Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ویلنٹائن ڈے پر اشعار

عشق اور رومان پر یہ

شاعری آپ کے لیے ایک سبق کی طرح ہے، آپ اس سے محبت میں جینے کے آداب بھی سیکھیں گے اور ہجر و وصال کو گزارنے کے طریقے بھی۔

پھول کھلے ہیں لکھا ہوا ہے توڑو مت

اور مچل کر جی کہتا ہے چھوڑو مت

عمیق حنفی

جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر

ہنس کے کہنے لگا اور آپ کو آتا کیا ہے

اکبر الہ آبادی

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ

دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دئیے مسکرا کے ہاتھ

نظام رامپوری

سارے جذبے تری چاہت کے دکھائی دیتے

کاش آنکھوں میں کہیں دل بھی دھڑکتا ہوتا

نیل احمد

وصل کا دن اور اتنا مختصر

دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

امیر مینائی

لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں

میں نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں

نامعلوم

اب کے ملنے کی شرط یہ ہوگی

دونوں گھڑیاں اتار پھینکیں گے

ناصر امروہوی

پھول ہی پھول یاد آتے ہیں

آپ جب جب بھی مسکراتے ہیں

ساجد پریمی

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

پروین شاکر

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر صدیقی

اس تعلق میں نہیں ممکن طلاق

یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں

انور شعور

جو دل رکھتے ہیں سینے میں وہ کافر ہو نہیں سکتے

محبت دین ہوتی ہے وفا ایمان ہوتی ہے

آرزو لکھنوی

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں

اس سے آنکھیں لڑیں تو خواب کہاں

میر تقی میر

یہ تو کہئے اس خطا کی کیا سزا

میں جو کہہ دوں آپ پر مرتا ہوں میں

داغؔ دہلوی

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا

اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

وسیم بریلوی

محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے

کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا

بشیر بدر

میں جب سو جاؤں ان آنکھوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا

یقیں آ جائے گا پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا ہے

بشیر بدر

مرے سارے بدن پر دوریوں کی خاک بکھری ہے

تمہارے ساتھ مل کر خود کو دھونا چاہتا ہوں میں

فرحت احساس

دل کا کیا حال کہوں صبح کو جب اس بت نے

لے کے انگڑائی کہا ناز سے ہم جاتے ہیں

داغؔ دہلوی

پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا

میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا

بشیر بدر

ایک محبت کافی ہے

باقی عمر اضافی ہے

محبوب خزاں

زندگی یوں ہی بہت کم ہے محبت کے لیے

روٹھ کر وقت گنوانے کی ضرورت کیا ہے

نامعلوم

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

حسرتؔ موہانی

دل ہے قدموں پر کسی کے سر جھکا ہو یا نہ ہو

بندگی تو اپنی فطرت ہے خدا ہو یا نہ ہو

جگر مراد آبادی

ہمیشہ ہاتھوں میں ہوتے ہیں پھول ان کے لئے

کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں

انور شعور

دنیا سے کہو جو اسے کرنا ہے وہ کر لے

اب دل میں مرے وہ علیٰ الاعلان رہے گا

فرحت احساس

مدت میں شام وصل ہوئی ہے مجھے نصیب

دو چار سال تک تو الٰہی سحر نہ ہو

امیر مینائی

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

جگر مراد آبادی

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

تشریح

’’ناکام‘‘ اور ’’کام لیا‘‘ میں رعایت ظاہر ہے۔ پہلے مصرع میں ’’سلیقے‘‘ کا لفظ بہت خوب ہے، کیوں کہ اگر کسی کم کار آمد چیز سے کوئی اہم کام نکال لیا جائے تو کہتے ہیں کہ ’’فلاں کو کام کرنے کا سلیقہ ہے‘‘۔ ’’کام لیا‘‘ بھی بہت خوب ہے، کیوں کہ یہ واضح نہیں کیا کہ ناکامی ہی کو کامیابی سمجھ لیا، اور اس طرح کام نکال لیا، یا ناکامیوں پر صبر کر لیا۔ محبت میں نبھنا بھی خالی ازلطف نہیں، کیونکہ یہاں بھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ معشوق سے نبھی، یا محض زندگی نبھی، یا اپنے آپ سے نبھی۔ بہت بلیغ شعر ہے۔ لہجے میں وقار بھی ہے اور ایک طرح کی چالاکی بھی۔ محمد حسن عسکری نے اس شعر کے بارے میں خوب لکھا ہے کہ ’’میر نفی میں اثبات ڈھونڈتے ہیں۔ ان کے یہاں شکست تو مل جائے گی، لیکن شکست خوردگی نہیں۔ ان کی افسردگی ایک نئی تلاش کا بہانہ بنتی ہے۔‘‘

’’سلیقہ‘‘ کے معنی ’’عادت، سرشت‘‘ بھی ہیں۔ یہ معنی بھی یہاں مناسب ہیں۔ اسی سیاق و سباق میں لفظ ’’سلیقہ‘‘ میر نے ایک اور شعر میں خوبی سے استعمال کیا ہے؎

تمنائے دل کے لئے جان دی

سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

(دیوان اوّل)

شمس الرحمن فاروقی

میر تقی میر

تم پھر اسی ادا سے انگڑائی لے کے ہنس دو

آ جائے گا پلٹ کر گزرا ہوا زمانہ

شکیل بدایونی

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں

اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

انور شعور

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

میری وحشت تری شہرت ہی سہی

مرزا غالب

میرے گھر کے تمام دروازے

تم سے کرتے ہیں پیار آ جاؤ

انور شعور

دو تند ہواؤں پر بنیاد ہے طوفاں کی

یا تم نہ حسیں ہوتے یا میں نہ جواں ہوتا

آرزو لکھنوی

ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری

کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری

امیر مینائی

کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں

عشق توفیق ہے گناہ نہیں

فراق گورکھپوری

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں

کیفی اعظمی

پتہ تھا مجھ کو ملاقات غیر ممکن ہے

سو تیرا دھیان کیا اور گلاب چوم لیا

شارق کیفی

معرکہ ہے آج حسن و عشق کا

دیکھیے وہ کیا کریں ہم کیا کریں

داغؔ دہلوی

تم کو آتا ہے پیار پر غصہ

مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے

امیر مینائی

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

علامہ اقبال

بے چین اس قدر تھا کہ سویا نہ رات بھر

پلکوں سے لکھ رہا تھا ترا نام چاند پر

نامعلوم

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ

جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

قتیل شفائی

جب انہیں دیکھو پیار آتا ہے

اور بے اختیار آتا ہے

جلیل مانک پوری

یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا

وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے

جون ایلیا

اگرچہ پھول یہ اپنے لیے خریدے ہیں

کوئی جو پوچھے تو کہہ دوں گا اس نے بھیجے ہیں

افتخار نسیم

نگاہیں اس قدر قاتل کہ اف اف

ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

آرزو لکھنوی

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

جگر مراد آبادی

آئنہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے

آج بے موت مریں گے مرے مرنے والے

داغؔ دہلوی

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

غلام محمد قاصر

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے