گلہ مجھ سے تھا یا میری وفا سے
مری محفل سے کیوں برہم گئے وہ
اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں
کہ اک دیا مرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا
ہماری زندگی کہنے کی حد تک زندگی ہے بس
یہ شیرازہ بھی دیکھا جائے تو برہم ہے برسوں سے
-
موضوع : زندگی
ہم نشیں دیکھی نحوست داستان ہجر کی
صحبتیں جمنے نہ پائی تھیں کہ برہم ہو گئیں
ادھر آ ہم دکھاتے ہیں غزل کا آئنہ تجھ کو
یہ کس نے کہہ دیا گیسو ترے برہم نہیں پیارے
تجھ سے برہم ہوں کبھی خود سے خفا
کچھ عجب رفتار ہے تیرے بغیر
-
موضوع : خفا
برہم ہیں مجھ پہ اس لیے دونوں طرف کے لوگ
دیوار اٹھ گئی تھی تو در کیوں بنایا ہے
کچھ تو حساس ہم زیادہ ہیں
کچھ وہ برہم زیادہ ہوتا ہے