Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عاجزی پر اشعار

عاجزی زندگی گزارنے کی

ایک صفت ہے جس میں آدمی اپنی ذات میں خود پسندی کا شکار نہیں ہوتا۔ شاعری میں عاجزی اپنی بیشتر شکلوں میں عاشق کی عاجزی ہے جس کا اظہار معشوق کے سامنے ہوتا ہے ۔ معشوق کے سامنے عاشق اپنی ذات کو مکمل طور پر فنا کردیتا اور یہی عاشق کے کردار کی بڑائی ہے ۔

کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے

نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے

علامہ اقبال

زندہ رکھیں بزرگوں کی ہم نے روایتیں

دشمن سے بھی ملے تو ملے عاجزی سے ہم

ماجد علی کاوش

اشک اگر سب نے لکھے میں نے ستارے لکھے

عاجزی سب نے لکھی میں نے عبادت لکھا

عزم بہزاد

مرتبہ آج بھی زمانے میں

پیار سے عاجزی سے ملتا ہے

کامران عادل

اس طرح منسلک ہوا اردو زبان سے

ملتا ہوں اب سبھی سے بڑی عاجزی کے ساتھ

بشیر مہتاب

کوئی خود سے مجھے کمتر سمجھ لے

یہ مطلب بھی نہیں ہے عاجزی کا

رحمان خاور

عاجزی آج ہے ممکن ہے نہ ہو کل مجھ میں

اس طرح عیب نکالو نہ مسلسل مجھ میں

نصرت مہدی

غرور بھی جو کروں میں تو عاجزی ہو جائے

خودی میں لطف وہ آئے کہ بے خودی ہو جائے

ریاضؔ خیرآبادی

مجھ کو سادات کی نسبت کے سبب میرے خدا

عاجزی دینا تکبر کی ادا مت دینا

س۔ ش۔ عالم

بندشوں کو توڑنے کی کوششیں کرتی ہوئی

سر پٹکتی لہر تیری عاجزی اچھی لگی

علینا عترت

عجز کے ساتھ چلے آئے ہیں ہم یزدانیؔ

کوئی اور ان کو منا لینے کا ڈھب یاد نہیں

یزدانی جالندھری

عاجزی بخشی گئی تمکنت فقر کے ساتھ

دینے والے نے ہمیں کون سی دولت نہیں دی

افتخار عارف

اب دیکھنا ہے مجھ کو ترے آستاں کا ظرف

سر کو جھکا رہا ہوں بڑی عاجزی کے ساتھ

اولاد علی رضوی

منت و عاجزی و زاری و آہ

تیرے آگے ہزار کر دیکھا

میر محمدی بیدار

رگڑی ہیں ایڑیاں تو ہوئی ہے یہ مستجاب

کس عاجزی سے کی ہے دعا کچھ نہ پوچھئے

آغا حجو شرف

عاجزی کہنے لگی گر ہو بلندی کی طلب

دل جھکا دائرۂ نعرۂ تکبیر میں آ

ندیم سرسوی

پیڑ ہو یا کہ آدمی غائرؔ

سر بلند اپنی عاجزی سے ہوا

کاشف حسین غائر

کسی کے راستے کی خاک میں پڑے ہیں ظفرؔ

متاع عمر یہی عاجزی نکلتی ہے

ظفر عجمی

چلاؤں گا تیشہ میں اب عاجزی کا

انا اس کی مسمار ہو کر رہے گی

سوربھ شیکھر

اس شان عاجزی کے فدا جس نے آرزوؔ

ہر ناز ہر غرور کے قابل بنا دیا

آرزو لکھنوی

او آنکھ بدل کے جانے والے

کچھ دھیان کسی کی عاجزی کا

حفیظ جونپوری

اس عاجزی سے کیا اس نے میرے سر کا سوال

خود اپنے ہاتھ سے تلوار توڑ دی میں نے

شاہد کمال

کبھی تھی وہ غصہ کی چتون قیامت

کبھی عاجزی سے منانا کسی کا

مرلی دھر شاد

خدایا عاجزی سے میں نے مانگا کیا ملا کیا

اثر میری دعاؤں کا یہ الٹا کیوں ہوا ہے

ہمدم کاشمیری

برائے اہل جہاں لاکھ کج کلاہ تھے ہم

گئے حریم سخن میں تو عاجزی سے گئے

عرفان ستار

وہ منائے گا جس سے روٹھے ہو

ہم کو منت سے عاجزی سے غرض

حفیظ جونپوری

یہ نقش خوش نما دراصل نقش عاجزی ہے

کہ اصل حسن تو اندیشۂ بہزاد میں ہے

ذوالفقار احمد تابش

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے