ماضی پر اشعار
تخلیقی ذہن ناسٹلجائی
کیفیتوں میں گھرا ہوتا ہے وہ باربار اپنے ماضی کی طرف لوٹتا ہے ، اسے کریدتا ہے ، اپنی بیتی ہوئی زندگی کے اچھے برے لمحوں کی بازیافت کرتا ہے ۔ آپ ان شعروں میں دیکھیں گے کہ ماضی کتنی شدت کے ساتھ عود کرتا ہے اور کس طریقے سے گزری ہوئی زندگی حال کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے لگتی ہے ۔ ہمارے اس انتخاب کو پڑھ کر آپ اپنے ماضی کو ایک نئے طریقے سے دیکھنے ، برتنے ، اور یاد کرنے کے اہل ہوں گے ۔
یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں
سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی
-
موضوعات : رسوائیاور 1 مزید
اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں
منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا
-
موضوع : بے خودی
کئی نا آشنا چہرے حجابوں سے نکل آئے
نئے کردار ماضی کی کتابوں سے نکل آئے
کریدتا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی
میں چوک جاؤں تو وہ انگلیاں جلا لے گا
ماضی سے ابھریں وہ زندہ تصویریں
اتر گیا سب نشہ نئے پرانے کا
یاد ماضی کی پراسرار حسیں گلیوں میں
میرے ہم راہ ابھی گھوم رہا ہے کوئی
-
موضوع : یاد
ہنسی میں کٹتی تھیں راتیں خوشی میں دن گزرتا تھا
کنولؔ ماضی کا افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
یہ جو ماضی کی بات کرتے ہیں
سوچتے ہوں گے حال سے آگے
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ماضی کے ریگ زار پہ رکھنا سنبھل کے پاؤں
بچوں کا اس میں کوئی گھروندا بنا نہ ہو
بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی
وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے
-
موضوعات : آنسواور 1 مزید
ماضیٔ مرحوم کی ناکامیوں کا ذکر چھوڑ
زندگی کی فرصت باقی سے کوئی کام لے
ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر
تمیز خواب و حقیقت ہے شرط بیداری
خیال عظمت ماضی کو چھوڑ حال کو دیکھ
-
موضوع : ترغیبی
کبھی ملیں گے جو راستے میں تو منہ پھرا کر پلٹ پڑیں گے
کہیں سنیں گے جو نام تیرا تو چپ رہیں گے نظر جھکا کے
-
موضوع : ملاقات