بوسہ پر اشعار
بوسہ پر شاعری عاشق کی
بوسے کی طلب کی کیفیتوں کا بیانیہ ہے ، ساتھ ہی اس میں معشوق کے انکار کی مزے دار صورتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں ۔ یہ طلب اور انکار کا ایک جھگڑا ہے جسے شاعروں کے تخیل نے بےحد رنگین اور دلچسپ بنادیا ہے ۔ اس مضمون میں شوخی ، مزاح ، حسرت اور غصے کی ملی جلی کیفیتوں نے ایک اور ہی فضا پیدا کی ہے ۔ ہمارا یہ چھوٹا سا انتخاب پڑھئے اور ان کیفیتوں کو محسوس کیجئے۔
بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف
یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا
دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا
چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے
مل گئے تھے ایک بار اس کے جو میرے لب سے لب
عمر بھر ہونٹوں پہ اپنے میں زباں پھیرا کیے
بوسۂ رخسار پر تکرار رہنے دیجیے
لیجیے یا دیجیے انکار رہنے دیجیے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
بوسہ جو رخ کا دیتے نہیں لب کا دیجئے
یہ ہے مثل کہ پھول نہیں پنکھڑی سہی
ایک بوسہ ہونٹ پر پھیلا تبسم بن گیا
جو حرارت تھی مری اس کے بدن میں آ گئی
دکھا کے جنبش لب ہی تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے
بوسے اپنے عارض گلفام کے
لا مجھے دے دے ترے کس کام کے
بدن کا سارا لہو کھنچ کے آ گیا رخ پر
وہ ایک بوسہ ہمیں دے کے سرخ رو ہے بہت
بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے
دی جان ہم نے چشمۂ آب حیات پر
بے گنتی بوسے لیں گے رخ دل پسند کے
عاشق ترے پڑھے نہیں علم حساب کو
بوسے بیوی کے ہنسی بچوں کی آنکھیں ماں کی
قید خانے میں گرفتار سمجھئے ہم کو
-
موضوعات : تعلقاور 1 مزید
محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید
سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی
آتا ہے جی میں ساقئ مہ وش پہ بار بار
لب چوم لوں ترا لب پیمانہ چھوڑ کر
-
موضوعات : ساقیاور 1 مزید
لب نازک کے بوسے لوں تو مسی منہ بناتی ہے
کف پا کو اگر چوموں تو مہندی رنگ لاتی ہے
-
موضوعات : حنااور 1 مزید
لے لو بوسہ اپنا واپس کس لیے تکرار کی
کیا کوئی جاگیر ہم نے چھین لی سرکار کی
کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
جس لب کے غیر بوسے لیں اس لب سے شیفتہؔ
کمبخت گالیاں بھی نہیں میرے واسطے
بوسہ تو اس لب شیریں سے کہاں ملتا ہے
گالیاں بھی ملیں ہم کو تو ملیں تھوڑی سی
بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی
میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑا دوں گا
-
موضوع : لب
میں آ رہا ہوں ابھی چوم کر بدن اس کا
سنا تھا آگ پہ بوسہ رقم نہیں ہوتا
بوسہ ہونٹوں کا مل گیا کس کو
دل میں کچھ آج درد میٹھا ہے
نہ ہو برہم جو بوسہ بے اجازت لے لیا میں نے
چلو جانے دو بیتابی میں ایسا ہو ہی جاتا ہے
ہم کو گالی کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں
غیر کو بوسہ دیا تو منہ سے دکھلا کر دیا
کیا تاب کیا مجال ہماری کہ بوسہ لیں
لب کو تمہارے لب سے ملا کر کہے بغیر
اس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو ہاں
شوق فضول و جرأت رندانہ چاہئے
لب خیال سے اس لب کا جو لیا بوسہ
تو منہ ہی منہ میں عجب طرح کا مزا آیا
دل لگی میں حسرت دل کچھ نکل جاتی تو ہے
بوسے لے لیتے ہیں ہم دو چار ہنستے بولتے
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
بوسہ آنکھوں کا جو مانگا تو وہ ہنس کر بولے
دیکھ لو دور سے کھانے کے یہ بادام نہیں
رخسار پر ہے رنگ حیا کا فروغ آج
بوسے کا نام میں نے لیا وہ نکھر گئے
سادگی دیکھ کہ بوسے کی طمع رکھتا ہوں
جن لبوں سے کہ میسر نہیں دشنام مجھے
جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ
ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض
جی اٹھوں پھر کر اگر تو ایک بوسہ دے مجھے
چوسنا لب کا ترے ہے مجھ کو جوں آب حیات
بوساں لباں سیں دینے کہا کہہ کے پھر گیا
پیالہ بھرا شراب کا افسوس گر گیا
سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے
کبھو تو ایک بوسے سے ہمارا منہ بھی میٹھا کر
ہم تو کیوں کر کہیں کہ بوسہ دو
گر عنایت کرو عنایت ہے
لٹاتے ہیں وہ دولت حسن کی باور نہیں آتا
ہمیں تو ایک بوسہ بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے
گڑ سیں میٹھا ہے بوسہ تجھ لب کا
اس جلیبی میں قند و شکر ہے
نمکیں گویا کباب ہیں پھیکے شراب کے
بوسا ہے تجھ لباں کا مزیدار چٹ پٹا
بولے وہ بوسہ ہائے پیہم پر
ارے کمبخت کچھ حساب بھی ہے
رکھے ہے لذت بوسہ سے مجھ کو گر محروم
تو اپنے تو بھی نہ ہونٹوں تلک زباں پہنچا
بوسے میں ہونٹ الٹا عاشق کا کاٹ کھایا
تیرا دہن مزے سیں پر ہے پے ہے کٹورا
جی میں ہے اتنے بوسے لیجے کہ آج
مہر اس کے وہاں سے اٹھ جاوے
اس وقت دل پہ کیوں کے کہوں کیا گزر گیا
بوسہ لیتے لیا تو سہی لیک مر گیا