تمام
تعارف
غزل343
نظم2
شعر246
ای-کتاب148
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 31
آڈیو 47
ویڈیو 46
مرثیہ34
قطعہ27
رباعی104
بلاگ8
دیگر
کلیات1895
قصیدہ8
نعت1
سلام7
منقبت15
مخمس4
رباعی مستزاد1
خود نوشت سوانح5
مثنوی37
واسوخت4
تضمین4
ترکیب بند2
میر تقی میر
غزل 343
نظم 2
اشعار 246
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
تشریح
میر کے شعر گویا غم ہستی کی تصویر نظر آتے ہیں یا یوں کہیے کہ غم ہستی کی تشریح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو دل پر بیتی ہے میر اس کو شعری جامہ پہنا کر کہنے میں بڑی سہولت محسوس کرتے ہیں۔
میر کہتے ہیں کہ ان کے حال دل سے تمام بوٹے تمام پتے اور تمام بیل بوٹے واقف ہیں۔ گویا سارا باغ سوائے ایک گل کے ان کے حال دل سے اور ان کی تمام کیفیات سے پوری طرح سے واقف ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ پورا باغ گویا دنیا ہے جو ان کے حال دل سے واقف ہے اور یہ جو گُل ہے یہ ان کا محبوب ہے جو جان بوجھ کر ان کے حال دل سے واقفیت رکھنا ہی نہیں چاہتا ہے۔ جس کا ان کو انتہائی گلہ ہے
۔
میر کے لیے یہ کیفیت انتہائی تکلیف دہ ہے کہ ان کی خستہ حالی ان کے غم اور ان کی تکلیف سے ان کا محبوب واقف ہی نہیں ہے۔ اور دوسرے لفظوں میں گویا واقف ہونا بھی نہیں چاہتا۔
میر اس تکلیف کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی انتہائی آسان لفظوں میں کر دیتے ہیں۔ یہ بیان اور یہ انداز خدائے سخن میر کی با کمال صلاحیت ہے۔
سہیل آزاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مرثیہ 34
قطعہ 27
رباعی 104
کلیات 1895
کتاب 148
تصویری شاعری 31
جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں کیا تیر_ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت_دل آنکھوں سے یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں جاگہ سے بھی جاتے ہو منہ سے بھی خشن ہو کر وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں ان آئینہ_رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں
کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی دھوم ہے پھر بہار آنے کی دل کا اس کنج_لب سے دے ہے نشاں بات لگتی تو ہے ٹھکانے کی وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور ہے یہ تقریب جی کے جانے کی تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش_شوق تھی خبر گرم اس کے آنے کی خضر اس خط_سبز پر تو موا دھن ہے اب اپنے زہر کھانے کی دل_صد_چاک باب_زلف ہے لیک باؤ سی بندھ رہی ہے شانے کی کسو کم_ظرف نے لگائی آہ تجھ سے مے_خانے کے جلانے کی ورنہ اے شیخ_شہر واجب تھی جام_داری شراب_خانے کی جو ہے سو پائمال_غم ہے میرؔ چال بے_ڈول ہے زمانے کی