Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آنسو پر اشعار

آنسوؤں کا یہ شعری

بیانیہ بہت متنوع ،وسیع اور رنگا رنگ ہے ۔ آنسو صرف آنکھ سے بہنے والا پانی ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کبھی دکھ اور کبھی خوشی کی جو زبردست کیفیت ہے وہ بظاہر پانی کے ان قطروں کو انتہائی مقدس بنا دیتی ہے ۔ شاعری میں آنسو کا سیاق اپنی اکثر صورتوں میں عشق اور اس میں بھوگے جانے والے دکھ سےوا بستہ ہے ۔ عاشق کس طور پر آنسوؤں کو ضبط کرتا ہے اور کس طرح بالآخر یہ آنسو بہہ کر اس کو رسوا کرتے ہیں یہ ایک دلچسپ کہانی ہے ۔

ناصح نے میرا حال جو مجھ سے بیاں کیا

آنسو ٹپک پڑے مرے بے اختیار آج

داغؔ دہلوی

یوں چشم تر سے چہرے پر آنسو ہوئے رواں

دریا سے جیسے لاوے کوئی نہر کاٹ کر

مصحفی غلام ہمدانی

جو بات ہجر کی آتی تو اپنے دامن سے

وہ آنسو پونچھتا جاتا تھا اور میں روتا تھا

نظیر اکبرآبادی

میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں

پھر اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں

فرحت احساس

کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں

ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے

صوفی تبسم

اشکوں کے ٹپکنے پر تصدیق ہوئی اس کی

بے شک وہ نہیں اٹھتے آنکھوں سے جو گرتے ہیں

نوح ناروی

یہ بے سبب نہیں آئے ہیں آنکھ میں آنسو

خوشی کا لمحہ کوئی یاد آ گیا ہوگا

اختر سعید خان

آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو

اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا

سرور عالم راز

محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے

کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

جگر مراد آبادی

ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے

ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا

وسیم بریلوی

اور کچھ تحفہ نہ تھا جو لاتے ہم تیرے نیاز

ایک دو آنسو تھے آنکھوں میں سو بھر لائیں ہیں ہم

میر حسن

اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں

یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں

بشیر بدر

نظر بچا کے جو آنسو کئے تھے میں نے پاک

خبر نہ تھی یہی دھبے بنیں گے دامن کے

آرزو لکھنوی

بقدر ذوق میرے اشک غم کی ترجمانی ہے

کوئی کہتا ہے موتی ہے کوئی کہتا ہے پانی ہے

فگار اناوی

شبنم نے رو کے جی ذرا ہلکا تو کر لیا

غم اس کا پوچھئے جو نہ آنسو بہا سکے

سلام سندیلوی

غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے

ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ

امام بخش ناسخ

یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے

مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے

کلیم عاجز

دامن سے وہ پونچھتا ہے آنسو

رونے کا کچھ آج ہی مزا ہے

محسن کاکوروی

دو گھڑی درد نے آنکھوں میں بھی رہنے نہ دیا

ہم تو سمجھے تھے بنیں گے یہ سہارے آنسو

حکیم ناصر

اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں

آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو

شہزاد احمد

دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

سید عابد علی عابد

بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے

اس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا

جمال احسانی

مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جائے

مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے

انور مرزاپوری

آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں

یہ کس کا جمال آ گیا ہے

ادا جعفری

مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ

جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

کیفی اعظمی

کتنی فریادیں لبوں پر رک گئیں

کتنے اشک آہوں میں ڈھل کر رہ گئے

صوفی تبسم

روک لے اے ضبط جو آنسو کہ چشم تر میں ہے

کچھ نہیں بگڑا ابھی تک گھر کی دولت گھر میں ہے

احسن مارہروی

کوزہ جیسے کہ چھلک جائے ہے بھر جانے پر

کوئی آنسو ہی بہا دے مرے مر جانے پر

امرتانشو شرما

میں جو رویا ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے

حسن کی فطرت میں شامل ہے محبت کا مزاج

انور صابری

بہتا آنسو ایک جھلک میں کتنے روپ دکھائے گا

آنکھ سے ہو کر گال بھگو کر مٹی میں مل جائے گا

احمد مشتاق

رسا ہوں یا نہ ہوں نالے یہ نالوں کا مقدر ہے

حفیظؔ آنسو بہا کر جی تو ہلکا کر لیا میں نے

حفیظ میرٹھی

مسکاتی آنکھوں میں اکثر

دیکھے ہم نے روتے خواب

افضل ہزاروی

پلکوں کی حد کو توڑ کے دامن پہ آ گرا

اک اشک میرے صبر کی توہین کر گیا

نامعلوم

پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک

پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے

اسرار الحق مجاز

پہلے نہائی اوس میں پھر آنسوؤں میں رات

یوں بوند بوند اتری ہمارے گھروں میں رات

شہریار

ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

منور رانا

گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو

پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے

سلیم احمد

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے

جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

معین احسن جذبی

اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں

آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

ناصر کاظمی

ڈوب جاتے ہیں امیدوں کے سفینے اس میں

میں نہ مانوں گا کہ آنسو ہے ذرا سا پانی

جوشؔ ملسیانی

تھمے آنسو تو پھر تم شوق سے گھر کو چلے جانا

کہاں جاتے ہو اس طوفان میں پانی ذرا ٹھہرے

لالہ مادھو رام جوہر

جب بھی دو آنسو نکل کر رہ گئے

درد کے عنواں بدل کر رہ گئے

صوفی تبسم

اشکوں کے نشاں پرچۂ سادہ پہ ہیں قاصد

اب کچھ نہ بیاں کر یہ عبارت ہی بہت ہے

احسن علی خاں

تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو

رونا ہے کچھ ہنسی نہیں ہے

بدھ سنگھ قلندر

آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر

سودا مرے سر میں ہے تمنا مرے دل میں

بیخود بدایونی

مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو

مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

مصطفی زیدی

یوں تو اشکوں سے بھی ہوتا ہے الم کا اظہار

ہائے وہ غم جو تبسم سے عیاں ہوتا ہے

مقبول نقش

میری اک عمر اور اک عہد کی تاریخ رقم ہے جس پر

کیسے روکوں کہ وہ آنسو مری آنکھوں سے گرا جاتا ہے

فرحت احساس

وہ پوچھتے ہیں دل مبتلا کا حال اور ہم

جواب میں فقط آنسو بہائے جاتے ہیں

ہادی مچھلی شہری

دل بھی اے دردؔ قطرۂ خوں تھا

آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا

خواجہ میر درد

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے