شعر پر اشعار
شعرپر یا شاعری پرکی
جانے والی شاعری کئی معنی میں اہم ہے ۔ یہ شاعری ہمیں شعر سازی کی ترکیبوں اورفن کی باریکیوں سے بھی آگاہ کرتی ہے اوربعض اوقات شاعری کے مقاصد اوراس سےمتعلق بہت سےمعاملات پرروشنی ڈالتی ہے۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
-
موضوع : رسوائی
شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
-
موضوع : مشہور اشعار
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے
مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے
شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ
سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے
چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ
ہزاروں شعر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ مرا زندہ نہیں رہتا
کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل کچھ شعر
اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا
-
موضوعات : مشہور اشعاراور 1 مزید
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
-
موضوع : مشہور اشعار
ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا
یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا
وہی رہ جاتے ہیں زبانوں پر
شعر جو انتخاب ہوتے ہیں
میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا
-
موضوعات : اردواور 1 مزید
سادہ سمجھو نہ انہیں رہنے دو دیواں میں امیرؔ
یہی اشعار زبانوں پہ ہیں رہنے والے
لوگ کہتے ہیں کہ فن شاعری منحوس ہے
شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہو گیا
زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی
سو شعر ایک جلسے میں کہتے تھے ہم امیرؔ
جب تک نہ شعر کہنے کا ہم کو شعور تھا
اس کو سمجھو نہ خط نفس حفیظؔ
اور ہی کچھ ہے شاعری سے غرض
یہ ترے اشعار تیری معنوی اولاد ہیں
اپنے بچے بیچنا اقبال ساجدؔ چھوڑ دے
اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موج زندگی
جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھلا کہ فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں
بھوک تخلیق کا ٹیلنٹ بڑھا دیتی ہے
پیٹ خالی ہو تو ہم شعر نیا کہتے ہیں
راہ مضمون تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن
اونے پونے غزلیں بیچیں نظموں کا بیوپار کیا
دیکھو ہم نے پیٹ کی خاطر کیا کیا کاروبار کیا
اس کا تو ایک لفظ بھی ہم کو نہیں ہے یاد
کل رات ایک شعر کہا تھا جو خواب میں
مجھ کو مرنے نہ دیا شعر اتارے مجھ پر
عشق نے بس یہ مرے ساتھ رعایت کی تھی
-
موضوع : عشق
کیفؔ یوں آغوش فن میں ذہن کو نیند آ گئی
جیسے ماں کی گود میں بچہ سسک کر سو گیا
حرف کو برگ نوا دیتا ہوں
یوں مرے پاس ہنر کچھ بھی نہیں
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے یوں ہے
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت
مرے انگ انگ میں بس گئی
یہ جو شاعری ہے یہ کون ہے
ہمارے شعر کو سن کر سکوت خوب نہیں
بیان کیجئے اس میں جو کچھ تأمل ہو
شاعری میں انفس و آفاق مبہم ہیں ابھی
استعارہ ہی حقیقت میں خدا سا خواب ہے