Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خاندانی کرسی

مرزا ادیب

خاندانی کرسی

مرزا ادیب

MORE BYمرزا ادیب

    کہانی کی کہانی

    ایک ایسے شخص کی کہانی جو انیس برس بعد اپنے گھر لوٹتا ہے۔ اتنے عرصے میں اس کا گاؤں ایک قصبہ میں بدل گیا ہے اور جو لوگ اس کے کھیتوں میں کام کرتے تھے اب انکی بھی زندگی بدل گئی ہے اور وہ خوشحال ہیں۔ حویلی میں گھومتا ہوا وہ اپنے پرانے کمرے میں گیا تو وہاں اسے ایک کرسی ملی جو کسی زمانے میں خاندان کی شان ہوا کرتی تھی،اب کباڑ کے ڈھیر میں پڑی تھی۔ کرسی کی یہ حالت اور خاندان کی پرانی یادیں اسے اس حال میں لے آتی ہیں کہ وہ کرسی سے لپٹا ہوا اپنی آخری سانسیں لیتا ہے۔

    ایئرپورٹ سے نکل کر جب وہ لاہور کی وسیع، شاداب اور خوبصورت سڑکوں سے اپنے بھتیجے کے ساتھ گزرنے لگا تو اسے انیس برس کے پرانے لاہور اور موجودہ لاہور میں کوئی خاص فرق محسوس نہ ہوا۔ کوئی بھی ایسی تبدیلی اسے نظر نہ آئی جو پرانے لاہور سے نئے لاہور کو الگ کرتی۔ وہی سب کچھ تو تھا جو وہ کبھی کبھی کسی دوست سےملنے یا صرف سیر و تفریح کی خاطران سڑکوں پر، گھومتے ہوئے ان سڑکوں کے دو رویہ کھڑے ہوئے درختوں پر اور ان بارونق دکانوں پر بارہا دیکھ چکا تھا۔

    اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے اور پورے انہماک سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس کےجوان سال بھتیجے نے اس کے خیالات کا جائزہ لے لیا تھا اور اب اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔

    ’’انکل! شاید آپ سوچ رہے ہیں کہ لاہور تو وہی ہے۔‘‘

    ’’ہاں انور کچھ ایسی ہی سوچ میرے ذہن میں ہے۔‘‘

    انور نےسرخ بتی دیکھ کر گاڑی روک لی تھی۔

    ’’انکل تبدیلی دیکھنی ہو تو اپنے گاؤں میں چل کر دیکھیے۔‘‘

    ’’میرا گاؤں تبدیل ہوچکا ہے؟‘‘

    ’’بلکہ یہ کہیے کہ وہ گاؤں رہا ہی نہیں۔ وہ آپ کا انیس سال پہلے کا گاؤں کچھ اور بن چکا ہے۔

    ’’تو کیا بن چکا ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’شہر نما قصبہ۔‘‘

    ’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’تھوڑی دیر بعد آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔‘‘

    گاڑی کبھی سست رفتار سے چل رہی تھی اور کبھی تیز رفتار سے۔ شہری آبادی کی رونق میں کمی ہوتی جا رہی تھ ی۔ کہیں میدانی علاقہ تھا، کہیں کھیت ہی کھیت، کہیں کوئی ندی، کہیں نزد و دور اکا دکا مکان۔ انکل متجس نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ وہ حیران تھا کہ اتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد ابھی تک وہ اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچا۔ کیا اس کا بھتیجا کسی لمبے راستے سے تو نہیں اپنی گاڑی لے جا رہا ہے۔ آخر اس سے رہانہ گیا۔ کہنے لگا:

    ’’انور!‘‘

    ’’جی۔ انکل۔‘‘

    ’’تم کدھر سے چلے جا رہے ہو۔ ابھی کتنی دور ہے ہمارا گاؤں؟‘‘

    انور ہنس پڑا۔

    انکل کو یہ بے تکی ہنسی بری لگی۔

    ’’انکل! ہم اپنے گاؤں میں چلے جا رہے ہیں۔‘‘

    ’’یہ ہمارا ہی گاؤں ہے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا جس میں اضطراب کا جذبہ غالب تھا۔

    ’’انکل! میں نے عرض کیا تھا نا کہ اب ہمارا گاؤں شہر نما قصبہ بن چکا ہے۔‘‘

    انور نے گاڑی روک لی تھی تاکہ اس کا انکل اس جگہ کو دیکھ لے جہاں سے وہ گزر رہے تھے۔

    انکل جب اس جگہ رہتا تھا تو گاؤں کے ابتدائی حصے میں چھکڑے، تانگے اور رہڑھیاں بے ترتیبی کے عالم میں نظر آتی تھیں۔ ان کےنیچے ہر وقت کیچڑ رہتی تھی۔ ان سے کچھ دور جھگیاں ہوتی تھیں، کچے مکان ہوتے تھے جن میں گاؤں کے کھیت مزدور رہتے تھے۔ یہ سب کچھ کہاں غائب ہو گیا تھا۔ کیا انور کسی اور راہ سے تو نہیں گاؤں میں داخل ہوا۔ مگر اسے فوری طور پر خیال آیا کہ گاؤں کے اندر جانے کا تو صرف ایک ہی راستہ تھا جو چھکڑوں، تانگوں اور دہڑھیوں کے درمیان سے گزرتا تھا۔ پھر بھی اس نے پوچھ لیا۔

    ’’انور تم کسی اور راستے سے آئے ہو؟‘‘

    ’’اور تو کوئی راستہ ہے ہی نہیں انکل!‘‘

    ’’تو وہ چھکڑے؟‘‘

    انکل کا بقیہ فقرہ بھتیجے کے پرزور قہقہے میں ڈوب گیا۔ قہقہے کے اختتام پر کہنے لگا، ’’وہ چھکڑے وغیرہ یہاں کہاں۔ انکل اب یہ آپ کا پرانا گاؤں نہیں رہا۔‘‘

    گاڑی اب آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔

    ایک بڈھا، سر پر بڑا سا پگڑ، آنکھوں پر عینک، خراماں خراماں ایک طرف چلا جا رہا تھا۔ انکل کو اس کے چہرے کے خدوخال میں کوئی شناسا علامت دکھائی دی۔

    ’’یہ موجو نمبردار تو نہیں؟‘‘

    ’’وہی ہے۔ اب یہ نہیں اس کا بڑا بیٹا نمبردار ہے۔‘‘

    پرانے نمبر دار نے گاڑی کو دیکھا اور کسی قدر دور ہی سے سلام کےاندازمیں دایاں ہاتھ ہلاکر آگے بڑھ گیا۔

    ’’کیا یہ کوئی بڑا آدمی بن گیا ہے؟‘‘ انکل نے حیرت سے پوچھا۔ اس کے جواب میں انور صرف مسکرا دیا۔

    ایک کالا بھجنگ آدمی حقہ ہاتھ میں لیے چلا جا رہا تھا۔

    ’’یہ ہماری چلمیں بھرنے والا کالو تو نہیں؟‘‘

    ’’انکل پہچان لیا اسے؟‘‘

    ’’اس جیسا خوب صورت آدمی اور کون ہوگا سارے گاؤں میں؟‘‘

    انور کا مسکراتا ہوا چہرہ ایک دم سنجیدہ سا ہو گیا۔ اسے اپنے انکل کا طنز شاید پسند نہیں آیا تھا۔

    ’’انکل! اب یہ چلمیں نہیں بھرتا۔ شان سے کھیتی باڑی کرتا ہے۔‘‘

    گاڑی ایک حویلی کے سامنے رک گئی۔

    ’’پہچانا اپنی پرانی حویلی کو؟‘‘

    انکل حیرت زدہ نگاہوں سے حویلی کو دیکھ رہا تھا۔

    ’’لگتی تو وہی ہے پردیسی رہی نہیں۔‘‘

    ’’دیکھ لیجیے ہمارے کام۔‘‘

    دونوں گاڑی سے اتر چکے تو انور نے جلدی سے حویلی کے دروازے پر پہنچ کر بلند آواز میں کہا، ’’انگل آ گئے ہیں۔‘‘ یہ آواز فضا میں گونج ہی رہی تھی کہ دروازے پر عورتیں اور بچے آگئے۔ سب کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ ان سب نے انکل کو گھیرے میں لے لیا۔ بچے انکل سے لپٹ گئے اور ’’تایاجی آ گئے۔ تایا جی آ گئے‘‘، کا شور مچانے لگے۔ عورتیں خاموش تھیں مگر ان کی نگاہوں میں حیرت اور خوشی بےاخیار چھلک رہی تھی۔

    جیسے ہی انکل حویلی کے ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھا اس کے ارد گرد کئی عورتیں جمع ہو گئیں۔ سب کے ہونٹوں پر صرف ایک ہی سوال تھا۔

    ’’بھائی جان آپ گھر چھوڑ کر کیو ں چلے گئے تھے؟‘‘

    ’’بس چلا گیا تھا۔‘‘

    ’’انکل آپ نے کسی کو پہچانا بھی ہے۔‘‘ اور انکل کی نظریں عورتوں کے چہروں کا جائزہ لینے لگیں۔ ایک طرف اسے ایک مانوس سا چہرہ دکھائی دیا جو ایک نوجوان لڑکی کا ہاتھ پکڑے ہولے ہولے اپنا سر ہلا رہی تھی۔

    ’’پھاماں؟‘‘

    ’’پہچان لیا بھائی جان نے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ہنس پڑی اور اس کے سر سے چادر اتر گئی۔

    ’’یہ میری بیٹی نجمہ ہے۔آپ چلے گئے تھے تو پیدا ہوئی تھی۔‘‘

    انکل نے اس کی بیٹی کو دیکھا۔ جس کا دوپٹہ اس کے گلے میں پڑا تھا۔ اس کے زمانے کی لڑکیوں کے سر تو بھاری بھاری چادروں سے ڈھکے رہتے تھے۔

    شام کے کھانے پر ڈائننگ ٹیبل کے گرد کرسیوں پر گاؤں کے کم و بیش سارے معززین جمع تھے اور انکل کو یہ بات عجیب سی لگی کہ ان لوگوں میں وہ بھی شامل تھے جو ایک زمانے میں ان کے کھیتوں میں کام کر چکے تھے۔ اسے زیادہ حیرت اس امر پر تھی کہ اس کے بھتیجے نے ان کا تعارف عزت و احترام کے ساتھ کرایا تھا۔ کھانے سے فراغت پانے کے بعد چائے کا دَور چلا۔

    ’’اب چائے پی جاتی ہے؟‘‘

    ’’ہاں انکل! شہروں میں چائے پی جاتی ہے تو آخر ہم نے کیا قصور کیا ہے کہ اس سے محروم ہیں‘‘

    رات کے دس بجے انکل کو اس کی سجی سجائی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا، صاف ستھرا بستر، دیواروں پر رنگارنگ تصویریں، زمین پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک دری بچھی ہوئی۔ اس کے اوپر میز، صوفہ سیٹ، کرسیاں۔ ایک طرف تپائی کے اوپر خوبصورت لیمپ، جس کی روشنی سارے کمرے میں پھیلی ہوئی۔ وہ جو کچھ دیکھ رہا تھا وہ اسے اجنبی اجنبی سا غیرمانوس سا لگ رہا تھا۔

    ’’گاؤں میں بجلی آ گئی ہے۔ دس پندرہ روز تک ہماری حویلی میں بھی لگ جائےگی۔‘‘ اس کے بھتیجے نے بتا دیا تھا۔

    وہ پلنگ کے اوپر تکیے سے پشت لگائے نیم دراز تھا۔ اس کے سامنے لمبے صوفے پر انور اور اس کی جواں سال بیوی صفیہ بیٹھی تھی، دونوں بچے الگ الگ صوفوں میں دھنسے ہوئے تھے۔ انور کے پوچھنے پر وہ اسے تبا رہا تھا کہ آج سے انیس برس پیشتر وہ کس طرح ایک تجارتی فرم کے ساتھ کلکتہ چلا گیا تھا، پھر کئی سال بنارس اور مدراس میں اس فرم کا کام کرتا رہا تھا۔ سب اس کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔

    ’’انکل! کبھی گھر کی یاد آپ کو نہیں آئی تھی؟‘‘

    ’’کیوں نہیں، ہر سال سوچتا تھا کہ اگلے سال اپنے گاؤں چلا جاؤں گا مگر یہ پروگرام پورا نہیں ہوتا تھا۔‘‘

    ’’انکل! جب آپ یہاں تھے تو اس گھر میں صرف امی تھیں اور میں تھا۔ آپ کے جانے کے تین سال بعد امی کا انتقال ہو گیا۔ سال بعد میری شادی ہو گئی۔ پھر اکبر اور عامر آ گئے۔‘‘

    ’’پیارے بچے ہیں۔‘‘ انکل نے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور وہ دونوں مسکرانے لگے۔

    گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ باتیں ہوتی رہیں۔ انور اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھا۔

    ’’مجھے اپنے ایک دوست کے ہاں بیمار پرسی کے لیے جانا ہے۔ شام کے بعد ضرور اس کے ہاں جاتا ہوں۔ انکل! آپ تھک چکے ہوں گے۔ سو جائیں۔‘‘

    اور یہ کہہ کر انور کمرے سے نکل گیا۔ اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد اس کی بیوی اور بچے بھی چلے گئے۔

    اب وہ کمرے میں تنہا تھا۔

    اس نے لیمپ کی تبی نیچی کرکے سونے کی کوشش کی مگر نیند تو جیسے اس کی آنکھوں سے اڑ چکی تھی۔

    وہ نیم تاریک، نیم روشن کمرے میں آہستہ آہستہ ٹہلنے لگا۔ پھر پلنگ پر گر پڑا۔

    صبح سویرے ہی ہی خاموشی سے ناشتا کیا گیا۔ ناشتے کے بعد انور اپنے روزمرہ کام کاج کے لیے چلا گیا اور اپنی بیوی سے کہتا گیا، ’’انکل کو ذرا گھر کی سیر کرا دینا۔‘‘ اور انکل نے یکے بعد دیگرے سارے کمرے دیکھ لیے۔ اس نے سارے کمرے دیکھنے کے بعد پوچھا۔

    ’’صفیہ بیٹی!‘‘

    ’’جی انکل۔‘‘

    ’’اس گھر کے ہر کمرے سے مجھے کسی قدر اپنائیت محسوس ہوئی ہے۔ مگر یہاں ایک کمرہ ایسا بھی تھا جس میں میری چیزیں پڑی رہتی تھیں۔‘‘

    ’’انکل وہ انہی کمروں میں سے کوئی ہوگا۔‘‘

    ’’نہیں صفیہ! وہ میرا کمرہ تھا وہاں آج بھی میری چیزیں ہوں گی۔‘‘

    ’’آپ کو تمام کے تمام کمرے تو دکھا دیے ہیں۔‘‘ صفیہ نےیقینی لہجےمیں کہا۔ امی! وہ کمرہ تو نہیں دکھایا جس میں فضلو چوکیدار رہتا تھا۔‘‘ اس نے ماں سے مخاطب ہوکر کہا۔

    صفیہ نے گھور کر بیٹے کی طرف دیکھا۔

    ’’یہ کمرہ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’انکل! کیا دیکھیں گے اس کے اندر جاکر۔ فضلو کے جانے کے بعد اس میں گھر کی ساری فضول اور بےکار چیزیں بھر دی گئی تھیں۔ برسوں سے اسے کسی نے کھولا ہی نہیں۔‘‘ صفیہ نے انکل کو ٹالنا چاہا۔

    ’’دیکھنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘

    ’’انکل اتنے برےکمرے میں جاکر کیا کریں گے۔ ہر شے گرد و غبار سے اٹی پڑی ہوگی۔ اس کی تو کھڑکیاں بھی کسی نے کبھی نہیں کھولیں۔‘‘

    ’’پھر بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘

    صفیہ نے دایاں ہاتھ اس انداز سے ہلایا جیسے کہہ رہی ہو، ’آپ کی مرضی۔‘

    وہ کمرہ مکان کے کسی کمرے سے ملحق نہیں تھا بلکہ آخری کمرے سے ذرا فاصلے پر تھا۔ ان دونوں کے درمیان نالی کا پانی بہ رہا تھا، اینٹوں کے کچھ ڈھیر تھے۔ جم کر پتھر بنا ہوا سیمنٹ تھا اور گلی سڑی بوریاں تھیں۔

    کمرے کا دروازہ مقفل نہیں تھا مگر سالہا سال تک بند ہونےکی وجہ سے اسے کھولنے میں دقت پیش آ رہی تھی۔

    ’’چھوڑیے انکل آپ کس وہم میں پڑ گئے ہیں۔ کنڈی زنگ آلود ہو چکی ہے۔ کھلےگی نہیں۔

    مگر انکل پر صفیہ کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے اکبر سے کہہ کر باورچی خانے سے حمام دستہ منگوا لیا اور کنڈی پر زور زور سے ضربیں لگانے لگا۔ آخر کار کنڈی کے دو ٹکڑے ہو گئے۔

    ہر طرف گہرا اندھیرا، کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بدبو کے بھبھوکے اس کے دماغ کو چھو رہے تھے۔ سینے میں سانس رک سی گئی تھی۔ اسی لمحے صفیہ کی چیختی ہوئی آواز گونجی۔ وہ اپنے بیٹوں کو اندر جانے سے بڑی سختی کے ساتھ منع کر رہی تھی۔

    وہ کھڑا تھا۔ مبہوت، سراسیمہ، انکھیں پوری طرح کھلی ہوئی مگر نگاہیں ان کھلی ہوئی ہوئی آنکھوں میں منجمد۔

    ’’صفیہ!‘‘

    ’’جی، انکل۔‘‘ صفیہ کی دروازے کے باہر سے آواز آئی۔

    ’’بڑا اندھیرا ہے۔‘‘

    ’’یہ تو ہوگا ہی۔ برسوں سے بند پڑا ہے۔‘‘

    ’’لیمپ نہیں لےآئیں بیٹی؟‘‘

    ’’آپ دیکھنا کیا چاہتے ہیں یہاں۔ خیر، آپ کی مرضی۔‘‘

    وہ اندھیرے میں کھڑا رہا۔ اس کے سر پر بوجھ پڑ رہا تھا۔ یہ مٹی تھی جو چھت سے گر رہی تھی۔

    اس نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس کے پاؤں کسی بھاری بھرکم چیز کے آگے آنے سے رک گئے۔

    صفیہ لیمپ لے کر دروازے پر پہنچ گئی تھی۔ وہ کمرے کے اندر نہیں جانا چاہتی تھی۔

    لیمپ اس نے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا۔ لگتا تھا یہ لیمپ کی روشنی اندھیرے کے سمندر میں ڈوبنے لگی ہے۔ دھیرے دھیرے اسے کچھ کچھ نظر آنے لگا۔

    ٹوٹا پھوٹا فرنیچر، اینٹوں کے ڈھیر، پھٹے پرانے کپڑے۔ آہستہ آہستہ کچھ چیزیں اپنے مبہم سے سایے اس کی بصیرت پر ڈالنے لگیں۔

    وہ انھیں دیکھ رہا تھا۔ یکایک اس کی آنکھوں کے ڈیلے پھیل گئے۔ ایک سنسنی سی اس کے سارے جسم میں سرایت کر گئی۔ اس کی نظریں کمرے کے ایک کونےمیں جیسے جم کر رہ گئیں۔

    یہ ایک کرسی کی شکل کی کوئی چیز نظر آ رہی تھی۔

    وہ اپنے پاؤں کے سامنے آنے والی چیزوں کو روندتا ہوا اس کونے کی طرف جا رہا تھا۔ دروازے پر کھڑی صفیہ اس کی اس حرکت پر حیران ہو رہی تھی۔

    وہاں پہنچ کر اس کے قدم رک گئے اور اس کا سر بے اختیاری کے عالم میں جھکنے لگا۔

    ’’انکل کو کیا ہو گیا ہے۔ پاگل تو نہیں ہو گیا؟‘‘ صفیہ سوچ رہی تھی۔

    وہ اپنا ایک ہاتھ کرسی کے اوپر پھیر رہا تھا۔ دوسرے ہاتھ میں اس نے لیمپ تھام رکھا تھا۔

    ’’صفیہ!‘‘

    ’’جی انکل۔‘‘

    ’’کیا نام ہے تمہارے نوکر کا۔ بلاؤ اسے۔‘‘

    غنی لڑکوں کے ساتھ باہر ہی کھڑا تھا۔ انکل کی آواز سن کر وہ دروازے پر آ گیا۔

    ’’بلا لیا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’جی میاں صاحب میں آ گیا ہوں۔‘‘ غنی نے اونچی آواز میں کہا۔

    ’’اندر آؤ۔‘‘

    غنی نے قدم اندر رکھا مگر یہ دیکھ کر کہ اس کے پاؤں مٹی میں دھنسے جارہے ہیں، وہیں ٹھہر گیا۔

    ’’حکم کیا ہے میاں جی۔‘‘

    ’’ادھر آؤ۔‘’ انکل کے لہجے میں درشتگی تھی۔

    غنی نے صفیہ کی طرف دیکھا جو خاموش کھڑی تھی۔

    ’’کچھ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

    غنی کے اس فقرے پر انکل نے لیمپ والا ہاتھ بلند کردیا اور غنی بڑی تگ و دو کے بعد وہاں پہنچ گیا۔

    ’’دیکھو اس کرسی کے اٹھانےمیں میری مدد کرو۔‘‘

    ’’جی؟‘‘ غنی کو اتنی حیرت ہوئی کہ وہ ’جی‘ کے سوا اور کچھ کہہ ہی نہ سکا۔

    انکل کرسی اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ ناچار غنی کو بھی اس کا ساتھ دینا پڑا اور چند منٹ کے بعد وہ گرد و غبار میں اٹی کرسی حویلی کے ڈرائنگ روم میں تھی۔

    وہ اپنے صاف ستھرے رومال سے اس طرح کرسی صاف کر رہا تھا کہ فرط احترام سے بار بار اس کا ہاتھ رک جاتا تھا۔ کئی بار اس نے کرسی کے بازؤں کو، اس کی پشت کو چوما تھا اور کمرے کے باہر صفیہ، غنی اور دونوں لڑکے انتہائی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔

    شام ہو گئی تھی جب انور گھر آیا۔ حویلی میں ہر طرف روشنیاں پھیل چکی تھیں۔

    وہ سب سے پہلے انکل سے ملنے کے لیے ڈرائنگ روم میں پہنچا۔

    انکل اسی کرسی کے نیچے قالین پر بیٹھا تھا اور آہستہ آہستہ اس کی بازوؤں پر ہاتھ پھیرنے میں محو تھا۔

    ڈرائنگ روم کے قیمتی اور خوبصورت فرنیچر کے درمیان ایک انتہائی بوسیدہ، پرانی، بدوضع کرسی دیکھ کر اس کے غصے کا پارہ چڑھ گیا۔

    ’’انکل! یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ یہ فضول شے کہاں سے اٹھا لائے ہیں آپ؟‘‘

    ’’وہاں سے جہاں تم نے اسے پھینک کر احسان فراموشی اور بے قدری کی تھی۔‘‘ انکل اٹھ بیٹھا۔ ’’تم بچے تھے، اپنے بزرگوں کو تم نے اس کرسی پر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ میں دیکھ چکا ہوں، اپنے دادا جان کو بھی۔ اپنےابا جان کو بھی۔ اس کرسی کا اپنا رعب داب تھا۔ لوگ آتے تھے تو اس کی طرف اپنی پشت نہیں کرتے تھے۔ اس قدر احترام کرتے تھے وہ سب لوگ اس کا۔ یہ کرسی ہمارے خاندان کا بےبہا ورثہ تھی۔ تم نے اس کی قدر نہ پہچانی اور اسے ردی چیزوں میں پھینک دیا۔‘‘

    انکل نے شدید جذباتی لہجے میں یہ الفاظ کہے اور اس کی خفگی آمیز نظریں اپنے بھتیجے کے چہرے پر شعلہ زنی کر رہی تھیں۔

    ’’کیسی باتیں کرتے ہیں انکل آپ! وہ زمانہ لد گیا ہے۔‘‘

    ’’زمانہ لد گیا ہے مگر خاندانی ورثہ تو موجود ہے۔ یہ ہماری خاندانی کرسی ہے۔‘‘

    ’’دیکھیے انکل؟‘‘ اب نور کا لہجہ نرم اور مصالحت آمیز تھا۔‘‘ گاؤں کے سارے معزز لوگوں کو آپ کی آمد کا علم ہو چکا ہے۔ وہ آپ سے ملنے کے لیے آئیں گے۔ میں نے یہ قیمتی فرنیچر ہزاروں روپے خرچ کرکے خریدا ہے۔ یہاں کسی حویلی میں بھی ایسا شاندار فرنیچر نہیں ہے۔ اس شاندار فرنیچر میں یہ بدنما فضول اور بےکار کرسی، کیا کہیں گے یہ لوگ۔ انکل۔‘‘

    ’’یہ کرسی یہیں رہےگی۔‘‘ انکل کے فقرے سے اس کے مصمم ارادے کا اظہار ہو رہا تھا۔

    ان لمحوں میں صفیہ آ گئی۔

    ’’اس وقت آپ باہر چلیے۔‘‘ اور وہ اپنے شوہر کو باہر لے گئی۔

    ’’اس وقت انکل پاگل ہو گئے ہیں۔ کرسی ڈرائنگ روم سے ہٹاکر صحن میں رکھوا دیتے ہیں۔ آپ انھیں کہیں باہر لے جائیں۔‘‘ صفیہ نے کمرے سے باہر نکل کر شوہر کو مشورہ دیا۔

    رات کے ساڑھے نو بجے تک انور انکل کو ادھر ادھر لیے پھرا۔ اس نے گاؤں کے سارے حصے اسے دکھا دیے۔ مگر واپس آکر، کھانا کھانے کے بعد انور انکل کو خدا حافظ کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور انکل سے کہا کہ آپ تھک چکے ہیں۔ سو جائیں جاکر۔‘‘ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوکر اپنے اپنے کمروں کی طرف جانے لگے۔ پھر رات بیت گئی۔

    حویلی میں سب سے پہلے غنی بیدار ہوتا تھا، وہ ناشتے کا سامان لاتا تھا اور جب صفیہ کمرے سے باہر آتی تھی تو باورچی خانے میں سارا سامان موجود ہوتا تھا۔ مگر اس صبح وہ انور کے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔

    یہ ایک خلاف معمول واقعہ تھا۔ انور آنکھیں ملتا ہوا باہر آ گیا۔

    ’’کیوں غنی؟‘‘ غنی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

    ’’ہوا کیا ہے۔‘‘

    غنی چپ چاپ ایک طرف چلنے لگا اور انور اس کے پیچھے پیچھے قدم اٹھانے لگا۔

    دونوں دالان میں پہنچ گئے تھے۔

    انور کی حیرت زدہ نگاہیں ایک عجیب نظر دیکھ رہی تھیں۔ اس کا انکل خاندانی کرسی میں بے حس و حرکت پڑا تھا۔ اوس کے قطرے اس کے بالوں پر، چہرے پر، کپڑوں پر چمک رہے تھے۔

    ’’انکل، انکل۔‘‘ انور نے بار بار پکارا مگر انکل کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی، اس کے جسم کو کوئی حرکت نہ ہوئی۔

    تھوڑی دیر بعد انور اور غنی نے مردہ انکل کو اٹھاکر، اندر ایک کمرے میں پلنگ پر لٹا دیا اور اسے چادر سے لپیٹ دیا۔

    ساری حویلی کی فضا میں ایک ماتمی سناٹا چھایا ہوا تھا اور سورج نصف النہار پر آ چکا تھا۔

    لوگ آ جا رہے تھے۔

    اتنے میں غنی نے آکر بتایا۔

    ’’جی مولوی صاحب آ گئے ہیں۔۔۔ میت کو نہلانے کے لیے گرم پانی چاہیے۔‘‘

    ’’تو لے آؤ لکڑیاں۔‘‘

    ’’میاں جی! پٹھان کا ٹال بند ہے۔‘‘

    انور کچھ سوچنے لگا۔ وہ ایک آدھ منٹ سوچتا رہا۔

    ’’غنی۔ وہ دالان میں پرانی کرسی پڑی ہے نا۔۔۔ اسے توڑ کر چولہے میں جلا دو۔‘‘

    غنی دالان کی طرف جانے لگا اور انور ان لوگوں کی جانب بڑھا جو اس کے انکل کی موت کی خبر سن کر اظہار افسوس کے لیے حویلی میں آئے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے