دریا پر اشعار
دریا کا استعمال کلاسیکی
شاعری میں کم کم ہے اور اگر ہے بھی تو دریا اپنے سیدھے اور سامنے کے معنی میں برتا گیا ہے ۔ البتہ جدید شاعروں کے یہاں دریا ایک کثیرالجہات استعارے طور پر آیا ہے ۔ وہ کبھی زندگی میں سفاکی کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے کہ جو اس کے سامنے آتا ہے اسے بہا لے جاتا اور کبھی اس کی روانی کو زندگی کی حرکت اور اس کی توانائی کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ دریا پر ہمارا یہ شعری انتخاب آپ کو یقیناً پسند آئے گا ۔
کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی
اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں
میرے عناصر خاک نہ ہوں بس رنگ بنیں
اور جنگل صحرا دریا پر برسے رنگ
چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے
عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے
ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے دیکھتے رہے
دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا
-
موضوع : ساحل
دو دریا بھی جب آپس میں ملتے ہیں
دونوں اپنی اپنی پیاس بجھاتے ہیں
-
موضوع : تشنگی
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
-
موضوع : سمندر
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
تم اس کے پاس ہو جس کو تمہاری چاہ نہ تھی
کہاں پہ پیاس تھی دریا کہاں بنایا گیا
-
موضوعات : پانیاور 1 مزید
کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک
ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر
-
موضوعات : راستہاور 1 مزید
دریا کو کنارے سے کیا دیکھتے رہتے ہو
اندر سے کبھی دیکھو کیسا نظر آتا ہے
اگر روتے نہ ہم تو دیکھتے تم
جہاں میں ناؤ کو دریا نہ ہوتا
گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا
ایک دن دریا سبھی دیوار و در لے جائے گا
میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں
مرے ہم راہ دریا جا رہا ہے
-
موضوع : کشتی
سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں
نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے
-
موضوعات : ساحلاور 1 مزید
دریا دکھائی دیتا ہے ہر ایک ریگ زار
شاید کہ ان دنوں مجھے شدت کی پیاس ہے
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
-
موضوعات : سمندراور 1 مزید
تشنہ لب ایسا کہ ہونٹوں پہ پڑے ہیں چھالے
مطمئن ایسا ہوں دریا کو بھی حیرانی ہے
-
موضوع : تشنگی
غرور تشنہ دہانی تری بقا کی قسم
ندی ہمارے لبوں کی طرف اچھلتی رہی
-
موضوع : لب
اپنے سوا نہیں ہے کوئی اپنا آشنا
دریا کی طرح آپ ہیں اپنے کنار میں
اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے
-
موضوعات : پانیاور 1 مزید
دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا
ایک دریا پار کر کے آ گیا ہوں اس کے پاس
ایک صحرا کے سوا اب درمیاں کوئی نہیں
دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک
پیاس بڑھتی جا رہی ہے بہتا دریا دیکھ کر
بھاگتی جاتی ہیں لہریں یہ تماشا دیکھ کر
-
موضوع : تشنگی
اس کے ٹھہراؤ سے تھم جاتی ہے سب موج حیات
یعنی دریا میں نہیں سانس میں گہرائی ہے
ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی
جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
-
موضوعات : راستہاور 1 مزید
آج پھر مجھ سے کہا دریا نے
کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں
-
موضوع : تشنگی
بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی
اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے
-
موضوع : سمندر