔ کا زمانہ ولیؔ سے ذرا آگے کا ہے اس لیے اس بات کا زیاہ امکان ہے کہ ولیؔ کو اس قدر استعاراتی اور محاکاتی تخیل سے پیچیدہ پیکر تخلیق کرنے والی ترکیب کو برتنے میں اولیت حاصل ہے۔ مضمون کی مناسبت سے سراجؔ کے یہ دو شعر اگرچہ ولیؔ کے شعر سے قدرے مماثلت رکھتے ہیں تاہم ولیؔ کے یہاں جو خیال کی تجریدی شکل بن گئی ہے وہ سراجؔ کے اشعار میں تجسیم سے آگے نہ بڑھ سکی ہے۔ سراجؔ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں: ؎
شمعِ جنوں دل میں جلایا سراجؔ
کام نہیں پردۂ فانوس کا
سراجؔ اس شعلہ رو کی تنگ پوشی کوں کہاں پہنچے
کہ ہے جامہ بدن میں شمع کے فانوس کا ڈھیلا
پہلے شعر میں مضمون اکہرا تو ہے ہی دوسرے شعر میں جنسی تلازمے نے تجسیم کی صورت اختیار تو کی ہے البتہ تجرید ی شکل صورت پذیر نہ ہوسکی ہے۔ ولیؔ کے شعر میں دل کی تجّلی، پوشیدہ، مجلس، ضعیفی، پردۂ فانوس اور تن کی مانسبتوں سےجو غیر مرئی محاکاتی فضا تیار ہوئی ہے اس میں کسی بھی طرح اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ گویا ایک پیچیدہ شعری تجربہ پردۂ فانوس کی ترکیب سے ادراکی بن گیا۔ مضمون کی مناسبت سے صائبؔ اور حزیںؔ کے اشعار کا حوالہ اس لیے ضروری ہے کہ جن رعایتوں سے انہوں نے مناسبتیں پیدا کرکے پردۂ فانوس کی ترکیب کے لیے تلازمے خلاقانہ شان کے ساتھ برتے ہیںان کو نظر میں رکھ کر ولیؔ کے یہاں نہ مضمون اور نہ تشکیلی سطح پر تہی دامنی کا احساس ہوتا ہے: ؎
غافل ز بیقراریٔ عشاق نیست حسن
فانوس پردہ داریٔ پروانہ می کنند
(صائب)
در سینہ حزیں، آہ من سوختہ پیداست
چوں شمع کہ درپردۂ فانوس نہاں نیست
( شیخ علی حزیں)
ولیؔ کی بات چھوڑیئے، سبکِ ہندی کو بے اعتنائی کی نظر سے دیکھنے والے اہل فارس غالبؔ کے اس شعر کے آگےہیچ دکھائی دیتے ہیں: ؎
نیم رنگی ہائے شمع محفل خوباں سے ہے
پیچکِ مہ ، صرفِ چاکِ پردۂ فانوس و بس
زیرِ بحث شعر میں ’’ضعیفی‘‘ وہ تلازمہ ہے جس پر پورے مضمون کی بنیاد رکھی کئی ہے اور اسی کی مناسبت سے ولیؔ نے پردۂ فانوس جیسی ترکیب استعمال کرنے کا جواز پیدا کیا ہے۔ ضعیفی/ضعف یا لاغری کے تلازمات سے قدما نے مضمون آفرینی کے جوہر دکھائے ہیں۔ ولیؔ نے ضعیفی کے تلازمے سے جو مبالغہ قائم کیا ہے وہ اگرچہ فارسی شعرا میں عام تھا مگر ولیؔ نے اپنے تخیل کی قدرت سے معنی کی کیفیت میں جان ڈال دی ہے۔ ذوقؔ کے یہاں لاغری کے تلازمے سے عمدہ مضمون پیدا ہوا ہے: ؎
ہوائے کوئے جاناں لے اڑے اس کو تعجب کیا
تنِ لاغر میں ہے جاں اس طرح جس طرح بُو خس میں
مصحفیؔ کے اس شعرمیں کمال کا مبالغہ ہے: ؎
کانٹا ہوا ہوں سوکھ کے یاں تک کہ اب سنار
کانٹے میں تولتے ہیں مرے استخواں کا بوجھ
اب ناسخؔ کی طباعی لاحظہ فرمائیں:؎
لاغر ایسا ہوں کہ میرے لیے
ہے ہر اک خار، سایہ دار درخت
ان تینوں اشعار میں کوئی شاعر مبالغے سے آگے نہیں بڑھا ہے۔ کسی تلازمے سے مبالغہ پیدا کرنا اگرچہ اپنی جگہ پر کمال ہے مگر غلو پیدا کرنے کے لیے جس تجریدی تخیل کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب کے حصّے میں نہیں آتا۔ غالب کو یہ امیتاز حاصل ہے۔ غضب کا شعر ہے: ؎
لاغر اتنا ہوں کہ گر تُو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے
غالبؔ مبالغہ، تبلیغ اور اغراق کی حدیں پار کرکے سیدھا مبالغے تک پہنچ گئے۔ یعنی کس خوبصورتی سے کہا ہے کہ میں اس قدر لاغر ہوا ہوں کہ میرا وجود ہی ختم ہوگیا ہے اور اگر تم مجھے بزم میں آنے کی اجازت دوگے تو تمہیں دوسروں کے سامنے میری موجودگی کے تعلق سے کوئی خفت نہیں اٹھانا پڑے گی ۔
کیونکہ ضعیفی کی مناسبت سے ولیؔ نے پردۂ فانوس کی ترکیب استعمال کرکے مضمون پیدا کیا ہے لہٰذا س کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ پردۂ فانوس سے مراد ، فانوس میں شمع کے گرد بنایا گیا محفظہ ہے جو شمع کو ہوا کے جھونکوں سے محفوظ رکھتا ہے اور عام طور پر شیشے کا بنا ہوتا ہےلیکن کئی بار لکڑی اور دوسری اجناس سے بھی بنایا جاتا ہے۔ اس سے شمع کی لو کی طرف کشش کی وجہ سے اڑنے والے پروانوں کو بھی روکا جاتا ہے۔
پہلے مصرعے میںدعویٰ ہے جبکہ دوسرے میں دلیل۔ شعر کے پہلے مصرعے میں دعویٰ پیش کرکے دوسرے مصرعے میں اس کی دلیل دینے کی روایت فارسی کے شعرا میں ابتدا سے ہی ہے۔ مثال کے طور پر حافظؔ کا یہ شعر لیجیے: ؎
مرا دل منزلِ جاناں چہ امن و عیش چوں ہر دم
جرس فریاد میں دارد کہ بر بندید محملہا
فارسی اور اردو شعرا نے خاص کر اس طریقے سے قصیدوں میں عمدہ مضامین پیدا کیے ہیں۔ زیرِ بحث شعر میںمتکلم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرے دل کی روشنی/نور یا جلوہ کیوں مجلس میں ڈھکا ہوا رہے۔ اس دعویٰ کی دلیل دوسرے مصرعے میں پیش کی ہے کہ ضعیفی سے میرا جسم فانوس کا پردہ ہوا ہے۔ شعر کی ترکیب کے اعتبار سے دعویٰ کو نہیں بلکہ دلیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔متکلم کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کا تن ضعیفی کی وجہ سے فانوس کا پردہ بن چکا ہے۔ یعنی ضعیفی سے اس کا تن اس قدر پتلا ہوگیا ہے کہ دل کا نور پوشیدہ نہیں رہ سکتا بلکہ تن سے چھن کر باہر آئے گا۔
شعر میں کیوں کا لفظ بہت اہم ہے۔ اگر کیوں کو محض کلمۂ استہفام کے طور پر لیتے ہیں تو شعر میں وہ چونکا دینے والی بات پیدا نہیں ہوگی جس کا التزام ولیؔ نے رکھاہے۔ دراصل یہاں کیوں استہفامِ انکاری کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے غالبؔ کے اس شعر میں ہوا ہے: ؎
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
یا اس شعر میں : ؎
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
الغرض شعر کے مفہوم کی صورت یہ بنتی ہے کہ (جبکہ ) ضعیفی سے میرا جسم پردۂ فانوس بن گیا ہے کہ جس کے پار شمع کی روشنی جاتی ہے اس لیے میرے دل کی تجلی مجلس سے ہرگز پوشیدہ نہیں رہے گی۔ جسم کی جلد کےباریک ہونے کو پردۂ فانوس سے تشبیہ دینا ولیؔ کی طباعی کا کمال ہے۔ شعر کے بیانیہ میں عارفانہ تجربے کی تجسیم کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
شفق سوپوری