شکوہ پر اشعار

عشق کی کہانی میں شکوہ

شکایتوں کی اپنی ایک جگہ اور اپنا ایک لطف ہے ۔ اس موقع پر عاشق کاکمال یہ ہوتا ہے کہ وہ معشوق کے ظلم وجفا اور اس کی بے اعتنائی کا شکوہ اس طور پر کرتا ہے کہ معشوق مدعا بھی پا جائے اور عاشق بدنام بھی نہ ہو ۔ عشق کی کہانی کا یہ دلچسپ حصہ ہمارے اس انتخاب میں پڑھئے ۔

گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی

وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ

باصر سلطان کاظمی

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی

تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا

جون ایلیا

زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

احمد فراز

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے

کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

چراغ حسن حسرت

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے

اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے

جون ایلیا

کب وہ سنتا ہے کہانی میری

اور پھر وہ بھی زبانی میری

مرزا غالب

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے

اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے

حفیظ جالندھری

آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو

اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا

سرور عالم راز

محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم

محبت جتنی بڑھتی ہے، شکایت ہوتی جاتی ہے

شکیل بدایونی

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے

اک ہماری سحر نہیں ہوتی

ابن انشا

بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ

وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے

داغؔ دہلوی

کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت میری

لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری

داغؔ دہلوی

شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے

رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے

شہریار

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

عرفان صدیقی

کوئی چراغ جلاتا نہیں سلیقے سے

مگر سبھی کو شکایت ہوا سے ہوتی ہے

خورشید طلب

ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں

ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں

راہی معصوم رضا

چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے

لو خموشی بھی شکایت ہو گئی

اختر انصاری اکبرآبادی

ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں

اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی

ساحر لدھیانوی

ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم

مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں

اطہر نفیس

صاف انکار اگر ہو تو تسلی ہو جائے

جھوٹے وعدوں سے ترے رنج سوا ہوتا ہے

قیصر حیدری دہلوی

کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت

خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے

حفیظ بنارسی

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ

جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا

جوش ملیح آبادی

ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے

اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں

قتیل شفائی

تم عزیز اور تمہارا غم بھی عزیز

کس سے کس کا گلا کرے کوئی

ہادی مچھلی شہری

سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے

تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے

آنند نرائن ملا

ہم عجب ہیں کہ اس کی باہوں میں

شکوۂ نارسائی کرتے ہیں

جون ایلیا

سنے گا کون میری چاک دامانی کا افسانہ

یہاں سب اپنے اپنے پیرہن کی بات کرتے ہیں

کلیم عاجز

شکوۂ آبلہ ابھی سے میرؔ

ہے پیارے ہنوز دلی دور

میر تقی میر

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

مرزا غالب

چپ رہو کیوں مزاج پوچھتے ہو

ہم جئیں یا مریں تمہیں کیا ہے

لالہ مادھو رام جوہر

بدگماں آپ ہیں کیوں آپ سے شکوہ ہے کسے

جو شکایت ہے ہمیں گردش ایام سے ہے

حسرتؔ موہانی

آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً

کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا

فنا نظامی کانپوری

میری ہی جان کے دشمن ہیں نصیحت والے

مجھ کو سمجھاتے ہیں ان کو نہیں سمجھاتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

شکوۂ غم ترے حضور کیا

ہم نے بے شک بڑا قصور کیا

حسرتؔ موہانی

اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا

اے سنگ دل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا

عرش صدیقی

دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں

یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھاؤں

خلیل الرحمن اعظمی

کہہ کے یہ اور کچھ کہا نہ گیا

کہ مجھے آپ سے شکایت ہے

آرزو لکھنوی

احسانؔ اپنا کوئی برے وقت کا نہیں

احباب بے وفا ہیں خدا بے نیاز ہے

احسان دانش

شکوہ اپنوں سے کیا جاتا ہے غیروں سے نہیں

آپ کہہ دیں تو کبھی آپ سے شکوہ نہ کریں

خلش کلکتوی

عشق میں شکوہ کفر ہے اور ہر التجا حرام

توڑ دے کاسۂ مراد عشق گداگری نہیں

اثر رامپوری

شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں

پھر کروگے کبھی اس منہ سے شکایت میری

فانی بدایونی

روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں

میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں

اقبال عظیم

چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم

شاید اسی لیے ہے گلا کم بہت ہی کم

محبوب خزاں

کتنے شکوے گلے ہیں پہلے ہی

راہ میں فاصلے ہیں پہلے ہی

فارغ بخاری

ذرا سی بات تھی عرض تمنا پر بگڑ بیٹھے

وہ میری عمر بھر کی داستان درد کیا سنتے

نامعلوم

پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا

اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے

مرزا غالب

فلک سے مجھ کو شکوہ ہے زمیں سے مجھ کو شکوہ ہے

یقیں مانو تو خود اپنے یقیں سے مجھ کو شکوہ ہے

عبید الرحمان اعظمی

مجھے تجھ سے شکایت بھی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے

تجھے اے زندگی میں والہانہ چاہتا ہوں

خوشبیر سنگھ شادؔ

آپ کی قسموں کا اور مجھ کو یقیں

ایک بھی وعدہ کبھی پورا کیا

شوخ امروہوی

آگے مرے نہ غیر سے گو تم نے بات کی

سرکار کی نظر کو تو پہچانتا ہوں میں

قائم چاندپوری

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے