aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہولی پر اشعار

ہولی موسم بہار میں منایا

جانے والا ایک مقدس مذہبی اور عوامی تہوار ہے۔ اس دن لوگ ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر محظوظ ہوتے ہیں، گھروں کے آنگن کو رنگوں سے سجایا جاتا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب ہولی کے مختلف رنگوں سے مزین ہے ۔ جس میں ہندوستان کے عوامی سروکار اور اتحاد باہمی کی فضا ہموار ہے ۔ یہ انتخاب پڑھیے اور دوستوں کو شریک کیجیے۔

گلابی گال پر کچھ رنگ مجھ کو بھی جمانے دو

منانے دو مجھے بھی جان من تیوہار ہولی میں

بھارتیندو ہریش چندر

تیرے گالوں پہ جب گلال لگا

یہ جہاں مجھ کو لال لال لگا

ناصر امروہوی

منہ پر نقاب زرد ہر اک زلف پر گلال

ہولی کی شام ہی تو سحر ہے بسنت کی

لالہ مادھو رام جوہر

سجنی کی آنکھوں میں چھپ کر جب جھانکا

بن ہولی کھیلے ہی ساجن بھیگ گیا

مصور سبزواری

ساقی کچھ آج تجھ کو خبر ہے بسنت کی

ہر سو بہار پیش نظر ہے بسنت کی

افق لکھنوی

موسم ہولی ہے دن آئے ہیں رنگ اور راگ کے

ہم سے تم کچھ مانگنے آؤ بہانے پھاگ کے

مصحفی غلام ہمدانی

غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے

ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ

امام بخش ناسخ

اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ

اور ہی لایا فراق یار رنگ

امام بخش ناسخ

مجھ کو احساس رنگ و بو نہ ہوا

یوں بھی اکثر بہار آئی ہے

حبیب احمد صدیقی

وہ تماشا و کھیل ہولی کا

سب کے تن رخت کیسری ہے یاد

فائز دہلوی

بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے

گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے

جلیل مانک پوری

ہولی کے اب بہانے چھڑکا ہے رنگ کس نے

نام خدا تجھ اوپر اس آن عجب سماں ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

پورا کریں گے ہولی میں کیا وعدۂ وصال

جن کو ابھی بسنت کی اے دل خبر نہیں

کلب حسین نادر

بادل آئے ہیں گھر گلال کے لال

کچھ کسی کا نہیں کسی کو خیال

رنگیں سعادت یار خاں

ڈال کر غنچوں کی مندری شاخ گل کے کان میں

اب کے ہولی میں بنانا گل کو جوگن اے صبا

مصحفی غلام ہمدانی

کس کی ہولی جشن نو روزی ہے آج

سرخ مے سے ساقیا دستار رنگ

امام بخش ناسخ

وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اس کے بعد

کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں

انور شعور

مہیا سب ہے اب اسباب ہولی

اٹھو یارو بھرو رنگوں سے جھولی

شیخ ظہور الدین حاتم

کب تک چنری پر ہی ظلم ہوں رنگوں کے

رنگریزہ تیری بھی قبا پر برسے رنگ

سوپنل تیواری

سانس لیتا ہوا ہر رنگ نظر آئے گا

تم کسی روز مرے رنگ میں آؤ تو سہی

عزیز نبیل

تو بھی دیکھے گا ذرا رنگ اتر لیں تیرے

ہم ہی رکھتے ہیں تجھے یاد کہ سب رکھتے ہیں

اقبال خاور

سیکڑوں رنگوں کی بارش ہو چکے گی اس کے بعد

عطر میں بھیگی ہوئی شاموں کا منظر آئے گا

عزیز نبیل

میں نے کچھ رنگ اچھالے تھے ہواؤں میں نبیلؔ

اور تصویر تری دھیان سے باہر آئی

عزیز نبیل

بہت ہی خشکی میں گزری ہے اس برس ہولی

گلہ ہے تجھ سے کہ گیلا نہیں کیا مجھ کو

صابر آفاق

وہ کودتے اچھلتے رنگین پیرہن تھے

معصوم قہقہوں میں اڑتا گلال دیکھا

محمد اعظم

شب جو ہولی کی ہے ملنے کو ترے مکھڑے سے جان

چاند اور تارے لیے پھرتے ہیں افشاں ہاتھ میں

مصحفی غلام ہمدانی

سب کا الگ انداز تھا سب رنگ رکھتے تھے جدا

رہنا سبھی کے ساتھ تھا سو خود کو پانی کر لیا

راگھویندر دیویدی

سہج یاد آ گیا وہ لال ہولی باز جوں دل میں

گلالی ہو گیا تن پر مرے خرقہ جو اجلا تھا

ولی عزلت

باد بہار میں سب آتش جنون کی ہے

ہر سال آوتی ہے گرمی میں فصل ہولی

ولی عزلت

لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا

بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں

شاہ نصیر

کتنی رنگینیوں میں تیری یاد

کس قدر سادگی سے آتی ہے

فرید جاوید

میں دور تھا تو اپنے ہی چہرہ پہ مل لیا

اس زندگی کے ہاتھ میں جتنا گلال تھا

امیر قزلباش

وہ آئے تو رنگ سنورنے لگتے ہیں

جیسے بچھڑا یار بھی کوئی موسم ہے

فرحت زاہد

میرے عناصر خاک نہ ہوں بس رنگ بنیں

اور جنگل صحرا دریا پر برسے رنگ

سوپنل تیواری

ادھر بھی اک نظر اے جلوۂ رنگین و بیگانہ

طلوع ماہ کا ہے منتظر میرا سیہ خانہ

ادا جعفری

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے