زبیر علی تابش کے اشعار
پہیلی زندگی کی کب تو اے نادان سمجھے گا
بہت دشواریاں ہوں گی اگر آسان سمجھے گا
اونچے نیچے گھر تھے بستی میں بہت
زلزلے نے سب برابر کر دیئے
ہمارا دل تو ہمیشہ سے اک جگہ پر ہے
تمہارا درد ہی رستہ بھٹک گیا ہوگا
آج تو دل کے درد پر ہنس کر
درد کا دل دکھا دیا میں نے
کسی بھوکے سے مت پوچھو محبت کس کو کہتے ہیں
کہ تم آنچل بچھاؤ گے وہ دسترخوان سمجھے گا
اس در کا ہو یا اس در کا ہر پتھر پتھر ہے لیکن
کچھ نے میرا سر پھوڑا ہیں کچھ پر میں نے سر پھوڑا ہے
بس میں مایوس ہونے والا تھا
اور مولا نے تجھ کو بھیج دیا
کوئی تتلی نشانے پر نہیں ہے
میں بس رنگوں کا پیچھا کر رہا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بچھڑ کر بھی ہوں زندہ رہنے والا
تو ہوتا کون ہے یہ کہنے والا
اس کے خط رات بھر یوں پڑھتا ہوں
جیسے کل امتحان ہو میرا
شاید قضا نے مجھ کو خزانہ بنا دیا
ایسا نہیں تو کیوں مجھے دفنا رہے ہیں لوگ
وہ جس نے آنکھ عطا کی ہے دیکھنے کے لیے
اسی کو چھوڑ کے سب کچھ دکھائی دیتا ہے
تمہارا صرف ہواؤں پہ شک گیا ہوگا
چراغ خود بھی تو جل جل کے تھک گیا ہوگا