Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اولڈ ایج ہوم

مرزا ادیب

اولڈ ایج ہوم

مرزا ادیب

MORE BYمرزا ادیب

    کہانی کی کہانی

    آرام و سکون کا طالب ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو سوچتا تھا کہ سبکدوشی کے بعد اطمینان سے گھر میں رہیگا، مزے سے اپنی پسند کی کتابیں پڑھےگا لیکن ساتھ رہ رہے دیگر افراد خانہ کے علاوہ اپنے پوتے پوتیوں کے شور غل سے اسے اوب ہونے لگی اور وہ گھر چھوڑ کر اولڈ ایج ہوم رہنے چلا جاتا ہے۔ وہاں اپنے سے پہلے رہ رہے ایک شخص کا ایک خط اسے ملتا ہے جس میں وہ اپنے بچوں کو یاد کر کے روتا ہے۔ اس خط کو پڑھ کر اسے اپنے بچوں کی یاد آتی ہے اور وہ واپس گھر لوٹ جاتا ہے۔

    آخری سیڑھی اور اس کے کمرے کے درمیان کم و بیش دس گز کا فاصلہ حائل تھا اور یہ فاصلہ اس کے لیے ایک بڑی آزمائش کا حرملہ بن جاتا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوتا تھا تو اسے کسی قدر اطمینان ہوجاتا تھا کہ اس کے پوتے اور پوتیوں کے حملے سے اس کا کمرہ محفوظ ہے مگر جب اس کے دونوں پٹ کھلے ہوتے تھے اور دروازے کے باہر کمرے کی کوئی نہ کوئی چیز پڑی ہوتی تھی تو اس کی پیشانی شکن آلود ہوجاتی تھی اور چہرے کی بوڑھی رگیں زیادہ نمایاں ہوکر اس کی کرب انگیز دلی کیفیت کا اظہار کرنے لگتی تھیں۔

    اس وقت کمرے کے دونوں پٹ کھلے تھے۔

    ’’او میرے خدایا۔‘‘ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا اور کمرے کے اندر چلا گیا۔

    جس غارت گری کا اس نے اندازہ لگایا تھا وہ صورت حال سے کچھ کمتر ہی تھی۔ اس روز محمود اور اس کی دونوں بہنوں نے معمول سے زیادہ ہی تباہی مچادی تھی۔

    پلنگ کی چادر، جسے اس کی بہو نے صرف ایک روز پہلے بدلا تھا، اس پر جابجا مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ انہوں نے پلنگ پر بیٹھ کر کوئی میٹھی چیز کھائی کم اور گرائی زیادہ تھی اور ہر طرف بکھرے ہوئے ریزوں نے مکھیوں کو دعوتِ عام دے دی تھی۔

    میز پر کتابیں وہ بڑی ترتیب کے ساتھ رکھا کرتا تھا۔ اسے اپنی کتابوں سے بڑی محبت تھی اور انہی کا مطالعہ کرکے اپنا وقت بتاتا تھا۔ یہ ساری کتابیں منتشر حالت میں پڑی تھیں۔

    قالین پر اگلدان الٹا پڑا تھا۔ حقہ کمرے کے ایک گوشے میں رکھا ہوا تھا، وہ کمرے کے عین وسط میں اس عالم بیچارگی میں پڑا تھا کہ اس کی چلم غائب تھی اور چلم کے کوئلے ادھر ادھر دکھائی دے رہے تھے۔

    پنشن کے لیے گھر سے جانے سے پہلے وہ دھوبی سے دھلے ہوئے کپڑے لاکر کرسی کے اوپر رکھ گیا تھا کہ واپس آکر انھیں الماری کے خانے میں رکھ دےگا۔ ان میں سے کوٹ نکل کر پلنگ پر پڑا تھا۔ محمود نے ضرور اسے پہن کر داداجان بننے کی کوشش کی ہوگی۔

    ایسے میں اس کا صبر و قرار جواب دے جاتا تھا اور وہ کھڑکی سے منہ باہر نکال کر اپنی بہو کو بڑے غصے سے مخاطب کرتا تھا اور اس روز بھی اس نے یہی کیا تھا۔

    ’’زینب! تم اپنے بچوں کو قابو میں نہیں رکھ سکتیں اوپر آکر دیکھو تو کیا حالت کر دی ہے میرے کمرے کی۔‘‘

    بچے اپنے دادا جان کو گھر کے اندر آتے دیکھ کر چپکے سے کھسک جاتے تھے۔ اس لیے زینب انھیں بے تحاشہ بددعائیں دینے کے سوا اور کیا کر سکتی تھی۔

    ’’میں کیا کروں بابا جی! آپ انھیں کیوں نہیں سمجھا لیتے؟‘‘

    اپنی بہو کا یہ رویہ اس کے لیے حیران کن تھا۔ وہ تو سسر کی غصیلی آواز سنتے ہی دروازے کی طرف بھاگتی تھی اور محمود یا اس کی کوئی بہن ہاتھ آ جاتی تھی تو مار مارکر اس کا کچومر نکال دیتی تھی۔ مگر اس روز اس نے ایک فقرہ کہہ کر ہی اپنی طرف سے معاملہ ختم کر دیا تھا۔

    ماں بچوں کو بددعائیں دیتی تھی۔ تو اس کا غصہ بھی ذرا دب جاتا تھا لیکن اس روز اس نے جس رد عمل کا اظہار کیا تھا وہ اسے بڑا غیر مناسب لگا۔ وہ کھڑکی سے پرے ہٹ گیا۔ اس کی پیشانی زیادہ شکن آلود ہو گئی تھی اور سانس شدید غصے کی حالت میں تیزی سے آنےجانے لگا تھا۔

    ’’کیا اس نے بچوں کو شہ دی ہے؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا اور وہ نیچے آ گیا۔

    زینب نلکے کے نیچے کپڑے دھو رہی تھی۔

    ’’زینب! تم نے ان بدتمیزوں کو اتنی کھلی چھٹی کیوں دے رکھی ہے۔ انھیں کمرے میں جانے ہی کیوں دیتی ہو۔ تمہیں خبر نہیں کہ میرے کمرے کے اندر جاکر وہ کیا کرتے ہیں؟‘‘

    زینب نے ہاتھ میں ڈنڈا اٹھا رکھا تھا جسے وہ کپڑوں پر مار رہی تھی۔ اپنے سسر کے الفاظ سن کر اس نے بے دھیانی میں ڈنڈا نلکے پر زور سے مار دیا اور چمک کر بولی۔

    ’’یہ میری کمبخت اولاد ہے تو آپ کی کچھ نہیں لگتی؟‘‘

    زینب اس کے سوال کا کیا جواب دے رہی تھی۔ اس کے الفاظ نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔

    ’’میری کچھ لگتی ہے یا نہیں لگتی مگر۔‘‘

    زینب تڑپ اٹھی۔ فوراً بولی:

    ’’کچھ نہیں لگتی ناں؟‘‘

    ’’زینب! میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میری چیزوں کو اس طرح تباہ کیا جائے۔‘‘

    ’’تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ پکڑ کر گلے گھونٹ دیں ان کے۔‘‘

    ان کی بہو کو کیا ہو گیا ہے۔ ترکی بہ ترکی جواب دے رہی ہے۔ بیٹا بھی اپنے کےمرے میں موجود ہے۔ اسے ضرور صورت حال کا علم ہو چکا ہے مگر نہ تو باہر آیا ہے نہ بچوں کی معمول کے مطابق سرزنش کی ہے۔

    ’’اچھا کچھ کرنا ہی پڑےگا۔ تم لوگ چاہتے ہو کہ میں گھر سے نکل جاؤں۔‘‘

    اور وہ تیزی کے ساتھ دروازے سے باہر آ گیا۔

    میرزا عبدالقیوم نے ساری زندگی صوبائی حکومت کے ایک فتر میں ملازمت کی تھی۔ وہ معمولی کلرک سے اعلیٰ افسر کے عہدے تک پہنچا تھا اور اس کی ترقی کا حقیقی سبب اس کی ایمانداری، دیانت داری اور منصبی فرائض سے گہری دلچسپی تھی۔

    ملازمت کے اختتام پر دفتر کے سربراہ نے بڑی کوشش کی تھی کہ اس کی دفتر سے وابستگی میں توسیع کر دی جائے مگر وہ خود اس پر راضی نہ ہوا۔ اپنے دوستوں سے تو اس نے یہی کہا کہ میں نے اپنے حصے کا کام کر لیا ہے۔ اب یہ دوسروں کا حق ہے کہ وہ آگے بڑھ کر میری ذمے داریاں نبھائیں۔ میں کسی کا حق مارنا نہیں چاہتا۔ اس کے دوستوں نے قطع ملازمت کا یہ جواز تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن دل کی بات اس نے کسی سے بھی نہیں کہی تھی اور دل کی بات یہ تھی کہ وہ دفتری ہنگاموں سے دور ہو کر برے پرسکون ماحول میں بقیہ زندگی بسر کرنے کا آرزومند تھا۔

    خاموشی، سکون اور اپنا دن اور اپنی رات، یہ تھی اس کی آرزو جو چھٹی کے وقت اپنے کاموں سے فراغت پانے کے بعد یا گھر میں اپنے مخصوص کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے اس کے دل و دماغ پر چھا جاتی تھی اور وہ ان لمحوں کی گود میں چلا جاتا تھا۔ جب دفتر سے رشتہ منقطع کرنے کے بعد خاموشی، سکون اور اپنے سارے معمولات میں مکمل آزادی حاصل کر لےگا۔ اس ماحول کا تصور کرتے وقت اسے ایک عجیب سی خوشی مل جاتی تھی اور وہ دیر تک اس تصور میں ڈوبا رہتا تھا۔

    پہلے دن جب صبح اٹھ کر اس نے یہ خیال کیا کہ اب سارا دن اس کا اپنا ہے اور اسے کہیں بھی آنا جانا نہیں ہے۔ کوئی بھی فریضہ ادا کرنا نہیں ہے تو اس کا دل سرخوشی کی ایک ایسی کیفیت محسوس کرنے لگا جسے وہ اپنی تمام تک و دو کا حاصل سمجھتا تھا۔

    وہ خوش تھا۔ مطمئن تھا۔

    اس نے اپنے کمرے کو ٹھیک کرنے کا ارادہ کیا اور اپنی بہو سے جو بچوں کے ساتھ ناشتا لے کر آ گئی تھی، کہا:

    ’’زینب! اب تو یہی میری دنیا ہے۔ یہ میرا کمرہ، اسے ٹھیک ٹھاک کرنا ہوگا۔ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

    ’’ضرور بابا جان۔ جو کچھ آپ چاہتے ہیں ہو جائےگا۔ حکم کیجیے۔‘‘ اس کی بہو نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’یہ صوفہ سٹ پرانا ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’نیا خرید لیں گے۔‘‘

    ’’میز بھی۔‘‘

    ’’یہ بھی نہیں۔‘‘

    ’’بس ٹھیک ہے۔‘‘

    اس کی بہو مسکرا رہی تھی۔

    ’’بابا جان! میں آج ہی پرانی چیزیں نکلوا لوں گی۔ صوفہ سٹ خرید لائیں گے اور بھی سب کچھ۔ محمود کے ابو بھی کہہ رہے تھے کہ ابا جان اب گھر پر ہی رہا کریں گے۔ انھیں ہر طرح آرام پہنچائیں گے۔‘‘

    چند روز میں کمرہ ٹھیک ہو گیا اسے ٹھیک کرنے میں اس نے خود کم اور گھر والوں نے زیادہ حصہ لیا تھا۔

    ایک ہفتہ اس انداز میں گزرا جس انداز میں وہ گزارنا چاہتا تھا۔ دفتر کے پرانے ساتھی اس سے ملاقات کے لیے آتے رہے۔ اس کا پوتا اور دونوں پوتیاں چائے اور کھانا اس کے کمرے ہی میں پہنچاتے رہے۔ اس قسم کا ہنگامہ ضرور رہا لیکن اسے یقین تھا کہ یہ سب کچھ عارضی ہے۔ احباب آتے ہیں تو آئندہ آنے سے رک جائیں گے۔ اس کی بہو بچوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے میں جو شور کرتی ہے یہ بھی اس وقت ختم ہو جائےگا یا بہت حد تک تھم جائےگا جب وہ ان کی ماں کو سمجھا دےگا کہ بچوں کے ساتھ مادرانہ شفقت کا رویہ اختیار کرے۔ بچے اوپر آتے ہیں، اپنے جوتوں کے ساتھ اندر آکر قالین خراب کر دیتے ہیں۔ تو یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ وہ انھیں بتا دےگا کہ اوپر میرے کمرے میں آؤ تو جوتے اتار کر آؤ۔

    تین ہفتے بیت گئے اور پھر اس کے ذہن میں اندیشہ ہائے دور و دراز اپنا سایہ ڈالنے لگے۔

    اس نے سوچا تھا کہ دفتر کے کچھ لوگ آتے ہیں تو اظہار محبت کے لیے آتے ہیں۔ آخر کب تک یہ اظہار ہوتا رہےگا۔ مگر اتنی مدت صبر سے کام لینے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

    پہلے اس کے پرانے اور نئے ساتھی محض اسے اس کے شاندار کیرئر پر مبارک باد دینے کے لیے آتے تھے اب وہ اس سے ہدایات لینے کے لیے آنے لگے تھے۔

    ’’سر! ایسے کاغذات کن فائلوں میں رکھے جاتے ہیں۔ بڑے افسر کے ہاں جاکر سوال کس طرح کرنا چاہیے؟‘‘

    یہ لوگ عام طور پر یہی سوال کرتے تھے اور وہ جواب دے دے کر بور ہو جاتا تھا۔

    اس سے بڑی کوفت اسے اپنے پوتے اور پوتیوں سے ہونے لگی تھی۔ وہ سیر و تفریح کی خاطر، کسی سے ملاقات کے لیے، کوئی چیز خریدنے کے لیے گھر سے باہر نکلتا تھا تو بچے سکول سے واپس آکر گھر میں ہوتے تھے تو بےتکلف اس کے کمرے میں آ جاتے تھے اور طوفان بدتمیزی مچا دیتے تھے۔ چیزوں کی بے ترتیبی دیکھ کر اسے دکھ ہونے لگا تھا۔

    اپنے کمرے می تباہی پر اسے ہر بار ذہنی کوفت ہوتی تھی مگر جب اس کی بہو بچوں کو بری طرح ڈانٹ ڈپٹ دیتی تھی بلکہ کسی نہ کسی کی پٹائی بھی کر دیتی تھی اور اس کا بیٹا بھی، اگر گھر میں ہوتا تھا تو اس ڈانٹ ڈپٹ میں حصہ لینے سے باز نہیں رہتا تھا تو اس کا غصہ کسی قدر ہلکا ہو جاتا تھا اور وہ آہستہ آہستہ نارمل حالت میں آ جاتا تھا مگر اس روز تو ان دونوں نے ایک ایسا رویہ اختیار کر لیا تھا جو اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔

    بہو کا فقرہ، ’’تو میں کیا کر سکتی ہوں، پکڑ کر گلے گھونٹ دیں ان کے۔‘‘ اس کے ذہن پر مسلسل ضربیں لگا رہا تھا۔

    وہ بغیر کسی مقصد کے گلیوں اور بازاروں ک چکر لگاتا رہا۔ باغوں میں میں گھوما، کتابوں کی دکان پر کچھ کتابیں خریدیں اور ایک اخبار بھی۔

    گھر پہنچ کر وہ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر اوپر کمرے میں چلا گیا اور بستر پر گر کر ایک نئی کتاب کی ورق گردانی کرنے لگا۔

    شام ہو چکی تھی۔ اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ کتاب پڑھنا ممکن نہیں تھا اور اس کے اعصاب پر کچھ ایسا بوجھ پڑ چکا تھا کہ بستر سے اٹھ کر بجلی کے سوچ بورڈ تک جانا دوبھر لگ رہا تھا۔

    وہ کتاب بند کرکے لیٹ گیا۔

    بہو اور بیٹے کی بےنیازی اسے یاد آ گئی اور اپنےوہ الفاظ بھی جو اس نے گھر سے نکلتے وقت اپنی بہو سے کہے تھے، ’’اب کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ تم لوگ چاہتے ہو کہ میں گھر سے نکل جاؤں۔‘‘

    ’’مگر میں کر کیا سکتا ہوں۔ کہاں سر چھپاؤں جاکر کدھر جا سکتا ہوں؟‘‘

    یہ سوچ کر اس پر ایک گہری افسردگی طاری ہو گئی۔

    اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اچانک اسی بند آنکھوں پر کسی نرم سی شے نے مس کیا۔

    اس نے آنکھیں کھول دیں۔ کمرےمیں روشنی پھیلی ہوئی تھی اور اس کی بڑی پوتی کلثوم پاس کھڑی مسکرا رہی تھی۔

    ’’دادا ابو! سوگئے تھے آپ؟‘‘

    ’’کیوں آئی ہو یہاں؟‘‘ وہ گرجا۔

    بچی کی آنکھوں میں جو میٹھی سی معصومانہ مسکراہٹ جھلک رہی تھی فی الفور غائب ہو گئی۔

    ’’دادا ابو۔‘‘ وہ آگے کچھ نہ کہہ سکی۔

    ’’کیا ہے؟‘‘ وہ دوبارہ گرجا۔

    ’’وہ۔ دادا ابو! کھانا۔‘‘

    ’’نہیں۔ بھوک نہیں ہے مجھے۔ بھاگ جاؤ فوراً۔‘‘

    ’’کلثوم کمرے سےباہر جانے لگی۔

    جب وہ کمرے میں آیا تھا تو اس نے ادھر ادھر نظر نہیں ڈالی تھی۔ آتے ہی بستر پر گر پڑا تھا۔ اب اس نے دیکھا کہ کمرے کی صفائی ہو گئی ہے مگر کتابیں بدستور منتشر ہیں۔

    ’’جاہل عورت۔‘‘

    وہ اپنی اَن پڑھ بہو کو جاہل سمجھتا تھا۔ اس کے بیٹے نے محبت کی شادی کی تھی اور وہ شروع ہی سے بہو کو پسند نہیں کرتا تھا اگر چہ وہ اس کے آرام کا ہر طرح خیال رکھتی تھی۔

    چند منٹ بعد بہو اور بیٹا آ گئے۔

    ’’بابا جان! کھانا کھا لیجیے ناں۔‘‘ یہ اس کی بہو کے الفاظ تھے۔

    ’’نہیں۔ کہہ جو دیا بھوک نہیں ہے۔ کیوں پریشان کرتے ہو مجھے۔‘‘

    ’’مگر ابو آپ نے تو دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔‘‘ اس کا بیٹا بولا۔

    باپ نے خشمگیں نظروں سے بیٹے کو دیکھا اور بیٹے نے نظریں جھکا لیں۔

    کچھ اور اصرار کرنےکے بعد دونوں مایوس ہوکر چلے گئے۔

    ان کے جانے کے بعد اس نے پھر کتاب اٹھائی۔ لیکن آدھ صفحہ پڑھ کر ہی اسے چھوڑ دیا۔ سرہانے کے اوپر اخبار بھی کھلا ہوا پڑا تھا۔ کتاب ایک طرف رکھ کر اس نے اخبار اٹھا لیا۔ وہی دہشت ناک خبریں تھیں جو اخباروں میں نمایاں طو رپر چھپتی ہیں۔ یکایک اس کی نگاہ ایک اشتہار پر پہنچ کر رک گئی۔

    اس اشتہار میں امریکی طرز پر ایک اولڈ ایج ہوم (OLD AGE HOME) کے قیام کی خوش خبری سنائی گئی تھی اور ان بوڑھے مردوں اور بوڑھی عورتوں کو اس ’ہوم‘ کے مالک احمد جاوید سے ملنے کو کہا گیا تھا جو بڑھاپے میں پرسکون زندگی بسر کرنےکے آرزومند ہیں۔ نیچے احمد جاوید کا پتا درج تھا۔

    اس نے سانس روک کر یہ خبر پڑھی۔

    ’’یہ تو بہت ہی اچھی خبر ہے۔‘‘

    اس نے اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہا اور اخبار کو لپیٹ کر تپائی کے اوپر رکھنے سے پیشتر وہ تین بار اس اشتہار کو پڑھ چکا تھا۔

    صبح اس کی بہو ناشتا لے کر آ گئی۔

    ’’باباجی! خدا کے لیے انکار نہ کریں۔‘‘

    بہو نے یہ الفاظ بڑی لجاحت سے کہے تھے۔ اس نے بہو کے ہاتھ سے ٹرے لے لی اور وہ اپنے سسر کو بڑی ممنونیت سے دیکھنے لگی۔

    جلدی جلدی ناشتا کرنے کے بعد اس نے لباس تبدیل کیا اور احمد جاوید سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گیا۔

    احمد جاوید کی عمر پچاس پچپن سے کم نہیں تھی مگر بڑا چاک چوبند دکھائی دیتا تھا۔ لبا س فیشن کے مطابق، چوڑی پیشانی اور آنکھوں میں ذہانت کی چمک۔ بری خوشی سے اس نے خیرمقدم کرتے ہوئے اسے اپنی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ نام وغیرہ پوچھا۔ حالات دریافت کیے اور جب اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ جس شخص سے وہ ملاقات کر رہا ہے وہ ہوم میں داخل ہونے کے لیے بےقرار ہے تو بولا:

    ’’مجھے آپ کی تشریف آوری پر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ آپ کی خواہش کی تکمیل کرکے مجھے اور خوشی ہوگی۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک اچھا خاصہ حصہ امریکا میں گزارا ہے۔ اس کی کچھ چیزیں مجھے پسند نہیں آئیں۔ کچھ پسند آئی ہیں اور ایک چیز جو بہت زیادہ پسند آئی ہے وہ ’’اولڈ ایج ہوم‘‘ کا سسٹم ہے۔ میں کئی بار اس قسم کے ایک ہوم میں گیا تھا اور وہاں رہنے والوں کو بہت مسرور اور مطمئن پایا تھا۔ سچ کہتا ہوں ان کے چہروں پر مجھے جو سکون نظر آیا تھا وہ قابل رشک تھا۔‘‘

    احمد جاوید نے ذرا رک کر اپنے ملاقاتی کا غور سے چہرہ دیکھ کر اس کے ردعمل کو بھانپنے کی کوشش کی۔ یہ ردعمل اس کی منشا کے عین مطابق تھا۔

    ’’میں نے قیام امریکہ کے دوران ہی اپنے ہاں اول ایج ہوم بنانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ میرے محترم! آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ سن رسیدہ افراد کو بڑے سکون کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ان بیچاروں کو نہیں ملتا۔ اسی ضرورت کو مدنظر رکھ کر میں نے زرکثیر صرف کرکے ایک بہت آرام دہ اور ہر لحاظ سے مکمل ہوم بنا لیا ہے۔ اخراجات کے لیے بڑی معمولی رقم مقرر کی ہے۔‘‘

    ’’کتنی؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’صرف ایک ہزار ماہانہ۔ جو ہوم کی سہولتوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک اور کچھ۔‘‘

    ’’اور کچھ؟ بس آپ چلیے میرے ساتھ۔ میں آپ کو ہوم دکھا دوں۔‘‘

    چائے پینے کے دس منٹ بعد وہ احمد جاوید کے ساتھ ایک خوبصورت، سجے سجائے کمرےمیں کھڑا تھا۔ اس کمرے میں سب کچھ موجود تھا۔ صوفہ سیٹ، کرسیاں، میز، تپائیاں، بک شیلف، الماریاں، فرش پر قالین، دیواروں پر رنگارنگ تصویریں۔ ایک طرف وال کلاک۔

    احمد جاوید نے مزید سہولتوں کی تشریح کی۔

    ’’ایک ملازم اور ایک ملازمہ خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ گھنٹی بجائیے۔ ایک منٹ میں موجود۔ ناشتا کھانا وقت پر اور کیا چاہیے پرسکون زندگی کے لیے؟‘‘

    اسے کمرہ بہت پسند آیا۔

    ’’اور کمرے بھی ہوں گے اور ان میں۔‘‘

    احمد جاوید بات سمجھ گیا۔

    ’’اور کمرے ضرور ہیں مگر جیسا کہ م میں بتا چکا ہوں ابھی اس سسٹم کی ابتدا ہوئی ہے۔ لوگ آتے جائیں گے اور ایک دن یہ ہوم واقعی اولڈ ایج ہوم بن جائےگا۔‘‘

    ’’تو ابھی صرف میں؟‘‘

    احمد جاوید نے جواب دیا۔

    ’’آپ کی طرح ایک صاحب آئے تھے۔ بےحد مطمئن اور خوش تھے۔ افسوس انھیں ایک پرانی بیماری نے کچھ زیادہ مدت خوشی سے زندگی بسر کرنے نہ دی۔ فوت ہو گئے۔‘‘

    اس دن دوسرے پہر وہ اپنی کتابیں ترتیب کے ساتھ رکھنے، کمرے کے فرنیچر کا اچھی طرح جائزہ لینے، نوکر اور نوکرانی سے تعارف ہونے میں گزر گیا۔ نوکر کانام بخشو تھا اور نوکرانی رشتے میں اس کی خاکہ تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔

    ہاجرہ نے بڑے سلیقے سے چائے کی ٹرے اس کے آگے تپائی پر رکھی تھی اور خود مودب ہوکر ایک طرف کھڑی ہو گئی تھی۔

    ’’بس جاؤ۔‘‘

    ’’جی کوئی حکم؟‘‘

    ’’نہیں کوئی نہیں۔‘‘

    کتنی تربیت یافتہ نوکرانی ہے۔ اسے اپنی بہو یاد آ گئی۔ جو اس کے ایک مرتبہ کہنے پر اول تو چائے بھیجتی ہی نہیں تھی۔ دوتین بار کہتا تھا تو کوئی بچہ چائے لے کر آ جاتا تھا جو کافی ٹھنڈی ہوتی تھی۔ دو تین گھونٹ بھرکر وہ پیالی ہاتھ سے رکھ دیتا تھا اور جب سیر کے لیے باہر جاتا تھا تو کسی ریستوران میں بیٹھ کر خوشگوار ماحول میں چائے پی لیتا تھا۔

    چائے پینے کے بعد اس نے کھڑکی کا پٹ کھول کر فضا میں دیکھا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اس روز فضا کچھ بدلی بدلی لگتی تھی۔ ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکوں نے اس کے ماتھے کو چھوا تو اسے ایک نئی لذت کا احساس ہوا۔

    ’’خواہ مخواہ اتنا وقت اس منحوس گھر میں بتایا۔ کاش اس ہوم کا علم ریٹائرمنٹ کے وقت ہی ہو جاتا۔‘‘

    اس نے سرد ہوا میں لمبا سانس لے کر سوچا۔

    شامکو کمرے سے باہر نکلا اور سیر کو روانہ ہو گیا۔

    گھنٹہ بھر ادھر ادھر گھومنے کے بعد کمرے میں آ گیا۔ احمد جاوید کرسی میں بیٹھا اس کا منتظر تھا۔

    ’’ویلکم سر!‘‘ تعظیماً اس نے اٹھ کر کہا۔

    ’’شکریہ۔‘‘

    ’’میں صرف یہ پوچھنے حاضر ہوا ہوں کہ کسی قسم کی دقت۔ کوئی تکلیف۔‘‘ احمد جاوید نے کرسی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔

    ’’جی بالکل نہیں۔ بہت خوش ہوں۔‘‘

    ’’آپ یہاں ہمیشہ خوش ہی رہیں گے۔ جلد ہی ایک صاحب آ جائیں گے۔ تنہائی نہیں رہےگی۔‘‘

    ’’کوئی صاحب آنے والے ہیں؟ اس کا سوال تھا۔‘‘

    ’’جی ہاں۔ انہیں بھی بڑھاپے میں سکون کی تلاش ہے۔ جلد جلد اپنے معاملات نپٹا رہے ہیں۔ برے خوش مزاج آدمی ہیں۔ امریکا میں بھی کئی سال گزار چکے ہیں۔ یہ آپ کے ساتھی بنیں گے۔‘‘

    ’’بہت خوب۔‘‘

    اور احمد جاوید شب بخیر کہہ کر چلا گیا۔

    رات کا کانا آ گیا۔ سادہ کھانا تھا مگر مزیدار۔ کھانا کھا کر اس نے چائے منگوائی اور اس سے فارغ ہوکر کچھ دیر ایک کتاب کا مطالعہ کیا اور بستر پر لیٹ گیا۔

    ’’یہی سکون ہے جس کی مجھے تلاش تھی۔ خوش قسمت ہوں کہ میرا خواب پورا ہو گیا ہے۔‘‘

    وہ جب تک جاگتا رہا، ایسے ہی خوش آئند تصورات اس کے ذہن پر چھائے رہے پھر وہ سو گیا۔

    صبح اٹھا تو اس کا جی بےاختیار چاہا کہ کچھ گنگنائے

    خدا جانے یہ کس کو دیکھ کر دیکھا ہے دنیا کو

    کہ جو شے ہے نگاہوں کو حسیں معلوم ہوتی ہے

    دوسرا مصرع وہ بار بار گنگناتا رہا۔

    ملحقہ غسل خانے میں وہ نہایا دھویا۔ نکلا تو چائے کی ٹرے تپائی پر رکھی ہوئی تھی۔

    ’’یہ سہولت اس منحوس گھر میں کہاں تھی؟‘‘

    چائے پی کر وہ کھڑکی میں جا کھڑا ہوا۔

    فضا میں روشنیاں اترتی چلی جا رہی تھیں۔ بازاروں اور سڑکوں پر زندگی جاگ اٹھی تھی۔ بچے دو دو تین تین کی ٹولیوں میں مدرسوں کو جا رہے تے۔ اسے اپنے پوتے اور پوتیوں کا خیال آ گیا۔ ’’بدتمیز کہیں کے۔‘‘ اور وہ کھڑکی سے الگ ہو گیا۔

    سکون کے دن تھے۔ سکون کی راتیں تھیں اور وہ خود کو ایک ایسا پنچھی محسوس کرتا تھا جو پنجرے کی قید سے رہائی پاکر فضا کی وسعتوں میں پوری آزادی کے ساتھ اڑ رہا ہو۔

    ایک ہفتہ بیت گیا۔ ایک اور ہفتہ بیتا اور وہ شام کی شائے پی کر سیر کے لیے جانے ہی والا تھا کہ اماں ہاجرہ نے اوپر آکر اسے اطلاع دی کہ آپ کے گھر والے آئے ہیں۔

    ’’کیا ہے۔ آ گئے ہیں تو ہوا کیا ہے۔ مجھے واپس لے جانے سے تو رہے۔ چلے جائیں گے تھوڑی دیر بیٹھ کر۔‘‘

    ’’بلا لو۔‘‘

    اس کا بیٹا، بہو اور پوتا اور پوتیاں آ گئیں۔ بہو نے پھل کی ٹوکری اٹھا رکھی تھی۔

    ’’سلام علیکم ابو، سلام علیکم بابا جی، دادا جان سلام علیکم۔‘‘

    آوازیں بلند ہوئیں۔ اس نے سر کی جنبش سے جواب دیا اور ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا اراشارہ کیا۔

    میاں بیوی صوفے پر اور بچے نیچے بیٹھ گئے۔

    ’’ابو آپ یہاں خوش ہیں۔‘‘ اس کے بیٹے نے سوال کیا۔

    ’’بہت خوش ہوں۔ بہت مطمئن ہوں۔‘‘

    ’’اچھا بڑی اچھی بات ہے۔ ہمیں دکھ ہے کہ آپ کو خوش اور مطمئن نہیں کر سکتے تھے۔‘‘ بیٹے کے لہجے میں دبا دبا دکھ تھا۔

    ’’بابا جی اسے کیا کہتے ہیں۔‘‘ بہو نے پوچھا۔

    ’’اولڈ ایج ہوم۔‘‘

    ’’اول۔۔۔‘‘ بہو کی زبان پر پہلا لفظ ہی نہ آ سکا۔

    ’’یہ ہوتا کیا ہے بابا جی۔‘‘

    اس نے گلو خلاصی کے لیے دونوں ہاتھ لہرائے۔ ’’تم نہیں سمجھ سکتیں۔‘‘

    بیٹے نے باپ کو پھل کی ٹوکری دی۔

    ’’مجھے یہاں کسی شے کی کمی نہیں ہے۔ سب کچھ مل جاتا ہے۔ لے جاؤ بچوں کے لیے۔‘‘

    ’’نہیں ابو! یہ آپ کے لیے لائے ہیں۔‘‘

    باپ نے بیٹے کی طرف ٹوکری بڑھا دی تھی۔

    اس دوران میں بچوں نے ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکالا۔ دادا محمود کی طرف دیکھتا تھا تو وہ فوراً اپنا سر جھکا لیتا تھا۔ یہی حال اس کی بہنوں کا بھی تھا۔

    ’’کتنی چالاکی سے تمیزداری کا ڈراما کر رہے ہیں۔‘‘ یہ سوچ کر وہ خود ہی مسکرا پڑا۔

    گھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ کون کون اسے ملنےکے لیے گھر آیا اور اسے کیا بتایا گیا۔ ہمسایوں کے سامنے اس کے بارے میں کیسی کیسی غلط بیانی کی گئی۔ یہ سب کچھ اسے بتایا گیا۔

    ’’خبردار کسی کو بھی یہاں کا علم نہ ہو۔‘‘ اس نے تاکیداً کہا۔

    ’’جی ابو ہم نے کسی کو نہیں بتایا۔ آپ نے جو کہہ دیا تھا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘

    وہ جانے لگے تو بیٹے نے ایک بڑا سا لفافہ باپ کے ہاتھ میں دے دیا۔ یہ وہ خط تھے جو اس کے نام اس کی عدم موجودگی میں آئے تھے۔

    اس کے چلےجانے کے بعد اس نے لفافے سے خط نکالے اور ایک کو پڑھنے لگا۔

    ایک خط کتابوں کی ایک دکان سے آیا تھا جس میں اسے NEW ARRIVALS کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔ دوسراخط اس کے پرانے دفتر کی یونین کے سکریٹری کی طرف سے تھا جس میں اس سے درخواست کی گئی تھی کہ اپنے پرانے ساتھی فیروز دین کی الوداعی پارٹی میں شامل ہوکر ممنون فرمائے۔ دو خطوں میں اس کے دوستوں نے اپنے بیٹوں کی شادی پر اسے مدعو کیا تھا۔

    کتابوں کی دکان والا خط اس نے تکیے کے نیچے رکھ لیا اور باقی پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے۔

    ’’اب میرا ان لوگوں سے کیا تعلق واسطہ؟‘‘

    ایک مہینہ گزر گیا۔ نوکر اور نوکرانی نے اپنی ذمے داریوں میں کبھی کسی قسم کی بےقاعدگی نہیں کی تھی۔ مگر اس روز صبح کی چائے چھ بجے کی بجائے ساڑھے سات بجے ملی۔

    ’’ماف کرو باباجی۔‘‘ ہاجرہ نے خود ہی کہنا شروع کر دیا، ’’چائے دیر سےملی۔ دیر سے جو آئی ہوں۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ اس نے ہاجرہ کے الفاظ کو کوئی اہمیت نہیں دی تیھ۔

    ’’وہ جی۔ بیمار ہو گیا تھا۔‘‘

    ’’کون بیمار ہو گیا تھا۔‘‘ اس نے یونہی سوال کر دیا اور چائے کا کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔

    ’’جی و ہ میرا پوتا جی۔ فڑا فکر ہے جی۔ بیمار ہی چھوڑ کر آئی ہوں۔ میرا دھیان اسی میں لگا ہوا ہے۔ دعا کریں بزرگ ہیں۔ ٹھیک ہو جائے۔‘‘

    وہ گھونٹ گھونٹ چائے پیتا رہا اور وہ ملتجیانہ نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔

    ’’دعا کریں گے ناں۔‘‘

    اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

    ’’ناشتا تھوڑی دیر بعد یا ابھی؟‘‘ ہاجرہ نے ٹرے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

    ’’تھوڑی دیر بعد۔‘‘

    اور یہ الفاظ سن کر وہ چلی گئی۔

    وہ جب کھڑکی کی طرف جارہا تھا تو اسے اپنے پوتے کا خیال آ گیا اور اس کے ساتھ ہی پوتے اور پوتیوں کے چہرے اس کے سامنے آ گئے۔ ’’اس روز کتنے مؤدب ہوکر یہاں بیٹھے تھے۔‘‘ وہ مسکرانے لگا۔

    دھوپ پھیل چکی تھی۔ بازاروں میں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ اس کی نگاہیں دور سکول کی عمارت پر پڑیں۔ بچے قطاروں میں کھڑے تھے۔ دعاکر رہے ہوں گے۔ وہی دعا جو اس کا پوتا اور پوتیاں گھر آکر کبھی کبھی اسے سنایا کرتی تھیں۔

    لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

    زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

    وہ کھڑکی میں کھڑا رہا۔ قریب کمرے کےاندر شور ہوا۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ یہ بخشوں تھا جو ناشتا لے کر آیا تھا۔ بیڈ ٹی اور ناشتا ہاجرہ ہی لایا کرتی تھی۔ ناشتے کے بعد بخشو حقہ تازہ کرکے لاتا تھا۔ ناشتا لانا اس کی ڈیوٹی میں شامل نہیں تھا۔

    ’’ہاجرہ کہاں ہے؟‘‘ اس نےکھڑکی سے الگ ہوتے ہوئے پوچھا۔

    ’’اسے اپنے پوتے کا بڑا فکر ہے۔ گھر چلی گئی ہے۔‘‘

    ’’زیادہ بیمار ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’کہتی تھی برا کمزور ہو گیا ہے۔‘‘

    وہ کرسی میں بیٹھ کرناشتا کرنے لگا۔ چند منٹ گزرنے پر بخشو حقہ لے آیا۔

    تازہ اخبار لے آؤں بامار سے؟

    ’’نہیں میں خود لے آؤں گا۔‘‘

    ناشتا کرنے کے بعد وہ بڑے اطمینان کے ساتھ حقے کے کش لگاتا تھا۔ اس وقت بھی وہ کش لگا رہا تھا اور جلد باہر نکلنا چاہتا تھا۔

    اخبار خریدکر وہ اپنی منزل متعین کیے بغیر چلتا گیا۔ اخبار کی بڑی خبریں وہ کسی باغ میں بیٹھ کر پڑھتا تھا۔ اس روز بھی ایک باغ کے اندر بنچ پر بیٹھ گیا۔

    ایک دم شور بپا ہونے لگا۔ اس نے سامنے دیکھا۔ لڑکے آدھی چھٹی کے وقت خوش خوش شور مچاتے ہوئے اپنی اپنی کلاسوں سے نکل رہے تھے۔

    اسےسکول کی عمارت شناسا محسوس ہوئی اور دوسرے ہی لمحے اسے معلو ہو گیا کہ وہ اس سکول کے پاس بیٹھاہے جس میں اس کا پوتا اور پوتیاں پڑھتی ہیں۔

    ’’پتا نہیں میں یہاں کیسے آ گیا۔‘‘

    وہ اخبار سرسری طور پر دیکھنے لگا۔ چند منٹ میں سارا اخبار دیکھ لیا۔ اٹھا تو اس کے پاس وہ تینوں کھڑے تھے۔

    ’’تم۔؟‘‘

    تینوں نے بیک وقت اثبات میں سر ہلا دیے۔

    ’’ٹھیک ہو؟‘‘

    پھر اسی طرح سر ہلنے لگے۔

    ’’دادا ابوجی۔ ہم۔‘‘

    ’’کبھی۔۔۔ دادا ابوجی۔۔۔‘‘ کلثوم بس اتنا کہہ سکی۔

    نرگس نے کچھ نہ کہا صرف اپنا سر ہلاتی رہی۔

    ’’کیا یہ وہی بچے ہیں جنھوں نے اسے اس قدر پریشان کر دیا تھا۔ اب کہنا کیا چاہتے ہیں۔‘‘

    آدھی چھٹی کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ سکول کی گھنٹی اس کا اعلان کر رہی تھی۔

    ’’جاؤ اپنی کلاسوں میں۔‘‘

    اور وہ باغ سے باہر نکلنے لگے۔ باہر نکل کر وہ بغیر ارادے کے رک گیا اور مڑ کر دیکھنے لگا۔ وہ تینوں ابھی تک وہیں کھڑے تھے اور اسے دیکھ رہے تھے۔

    وہ واپس پہنچا۔ بخشو کمرے کی صفائی کر چکا تھا۔

    ’’جناب! یہ آپ کا ہے۔‘‘ بخشو کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ ’’صفائی کرتے ہوئے وہاں سے ملا ہے۔‘‘ بخشو نے کمرے کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’نہیں۔ میرا تو نہیں۔ دکھاؤ۔‘‘

    اس نے لفافہ لے لیا۔

    ’’شاید یہ ان صاحب کا ہے جو پہلے یہاں رہتے تھے۔‘‘

    ’’وہ باباجی۔ بے چارے یہیں مر گئے تھے۔‘‘ بخشو نے دردبھرے لہجے میں کہا، ’’کھانا کتنے بجے جی۔ ہاجرہ نہیں ہے نا۔ میں بھی پکا لیتا ہوں جی۔‘‘

    ’’جب پکا چکو تو لے آنا۔‘‘

    بخشو چلا گیا۔

    وہ کرسی میں بیٹھ گیا تھا۔ لفافہ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔ لفافے پر پتا درج تھا۔

    برخوردار الطاف احمد،

    مکان نمبر ۳۱۔ ڈی۔ محلہ ست رنگاں، اندرون موچی گیٹ، لاہور

    ’’یہ الطاف احمد کون تھا، برخوردار کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط لکھنے والے کا کوئی چھوٹا عزیز ہوگا۔ ممکن ہے بیٹا ہو۔ تو اس نے بیٹے کو کیا لکھا تھا اور یہ خط پوسٹ کیوں نہیں ہوا تھا۔ یہیں کیوں پڑا رہا؟‘‘

    ایسے سوالات نے اس کے ذہن کا احاطہ کرلیا تھا۔

    ’’اب وہتو ہے نہیں جس نے خط لکھا تھا۔ دیکھ لینے میں کیا حرج ہے۔‘‘ اس نے لفافہ کھولنے کے لیے جواز تلاش کر لیا۔

    ذرا سی ہچکچاہٹ۔۔۔ اور پھر لفافہ چاک ہو چکا تھا۔ وہ پڑھنے لگا۔ الفاظ ٹیڑھے میڑھے تھے۔ لگتا تھا لکھنے والے کی انگلیاں کانپ رہی تھیں۔

    میرے عزیز بیٹے

    تم پر اللہ کی سلامتی ہو

    چار دن سے میری حالت کافی خراب ہو گئی ہے۔ ہارٹ بار بار سنک کرتا ہے۔ زندگی سے اب مایوسی ہی مایوسی ہے۔

    میرے عزیز اور پیارے بیٹے! تمہاری ماں کے انتقال کے بعد میں بری طرح یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ بالکل بےآسرا اور بےسہارا ہو گیا ہوں۔ مجھے تم سے، تمہاری آپا سے یہ شکایت ہو گئی تھی کہ تم لوگ میری پروا نہیں کرتے۔ تم لوگوں کاسارا وقت اپنے بچوں، دوستوں اور سہیلیوں کے لیے وقت ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کا ردعمل یہ ہوا تھا کہ میں اپنے گھر سے بیزار ہو گیا تھا۔ چاہتا تھا کہ یہاں سے نکل بھاگوں۔ انہی دنوں احمد جاوید سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ امریکہ میں اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں ’’اولڈ ایج ہوم‘‘ بوڑھوں کے لیے ایک جنت ہوتی ہے جس میں رہنے والے بڑی پرسکون زندگی بسر کرتےہیں۔ اس نےاسی طرز کا ہوم بنا لیا تھا اور میں اس کی باتوں سے متاثر ہوکر اس کے ہوم میں آ گیا تھا۔

    یہ چند ہفتے جو میں جو میں نے یہاں گزارے ہیں میرے لیے عارضی سکوں لے کر آئے تھے۔

    بیٹا! جب سے بیمار ہوا ہوں۔ تم سب لوگ مجھے بہت یاد آرہے ہو۔ اپنے کنبے کی جدائی مجھ پر شاق گزرنے لگی ہے۔

    الطاف بیٹے! اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں نے ایک بہت بڑی غلطی کی تھی۔ یورپ میں گھر کا کیا تصور ہے میں نہیں جانتا مگر ہمارا گھر تو ہماری چھوٹی سی ایک دنیا ہوتی ہے۔ جس میں رہنے والے ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہوتے ہیں کہ انہیں الگ الک کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ایک درخت کی طرح جس کی شاخیں زمین کے اندر ایک دوسرے سے گتھی ہوتی ہیں۔ ہمارے گھر بزرگوں کی شفقتوں، جوانوں کے قہقہوں اور بچوں کی معصوم مسکراہٹوں سے آباد رہتے ہیں۔ یہی سب کچھ ہماری زندگی کی رونق ہے۔ ہماری زندگی کی بہار ہے۔ اسی میں زندگی کا سارا حسن ہے۔

    یہاں تنہائی مجھے اندر ہی اندر چاٹتی رہی ہے۔ مجھے اب اس کا علم ہوا ہے۔

    میرے پیارے بیٹے! آؤ اپنے بیمار اور لاچار باپ کو اس گھر میں لے جاؤ جس میں اس کا حقیقی سکون ہے۔ آؤ الطاف! جلدی آؤ۔ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘

    یہ تحریر پڑھ کر اس کے اندر ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ وہ کرسی سے اٹھ بیٹھا اور ٹہلنے لگا۔

    وہ کئی منٹ تک ٹہلتا رہا۔

    بخشو آیا۔ ’’جناب کھانا لے آؤں؟‘‘

    ’’مجھے یہ بتاؤ یہ خط یہیں کیوں پڑا رہا؟‘‘

    بخشو سوچ کر بولا۔

    ’’جناب! میں نہیں جانتا۔ اس نے ہاجرہ کو دیا ہوگا۔ وہ بھول گئی ہوگی۔‘‘

    ’’اس کے گھر سے کوئی آیا تھا؟‘‘

    ’’مرنےکے بعد اس کا بیٹا آیا تھا اور میت لے گیا تھا۔‘‘

    وہ پھر کمرے میں پھرنے لگا۔

    ’’کھانا لے آؤں جناب؟‘‘ بخشو نے پوچھا۔

    اس نے ملازم کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا اور اپنی کتابیں اور کپڑے ایک طرف رکھنے لگا۔ بخشو اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے