خط پیشانی میں سفاک ازل کے دن سے
تیری تلوار سے لکھی ہے شہادت میری
میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس
صبح ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر
ازل سے تا بہ ابد ایک ہی کہانی ہے
اسی سے ہم کو نئی داستاں بنانی ہے
روک لیتا ہے ابد وقت کے اس پار کی راہ
دوسری سمت سے جاؤں تو ازل پڑتا ہے
مری زمین پہ پھیلا ہے آسمان عدم
ازل سے میرے زمانے پہ اک زمانہ ہے
-
موضوع : آسمان
ادائیں تا ابد بکھری پڑی ہیں
ازل میں پھٹ پڑا جوبن کسی کا
میں روح عالم امکاں میں شرح عظمت یزداں
ازل ہے میری بیداری ابد خواب گراں میرا
کتنے مہ و انجم ہیں ضیا پاش ازل سے
لیکن نہ ہوئی کم دل انساں کی سیاہی
دست جنوں نے پھاڑ کے پھینکا ادھر ادھر
دامن ابد میں ہے تو گریباں ازل میں ہے
-
موضوع : ابد
واپس پلٹ رہے ہیں ازل کی تلاش میں
منسوخ آپ اپنا لکھا کر رہے ہیں ہم
ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسنؔ
چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا
ازل سے میری حفاظت کا فرض ہے ان پر
سبھی دکھوں کو میرے آس پاس ہونا ہے
ازل سے ہم نفسی ہے جو جان جاں سے ہمیں
پیام دم بدم آتا ہے لا مکاں سے ہمیں