Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹھاکر دوارہ

قاضی عبد الستار

ٹھاکر دوارہ

قاضی عبد الستار

MORE BYقاضی عبد الستار

    کہانی کی کہانی

    کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو داناپور میں رہتا تھا اور ہولی کے دن ٹھاکردوارا میں عورتوں کا ناچ کراتا تھا۔ جب زمینداری ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی بہت ساری چیزیں بھی ختم ہو گئیں۔ ختم ہونے والی چیزون میں ٹھاکر دوارا کا ناچ بھی تھا۔

    بڑے باغ کے دھورے پر ڈھول تو سانجھ سے بج رہے تھے لیکن اب ان کی گدے کھائی آواز میں لیزم کی تولی گوٹ بھی ٹانکی جانے لگی۔ پتمبر پاسی نے چلم منہ سے نکال کر کان کھڑے کیے اور کہزلی۔ اب گدے کھائی آواز پر لگی تو گوٹ کے اوپر مدراپاسی کی چہچہاتی آواز کے گول گول ٹھپے بھی پڑنے لگے تھے۔ پتمبر نے چلم مانچی پاس ہی دھری نیائی میں جھونک دی اور اپنےبھاری گھٹنوں پر جو جہازی پلنگ کے تیل پلائے پایوں کی طرح ٹھوس تھے، دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوا تو اس کے سر کا مریٹھا چھپر کے بانس سے لڑگیا۔

    ساتھ ہی تدواری سے بڑ کئو کی مہتاری نکلی جو اونچے ٹھاٹھ اور چوڑے ہاڑ کی ہٹی کٹی ادھیڑ عورت تھی۔ اس کے پیروں میں کالے پرمٹے کالہنگا اور سر پر تول کالمبا چوڑا اوڑھنا لہریں لے رہا تھا اور دونوں کالے ہاتھوں پر پیتل کی تھالی دھری تھی۔ تھالی میں دھرے پیتل کے ڈھکے لوٹے کے پاس ہی مٹی کا چراغ جل رہا تھا اور تلچوری کے ڈھیر پر گڑ کی سنہری ڈلیاں چمک رہی تھیں اور اس کے دونوں کندھوں سے لگی دونوں بہویں چل رہی تھیں جو لال پیلی دھوتیوں میں سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی تھیں لیکن ان کے چاروں ہاتھ باہر تھے۔ چاندی اور لاکھ سے جڑےہوئے ہاتھوں کے ایک جوڑے پر کمان اور پانچ تیر رکھے تھے اور دوسرا جوڑا مٹی کی ایک مٹکی سنبھالےہوئے تھا۔

    پتمبر سرنہوڑا کر چھپر سے نکلا اور بیچوں بیچ آنگن کھڑا ہوگیا۔ بڑکئو کی مہتاری نے تھالی اس کے چہرے کے سامنے تین بار نچاکر روک لی۔ پتمبر نے گڑ کی ڈلی اٹھاکر منہ میں ڈال لی۔ بڑکئو کی مہتاری نے پتل ہٹاکر لوٹے سے رنگ کا ایک چلو بھرا اور پتمبر کے نئے لنکلاٹ کے چوبندے پر چھڑک دیا اور وہ اس طرح سرخ ہوگیا جیسے اس نے اپنے تیر سے شکار کیےہوئے زخمی بڑیلے کو دونوں بازوؤں میں بھر کر داب لیا ہو اور خونم خون ہوگیا۔ پتمبر نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چندرماں سر کے اوپر آچکا تھا۔ اس نے بڑی بہو کے ہاتھ سے کمان لے کر ماتھے سے لگائی۔ چھوٹی بہو کی ہتھیلی سے ایک تیر اٹھاکر ہونٹوں سے چوما اور دونوں ہاتھوں سے مٹکی اٹھاکر منہ میں انڈیل لی اور وہ تینوں عورتیں مٹی کی ڈھلی مورتیوں کی طرح کھڑی گھٹ گھٹ کی آوازیں سنتی رہیں۔ جب مٹکی خالی ہوگئی اور چھوٹی بہو نےسنبھال لی تو بڑکئو مہتاری نے پتمبر کے چارپائی جیسے چوڑےچکلے سینے پر ہاتھ پھیر کر کہا۔

    ’’اب کی ہولی ہم کا دے دیو‘‘

    ’’دیا‘‘

    اور دونوں بہوؤں کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور دوسرے ترواہے میں کھڑے ہوئے ہل کی مٹھیا پکڑ کر پرنام کیا۔ چار جوڑے لمبے چوڑے بیلوں کے کندھے پر تھپکیاں دیں۔ ہاتھی ایسی بندھی ہوئی مندرائی بھینس کے این پر انگلیاں پھیریں اور باہری دروازے کے کپاٹ سے لگالوہے سے منڈھا اورتیل سے سینچا ہوا سات ہاتھ کا لٹھ اٹھاکر چوما اور کندھے پر رکھ کر باہر نکلا۔ دہلیز سے اترا تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ اپنے پاؤں پرائے معلوم ہونےلگے اورکھوپڑی میں آندھی چلنےلگی۔ دور پاس سے پالاگن اور جے جے کارکی آوازیں سبیرا کرتی چڑیوں کی چہکار بن گئیں اور وہ جھومتا جھامتا بڑے باغ کی دانتی پر آگیا جہاں اس کے بھائی بھتیجے جانے بوجھے سچے یاردوست اس کاانتظار کر رہے تھے۔ اس نے جاتے ہی ایک لونڈے کے ہاتھ سے مشعل چھین لی اور نئی پرانی اور سوکھی تازی لکڑیوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں جھونک کر نعرہ لگایا،’’جے ھولسکارانی کی‘‘

    اور لمبے چوڑے ڈیل ڈول پر لال دھوتی اور چمرودھے جوتے پہنے مدورا لٹو کی طرح ناچنے لگا اور ڈھول تاشے اور لیزم اور جھانجھ سب ایک ساتھ مل کر آوازیں انڈیلنےلگے۔ جیسے ساون بھادوں میں ہتھیا نکھت برس رہا ہو اور وہ گردن گردن پانی میں کھڑا ہو اور پانی بڑھتا جارہاہو اور ہاتھ پاؤں جواب دیتے جارہے ہوں۔ جب وہ ’’ہوری‘‘ گاتےگاتے ڈوبنےلگاتوہاتھوں کے چپو اسے بہا لے گیے۔ نکال کر لے گیے اور اسے نہیں معلوم پھر کیا ہوا۔ جب آنکھ کھلی تو وہ اپنی تدواری کے پلنگ پر لیٹا تھا اور سارے آنگن میں کڑی دھوپ چھائی تھی اور اس کے نیچے چھپروں میں اور ترواہوں میں نرا آدمی اچھل رہا تھا۔ نری عورتیں اچھل رہی تھیں۔ نرےلڑکےکود پھاند رہے تھے اور معاملہ رنگ سےاترکر کیچڑ اور گوبر پر آچکا تھا۔

    ابھی وہ اپنے اندر کے بھاری پن سے جوجھ رہا تھا کہ ایک طرف سے درگا نکلا اوردارو کاادھ سیر اکلہڑ اس کے منہ سے لگادیا۔ اور پھر وہ لیپ دیا گیا۔ پوت دیا گیا۔ نہلا دیا گیا۔ پھر کندھوں پر اٹھالیا گیا اور گاؤں کے گلیاروں کو چھان دیا گیا اور گھروں کو متھلیا گیا اور جب دوپہر ڈھلنے لگی تو اپنے دوارے سے پہنچا۔ کنویں پر منجھلؤ اور چھٹکؤ نہا رہے تھے اور صابن بہا رہے تھے اور دروازہ اندر سے بند تھا۔ وہ چھپر کے نیچے کھٹیا پر ڈھیر ہوگیا۔ بڑی دیر کے بعد کسی نے اس کاانگوٹھا پکڑ کر ہلادیا۔ اس نے دھواں دھار آنکھیں کھول دیں۔ سامنے بڑکئو کی مہتاری کھڑی تھی۔ لال لال اوڑھنی لال کرتی لال لہنگا بالوں میں تیل آنکھوں میں کاجل دانتوں میں مسی اور ہونٹوں پر ہنسی۔ اس نے امس کر ایک بار دیکھا۔ ہنسی باچھوں سےنکل کر کانوں تک پہنچ گئی تھی۔

    ’’چلو پانی دھرا ہے نہالیو‘‘ وہ کھٹیا سےاس طرح جیسے ہاتھی بیٹھ کر اٹھتا ہے۔ ایک ایک جوڑ کو سہج سہج سنبھال سنبھال کر چلا اور کنویں کی جگت پر بیٹھ گیا۔سانجھ ہو رہی تھی لیکن دھوپ میں دھار باقی تھی۔ آدھی دھوتی باندھ کر اور آدھی لپیٹ کر اٹھا۔ دروازے پر بڑکئو کی مہتاری راہ دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑا کر تدواری کے پیچھے لے گئی،’’آج یادھوتی باندھو۔کرتا پہنو۔۔۔ چادر باندھو۔۔۔ ایک کندھے پر دھنئی (کمان) اور ایک پر تیر سجاؤ اور ہم کا لئے کے دوارے چلو۔ تم تال دیو ہم ناچیں۔‘‘

    ’’دوارے‘‘ جیسے کمان کو کان تک کھینچ کر چھوڑ دیا گیا ہو۔

    ’’ہاں۔۔۔ مالک کے دوارے ٹھاکر دوارے۔‘‘اور جیسے پوری کوٹھری کی فضا برچھی کی نوک پر تل گئی۔

    ’’بھاگیہ وان۔۔۔ مالک کو مریں پانچ برس ہوئے گئیں۔‘‘

    ’’ہاں ہمار گھر ماں بھی پانچ موتیں ہوئے گئیں۔‘‘

    ’’پانچ موتیں؟‘‘

    ہاں۔۔۔ پانچ موتیں۔۔۔ بڑی بھینس مری پہلے۔ پھر لال جوڑ کر بڑی بدھیا مری۔ پھر بڑکئو مرے۔۔۔ پھر سنجھلؤ مرے۔۔۔ پھر منجھلؤ کی دلہن مری پانچ ہوئے گئیں۔‘‘

    ’’مالک کا پورا دوارہ کرائے پر اٹھ گوا۔ کہوں گودام ہے۔ کہوں ہسپتال ہے۔ کہوں دپھتر ہے۔‘‘

    ’’مل دوارہ تو ہے۔۔۔ او تو کوؤنائیں اٹھائے لئے گوا۔۔۔‘‘

    ’’واجگہ تو ہے جہاں دادا پر دادا ناچت رہیں۔ تیج تہوار کے دن سب اپنی جگہ پر آوت ہیں۔۔۔ سب پھیر کرت ہیں۔ سنو۔۔۔ بڑکئو مر گیے، مل ہمرے لیے جندہ ہیں۔ تمرے لیے جندہ ہیں۔۔۔ تم ہم کا بڑکئو کی مہتاری کاہے کہت ہو۔‘‘

    ’’مل بڑکئو کی مہتاری یونائیں ہوئے سکت۔۔۔ یونائیں ہوسکت ۔‘‘ اور وہ باہر جانےکے لیے مڑنےلگا تو بڑکئو کی مہتاری نے اس کی دھوتی پکڑلی۔’’بڑے پاسی کے پوت ہو۔ رات کا بچن دیت ہو اور سبیرے چھین لیت ہو۔‘‘ تدواری سے گزرتے ہوئے یہ جملہ لاٹھی کی طرح اس کے کان پر لگا۔ وہ لڑکھڑاگیا۔ لیکن پھر سنبھل کر پورے قدموں سےزینے کی طرف چلا چھپر میں دونوں بہوئیں گھونگھٹ کاڑھے کھڑی تھیں۔ اس نے ان کی طرف دیکھے بغیر کہا،’’کوئی آوے تو کہہ دینا نائیں ہیں۔۔۔ کہو ں ہولی ملے گئے‘‘

    زینےکا دروازہ اتنے زور سے بند کیا جیسے بڑکئو کی مہتاری کے منہ پر لٹھ مار دیا ہو۔ تینوں عورتیں کھڑی اس کے پیروں سے دھچکتی سیڑھیاں گنتی رہیں۔ وہ بنگلے میں برے جہازی پلنگ پر ڈھیر ہوگیا۔ بڑکئو کی مہتاری نے پھر اس کے کان میں کاٹ لیا۔

    ’’پاسی کے پوت۔‘‘

    ’’ہنھ۔۔۔ کوئی ٹھاکر کہہ کے دیکھے تو سینے پر چڑھ کے نٹی سے خون پی لیوں۔‘‘ وہ ابلتا رہا۔ کھولتا رہا۔ لمبے لمبے سانس بھرتا رہا۔ جب بے چینی اس کے تلووں سے ٹپکنےلگی تو وہ منڈیر کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ نیچے سارادریا پور بچھاتھا۔ داناپور راج کاتخت گانوں۔راج باسیوں کاکھرا گاؤں جو ایک ہی چاچا بابا کی اولادمیں تھے۔ دن میں نوکری کے نام پر دانا پور راج کی طرف لاٹھیاں اٹھاتے اور کمانیں کڑکاتےاور رات میں رہزنی کرتے اور ڈاکے ڈالتے۔ جب پکڑ ہی لیے جاتے تو دانا پور راج ان کی ضمانت کرتا اور مقدمے لڑاتا۔ اگرسزا ہوجاتی تو ان کی بیوی بچوں کی ایسی رکھوالی کرتاجیسے وہ گھر میں نہیں سسرال میں ہوں۔ کیسا دن تھا وہ بھی۔ سبیرے جمینداری فیل ہونے کی ڈگی بجی اور سانجھ ہوتے ہوتے ’’بابا‘‘ مار ڈالے گیے۔ ابھی پولیس کی ہاہاکار مچ رہی تھی کہ ٹھاکر نواب علی کی سواری آگئی۔ ہاتھی سےاترتے ہی مقتول دلاور اسی کے بیٹے پتمبر پاسی کی طلبی ہوئی۔ وہ جیسے ہی پاؤں چھونے کو جھکا اسے کندھوں سے پکڑ لیا۔

    ’’پتمبر‘‘

    ’’مالک‘‘

    ’’تمہارے مقتول باپ کامقدمہ ہمارا ہے۔ یہ کٹھار تمہارا ہے۔ بڑا باغ تمہارا ہے۔ دریاپور کی سرکاری آراضی تمہاری ہے۔ تمہارے باپ کی جگہ ہمارے پلنگ کا پہرہ بھی تمہارا ہے۔‘‘ اتنی بہت سی چیزیں ایک ساتھ پاکر وہ بوکھلانےبھی نہیں پایا تھا کہ ٹھاکر کھڑی سواری سدھار گیے۔اور اس شام جب وہ دریاپور کا پردھان چن لیا گیا تو بندوق چھوڑتے اور گولے داغتے ہجوم کے ساتھ سرکار کو سلام کرنے دوارے پہنچا۔ دالان پر پہرہ کھڑا ہوچکا تھا لیکن ’’ہال‘‘ کے پردوں سے آوازئی کہ پتمبر کو اندر بھیج دو۔

    ٹھاکر کے سامنے خالی گلاس اور بھری بوتل رکھی تھی۔

    ’’مبارک ہو‘‘

    ’’سرکار‘‘اس کے منھ سے اور کچھ نکلا ہی نہیں۔

    ’’آج سے تمہاری پہرے داری موقوف۔‘‘

    ’’سرکار‘‘

    ’’پلنگ کا پہرے دار گاؤں کی پردھانتا نہیں کرسکتا۔‘‘

    ’’سرکار‘‘

    ’’اور تم پردھانتا چھوڑ بھی نہیں سکتے کہ اگر ہم پر اس سے بھی برا وقت آگیا تو کم از کم ایک پردھان تو ہمارے ساتھ ہوگا۔‘‘

    ’’شراب پیتے ہو؟‘‘انہوں نے گلاس بھر لیا۔

    ’’مالک‘‘

    ’’مت پیا کرو شراب سوت برداشت نہیں کرتی۔ ہم اس لیے پیتے ہیں کہ ہمیں اس کی سوت نہیں لانا ہے۔ شادی اس لیے نہیں کی کہ بچے پیدا ہوں گے اور جیسے جیسے بڑھتے جائیں گے نشہ گھٹتا چلاجائے گااورشراب بوڑھی ہوتی چلی جائے گی۔ تم جاسکتےہو۔‘‘

    ’’مالک‘‘

    ’’داناپور راج میں ٹھاکر نواب علی کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ تمہارا پہرہ ایک رسم تھا۔ بہت سی رسموں کی طرح آج یہ رسم بھی اٹھا دی گئی۔‘‘

    ’’سپاہی‘‘

    ’’دریاپور کے پردھان پتمبر جی کو باہر لے جاؤ۔ مٹھائی کھلاؤ حقہ پلاؤ اوررخصت کردو۔‘‘

    وہ کھڑا کانپ رہا تھا کہ ایک مضبوط ہاتھ نے اسے شانے سے پکڑ کرکمرے سے باہر کردیا۔ اس نےکڑوی مٹھائی کھائی اور میٹھا حقہ پی لیا اور معلوم نہیں کیسے اپنے گھر پہنچ گیا اور پھر پردھانتا کی پہلی ہولی آئی۔ سورج بیٹھتے بیٹھتے وہ اپنے پریوار کے ساتھ گرہی پہنچ گیا۔ بہت سے سوانگ آرہے تھے اور جارہے تھے۔ جب سب چلے گیے تو اس کی عورتوں کو اندر اور مردوں کو باہر بلایا گیا اور پان حقے کی تواضع کی گئی اور جب رات ادھیانے لگی تو سرکار برآمد ہوئے۔

    ’’پردھان پتمبر۔۔۔ تمہارا اور تمہاری عورتوں کا یہ ناچ ہم کو پسند نہیں رہا۔ دنیا سنےگی تمہارے خلاف ہوجائے گی۔ تم کو ووٹ نہیں دے گی۔ تم کو پردھانتا سے اتار دے گی۔‘‘

    ’’ناچ توپرکھوں سےہوتا آیا ہے۔۔۔ پردھانتاتو آج آئی ہے۔۔۔ پردھان چنے جاتے ہیں پتمبر پیدا ہوتا ہے۔‘‘

    وہ سرجھکائے بیٹھے رہے۔ سٹک کے گھونٹ لیتے رہے اور تالی کی ٹھیک دیتا رہا اور عورتیں ناچتی رہیں اور پچھلے برسوں سے زیادہ دیر تک اور مستی سے ناچتی رہیں۔ اس نے اپنےگالوں پر نمی محسوس کی۔ آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔ ساراگاؤں سوچکاتھا۔ پتمبر جاگ چکا تھا۔ جس تیزی سے سیڑھیوں پر چڑھا اسی تیزی سے اترا۔ آنگن میں تینوں عورتیں ایک ہی پلنگ پر سر جوڑے بیٹھی تھیں۔ وہ اندر گیا۔ لال کناری کی نئی دھوتی باندھی۔ ململ کا کرتا پہنا۔ بھاگلپوری چادر کمر میں لپیٹی اورلال انگوچھے کامریٹھا سر پر کس لیا۔ دونوں ہاتھوں سے کمان اٹھاکر چڑھائی اورچوم کر داہنے بازو پر لگائی۔ باپ کے بنائے تیروں کاترکش پشت پر سجایا اور نری کا جوتا پہن کر چرمر کرتا باہرنکلا۔

    ’’اٹھو بڑکئو کی مہتاری دوارے چلو۔‘‘ وہ کوک بھرے کھلونے کی طرح اس کے ساتھ ہولیں۔ دروازے نکلتے نکلتے اس نے بہوؤں کو منع کیا لیکن وہ نہ مانیں۔ کسی کو دروازہ بند کرنے کی تاکید کرکے وہ سڑک پر ہولیا۔

    چار جوڑ پیروں میں پہیے لگے تھے اور سڑک اس کی یادوں کی طرح گھٹتی جارہی تھی۔ پھر دانا پور آگیا۔ گڑھی آگئی۔ اس کے سواگت کے لیے پھاٹک اپنے دونوں پٹ کھولے کھڑا تھا۔ محل سرائے اور دیوان خانے کے بیچ کا پختہ فرش خالی پڑا تھا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح سیڑھیوں پر چڑھنے سے پہلے جوتے اتار دیے۔ دیوان خانےکے دروازے کے جاگتے شیشوں کے پیچھے ہسپتال کے سازوسامان نے اس کاسلام کیا۔ پھر وہ الٹے پیروں گھوما اورترچھا ہوکر دونوں پیر کھول دیے اور کمر میں خم دے کر تالی بجائی اور عورتیں ناچنے لگیں۔ ناچتی رہیں۔ جب ہوش آیا تو ان کے چاروں طرف بھیڑ جمع تھی اور سورج کی کرن پھوٹ رہی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے