Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بے خودی پر اشعار

بے خودی شعور کی حالت

سے نکل جانے کی ایک کیفیت ہے ۔ ایک عاشق بے خودی کو کس طرح جیتا ہے اور اس کے ذریعے وہ عشق کے کن کن مقامات کی سیر کرتا ہے اس کا دلچسپ بیان ان اشعار میں ہے ۔ اس طرح کے شعروں کی ایک خاص جہت یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے کلاسیکی عاشق کی شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں ۔

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں

اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

انور شعور

یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں

تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

منیر نیازی

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

مرزا غالب

چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے

نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے

شہاب جعفری

اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز

یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے

فرحت شہزاد

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

میر تقی میر

اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے

وہ آ بھی جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے

خمار بارہ بنکوی

بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف

یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا

میرزا ابوالمظفر ظفر

جس میں ہو یاد بھی تری شامل

ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے

فراق گورکھپوری

کمال عشق تو دیکھو وہ آ گئے لیکن

وہی ہے شوق وہی انتظار باقی ہے

جلیل مانک پوری

اللہ رے بے خودی کہ ترے پاس بیٹھ کر

تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی

نریش کمار شاد

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی

اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

اختر شیرانی

ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی

ترا وصل مجھ کو فراق ہے ترا ہجر مجھ کو وصال ہے

جلال الدین اکبر

عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں

ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا

اصغر گونڈوی

عمر جو بے خودی میں گزری ہے

بس وہی آگہی میں گزری ہے

گلزار دہلوی

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیئے

مرزا غالب

یہاں کوئی نہ جی سکا نہ جی سکے گا ہوش میں

مٹا دے نام ہوش کا شراب لا شراب لا

مدن پال

نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی

یہ کہاں پہنچ گئے ہیں تری بزم سے نکل کے

خمار بارہ بنکوی

ابتدا سے آج تک ناطقؔ کی یہ ہے سرگزشت

پہلے چپ تھا پھر ہوا دیوانہ اب بے ہوش ہے

ناطق لکھنوی

مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں

جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے

زہرا نگاہ

محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے

بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے

آرزو لکھنوی

کتنا مشکل ہے خود بخود رونا

بے خودی سے رہا کرے کوئی

اثر اکبرآبادی

اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی

بے پیے بے خودی سی رہتی ہے

ریاضؔ خیرآبادی

اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا

ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں

گنیش بہاری طرز

بے خودی نے کر دیا جذبات دل سے بے نیاز

اب ترا ملنا نہ ملنا سب برابر ہو گیا

ناز وائی

خواب میں نام ترا لے کے پکار اٹھتا ہوں

بے خودی میں بھی مجھے یاد تری یاد کی ہے

لالہ مادھو رام جوہر

میرے دل و دماغ پہ چھائے ہوئے ہو تم

ذرے کو آفتاب بنائے ہوئے ہو تم

اثر محبوب

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی

نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

سراج اورنگ آبادی

اے بے خودی دل مجھے یہ بھی خبر نہیں

کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا

اسد علی خان قلق

اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں

منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا

معین احسن جذبی

بے خودی میں ہم تو تیرا در سمجھ کر جھک گئے

اب خدا معلوم کعبہ تھا کہ وہ بت خانہ تھا

طالب جے پوری

کہہ دیں تم سے کون ہیں کیا ہیں کہاں رہتے ہیں ہم

بے خودوں کو اپنے جب تم ہوش میں آنے تو دو

جلالؔ مانکپوری

اے بے خودی سلام تجھے تیرا شکریہ

دنیا بھی مست مست ہے عقبیٰ بھی مست مست

جاوید صبا

اللہ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس

ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں

جگن ناتھ آزاد

گئی بہار مگر اپنی بے خودی ہے وہی

سمجھ رہا ہوں کہ اب تک بہار باقی ہے

مبارک عظیم آبادی

اے زندگی جنوں نہ سہی بے خودی سہی

تو کچھ بھی اپنی عقل سے پاگل اٹھا تو لا

ناطق گلاوٹھی

وہ بے خودی تھی محبت کی بے رخی تو نہ تھی

پہ اس کو ترک تعلق کو اک بہانہ ہوا

سلیم احمد

نیاز بے خودی بہتر نماز خود نمائی سیں

نہ کر ہم پختہ مغزوں سیں خیال خام اے واعظ

سراج اورنگ آبادی

چھوڑ کر کوچۂ مے خانہ طرف مسجد کے

میں تو دیوانہ نہیں ہوں جو چلوں ہوش کی راہ

بقا اللہ بقاؔ

بے خودی کوچۂ جاناں میں لیے جاتی ہے

دیکھیے کون مجھے میری خبر دیتا ہے

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

وفور بے خودی میں رکھ دیا سر ان کے قدموں پر

وہ کہتے ہی رہے واصفؔ یہ محفل ہے یہ محفل ہے

واصف دہلوی

سر پائے خم پہ چاہیئے ہنگام بے خودی

رو سوئے قبلہ وقت مناجات چاہیئے

مرزا غالب

ہاں کیف بے خودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے

محسوس کر رہا تھا خدا ہو گیا ہوں میں

حفیظ جالندھری

جز بے خودی گزر نہیں کوئے حبیب میں

گم ہو گیا جو میں تو ملا راستہ مجھے

جلیل مانک پوری

تری یاد میں تھی وہ بے خودی کہ نہ فکر نامہ بری رہی

مری وہ نگارش شوق بھی کہیں طاق ہی پہ دھری رہی

محمد زبیر روحی الہ آبادی

پا بہ گل بے خودیٔ شوق سے میں رہتا تھا

کوچۂ یار میں حالت مری دیوار کی تھی

حیدر علی آتش

میرے اور یار کے پردہ تو نہیں کچھ لیکن

بے خودی بیچ میں دیوار ہوا چاہتی ہے

مصحفی غلام ہمدانی

تیرے خیال میں کبھی اس طرح کھو گئے

تیرا خیال بھی ہمیں اکثر نہیں رہا

جمال احسانی

پاس آداب وفا تھا کہ شکستہ پائی

بے خودی میں بھی نہ ہم حد سے گزرنے پائے

رضا ہمدانی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے