Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کشتی پر اشعار

کشتی ،ساحل ، سمندر ،

ناخدا ، تند موجیں اور اس طرح کی دوسری لفظیات کو شاعری میں زندگی کی وسیع تر صورتوں کے استعارے کے طور پر برتا گیا ہے ۔ کشتی دریا کی طغیانی اور موجوں کی شدید مار سے بچ نکلنے اور ساحل پر پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کشتی کی اس صفت کو بنیاد بنا کر بہت سے مضامین پیدا کئے گئے ہیں ۔ کشتی کے حوالے سے اور بھی کئی دلچسپ جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔

آتا ہے جو طوفاں آنے دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے

ممکن ہے کہ اٹھتی لہروں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے

بہزاد لکھنوی

اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں

کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس

حسرتؔ موہانی

چمک رہا ہے خیمۂ روشن دور ستارے سا

دل کی کشتی تیر رہی ہے کھلے سمندر میں

زیب غوری

اگر اے ناخدا طوفان سے لڑنے کا دم خم ہے

ادھر کشتی نہ لے آنا یہاں پانی بہت کم ہے

دواکر راہی

میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں

مرے ہم راہ دریا جا رہا ہے

احمد ندیم قاسمی

کشتیاں ڈوب رہی ہیں کوئی ساحل لاؤ

اپنی آنکھیں مری آنکھوں کے مقابل لاؤ

جمنا پرشاد راہیؔ

یہ الگ بات کہ میں نوح نہیں تھا لیکن

میں نے کشتی کو غلط سمت میں بہنے نہ دیا

اظہر عنایتی

کبھی میری طلب کچے گھڑے پر پار اترتی ہے

کبھی محفوظ کشتی میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں

فرید پربتی

انگنت سفینوں میں دیپ جگمگاتے ہیں

رات نے لٹایا ہے رنگ و نور پانی پر

عقیل نعمانی

دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی

کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا

ملک زادہ منظور احمد

اچھا یقیں نہیں ہے تو کشتی ڈبا کے دیکھ

اک تو ہی ناخدا نہیں ظالم خدا بھی ہے

قتیل شفائی

کشتئ اعتبار توڑ کے دیکھ

کہ خدا بھی ہے نا خدا ہی نہیں

فانی بدایونی

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

قمر جلالوی

سرک اے موج سلامت تو رہ ساحل لے

تجھ کو کیا کام جو کشتی مری طوفان میں ہے

مصحفی غلام ہمدانی

کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ

ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں نا خدا کے ساتھ

عبد الحمید عدم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے