مایوسی پر اشعار

مایوسی زندگی میں ایک

منفی قدر کے طور پر دیکھی جاتی ہے لیکن زندگی کی سفاکیاں مایوسی کے احساس سے نکلنے ہی نہیں دیتیں ۔ اس سب کے باوجود زندگی مسلسل مایوسی سے پیکار کئے جانے کا نام ہی ہے ۔ ہم مایوس ہوتے ہیں لیکن پھر ایک نئے حوصلے کے ساتھ ایک نئے سفر پر گامزن ہوجاتے ہیں ۔ مایوسی کی مختلف صورتوں اور جہتوں کو موضوع بنانے والا ہمارا یہ انتخاب زندگی کو خوشگوار بنانے کی ایک صورت ہے ۔

تیرا ملنا خوشی کی بات سہی

تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

ساحر لدھیانوی

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو

کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا

ساحر لدھیانوی

خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے

بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

بشیر بدر

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

ساحر لدھیانوی

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

علامہ اقبال

ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں

دل ہمیشہ اداس رہتا ہے

بشیر بدر

کسی کے تم ہو کسی کا خدا ہے دنیا میں

مرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں

اختر سعید خان

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

فراق گورکھپوری

نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں

فیض احمد فیض

کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے

بہادر شاہ ظفر

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے

بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

ناصر کاظمی

ہمارے گھر کا پتا پوچھنے سے کیا حاصل

اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی

وسیم بریلوی

ہم غم زدہ ہیں لائیں کہاں سے خوشی کے گیت

دیں گے وہی جو پائیں گے اس زندگی سے ہم

ساحر لدھیانوی

ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب

ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں

ساحر لدھیانوی

کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں

اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا

بشیر بدر

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

ناصر کاظمی

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے

اک ہماری سحر نہیں ہوتی

ابن انشا

چند کلیاں نشاط کی چن کر مدتوں محو یاس رہتا ہوں

تیرا ملنا خوشی کی بات سہی تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

ساحر لدھیانوی

ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل

اے زندگی وگرنہ زمانے میں کیا نہ تھا

آزاد انصاری

ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر

آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

فانی بدایونی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

ناصر کاظمی

کوئی خودکشی کی طرف چل دیا

اداسی کی محنت ٹھکانے لگی

عادل منصوری

غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس

سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے

خمارؔ بارہ بنکوی

ناامیدی بڑھ گئی ہے اس قدر

آرزو کی آرزو ہونے لگی

داغؔ دہلوی

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

ناصر کاظمی

آج تو بے سبب اداس ہے جی

عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

ناصر کاظمی

رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی

کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا

احمد مشتاق

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں

بہادر شاہ ظفر

ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں

اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی

ساحر لدھیانوی

کوئی تو ایسا گھر ہوتا جہاں سے پیار مل جاتا

وہی بیگانے چہرے ہیں جہاں جائیں جدھر جائیں

ساحر لدھیانوی

زخم ہی تیرا مقدر ہیں دل تجھ کو کون سنبھالے گا

اے میرے بچپن کے ساتھی میرے ساتھ ہی مر جانا

زیب غوری

اس ڈوبتے سورج سے تو امید ہی کیا تھی

ہنس ہنس کے ستاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے

مہیش چندر نقش

یہ اور بات کہ چاہت کے زخم گہرے ہیں

تجھے بھلانے کی کوشش تو ورنہ کی ہے بہت

محمود شام

اٹھتے نہیں ہیں اب تو دعا کے لیے بھی ہاتھ

کس درجہ ناامید ہیں پروردگار سے

اختر شیرانی

سب ستارے دلاسہ دیتے ہیں

چاند راتوں کو چیختا ہے بہت

آلوک مشرا

مایوسئ مآل محبت نہ پوچھئے

اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم

ساحر لدھیانوی

اتنا میں انتظار کیا اس کی راہ میں

جو رفتہ رفتہ دل مرا بیمار ہو گیا

شیخ ظہور الدین حاتم

اب مری بات جو مانے تو نہ لے عشق کا نام

تو نے دکھ اے دل ناکام بہت سا پایا

مصحفی غلام ہمدانی

دیکھتے ہیں بے نیازانہ گزر سکتے نہیں

کتنے جیتے اس لیے ہوں گے کہ مر سکتے نہیں

محبوب خزاں

دن کسی طرح سے کٹ جائے گا سڑکوں پہ شفقؔ

شام پھر آئے گی ہم شام سے گھبرائیں گے

فاروق شفق

آس کیا اب تو امید ناامیدی بھی نہیں

کون دے مجھ کو تسلی کون بہلائے مجھے

منشی امیر اللہ تسلیم

بہت دنوں سے مرے بام و در کا حصہ ہے

مری طرح یہ اداسی بھی گھر کا حصہ ہے

خوشبیر سنگھ شادؔ

بڑے سکون سے افسردگی میں رہتا ہوں

میں اپنے سامنے والی گلی میں رہتا ہوں

عابد ملک

نا امیدی ہے بری چیز مگر

ایک تسکین سی ہو جاتی ہے

بسمل سعیدی

ہم کس کو دکھاتے شب فرقت کی اداسی

سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے

تعشق لکھنوی

مرے گھر سے زیادہ دور صحرا بھی نہیں لیکن

اداسی نام ہی لیتی نہیں باہر نکلنے کا

اقبال ساجد

شام ہجراں بھی اک قیامت تھی

آپ آئے تو مجھ کو یاد آیا

مہیش چندر نقش

اداسیاں ہیں جو دن میں تو شب میں تنہائی

بسا کے دیکھ لیا شہر آرزو میں نے

جنید حزیں لاری

مرے دل کے اکیلے گھر میں راحتؔ

اداسی جانے کب سے رہ رہی ہے

حمیرا راحتؔ

میری وفا ہے اس کی اداسی کا ایک باب

مدت ہوئی ہے جس سے مجھے اب ملے ہوئے

عزیز حامد مدنی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے