بندگی پر اشعار
بندگی اپنے سیدھے سے
مفہوم میں خدا اور بندے کے بیچ کے رشتے کی صورت کا نام ہے ۔ شاعری میں اس رشتے کی کشمکش اور اس کے سکھ دکھ کو طرح طرح سے موضوع بنایا گیاہے ۔ بندہ کبھی بندگی کے بار تلے دب جاتا ہے اور کبھی بندگی میں بھی اپنی خودبینی اور آزادہ روی کی راہیں تلاش کرتا ہے ۔ ہمارا یہ چھوٹا سا انتخاب بندگی کی انہیں الجھی ہوئی کیفیتوں کا بیان ہے ۔
عاشقی سے ملے گا اے زاہد
بندگی سے خدا نہیں ملتا
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
دل ہے قدموں پر کسی کے سر جھکا ہو یا نہ ہو
بندگی تو اپنی فطرت ہے خدا ہو یا نہ ہو
-
موضوع : ویلنٹائن ڈے
رہنے دے اپنی بندگی زاہد
بے محبت خدا نہیں ملتا
یہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی
کہ ان کا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی
تو میرے سجدوں کی لاج رکھ لے شعور سجدہ نہیں ہے مجھ کو
یہ سر ترے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نہیں ہے
جواز کوئی اگر میری بندگی کا نہیں
میں پوچھتا ہوں تجھے کیا ملا خدا ہو کر
دوستی بندگی وفا و خلوص
ہم یہ شمع جلانا بھول گئے
-
موضوعات : دوستیاور 1 مزید
قبول ہو کہ نہ ہو سجدہ و سلام اپنا
تمہارے بندے ہیں ہم بندگی ہے کام اپنا
صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات
کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم
شاہوں کی بندگی میں سر بھی نہیں جھکایا
تیرے لیے سراپا آداب ہو گئے ہم
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں
عاشقی بندگی نہ ہو جائے
خلوص ہو تو کہیں بندگی کی قید نہیں
صنم کدے میں طواف حرم بھی ممکن ہے
کیسے کریں بندگی ظفرؔ واں
بندوں کی جہاں خدائیاں ہیں