Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خاموشی پر اشعار

خاموشی کو موضوع بنانے

والے ان شعروں میں آپ خاموشی کا شور سنیں گے اور دیکھیں گے کہ الفاظ کے بے معنی ہوجانے کے بعد خاموشی کس طرح کلام کرتی ہے ۔ ہم نے خاموشی پر بہترین شاعری کا انتخاب کیا ہے اسے پڑھئے اور خاموشی کی زبان سے آگاہی حاصل کیجیے ۔

جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا

چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری

جگر مراد آبادی

آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے

ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں

جلیل مانک پوری

رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے

ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں

ناظر وحید

چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز

جو میرے سینہ میں اک روز خامشی ہوئی تھی

سالم سلیم

سبب خاموشیوں کا میں نہیں تھا

مرے گھر میں سبھی کم بولتے تھے

بھارت بھوشن پنت

میری خاموشیوں میں لرزاں ہے

میرے نالوں کی گم شدہ آواز

فیض احمد فیض

اسے بے چین کر جاؤں گا میں بھی

خموشی سے گزر جاؤں گا میں بھی

امیر قزلباش

میں تیرے کہے سے چپ ہوں لیکن

چپ بھی تو بیان مدعا ہے

احمد ندیم قاسمی

چھیڑ کر جیسے گزر جاتی ہے دوشیزہ ہوا

دیر سے خاموش ہے گہرا سمندر اور میں

زیب غوری

زور قسمت پہ چل نہیں سکتا

خامشی اختیار کرتا ہوں

عزیز حیدرآبادی

ہر ایک بات زباں سے کہی نہیں جاتی

جو چپکے بیٹھے ہیں کچھ ان کی بات بھی سمجھو

محشر عنایتی

ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں

اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر

احمد عطا

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

جون ایلیا

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

جون ایلیا

علم کی ابتدا ہے ہنگامہ

علم کی انتہا ہے خاموشی

فردوس گیاوی

تمہارے خط میں نظر آئی اتنی خاموشی

کہ مجھ کو رکھنے پڑے اپنے کان کاغذ پر

یاسر خان انعام

بہت گہری ہے اس کی خامشی بھی

میں اپنے قد کو چھوٹا پا رہی ہوں

فاطمہ حسن

خموشی سے ادا ہو رسم دوری

کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

جون ایلیا

تمام شہر پہ اک خامشی مسلط ہے

اب ایسا کر کہ کسی دن مری زباں سے نکل

ابھیشیک شکلا

چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے

لو خموشی بھی شکایت ہو گئی

اختر انصاری اکبرآبادی

ٹوٹتے برتن کا شور اور گونگی بہری خامشی

ہم نے رکھ لی ہے بچا کر ایک گہری خامشی

سالم سلیم

بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی

خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا

اجمل صدیقی

خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی

کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا

آرزو لکھنوی

محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے

خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے

عرش ملسیانی

وہ بولتا تھا مگر لب نہیں ہلاتا تھا

اشارہ کرتا تھا جنبش نہ تھی اشارے میں

اقبال ساجد

صوت کیا شے ہے خامشی کیا ہے

غم کسے کہتے ہیں خوشی کیا ہے

فرحت شہزاد

یہ حاصل ہے مری خاموشیوں کا

کہ پتھر آزمانے لگ گئے ہیں

مدن موہن دانش

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ

دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے

احمد فراز

شور جتنا ہے کائنات میں شور

میرے اندر کی خامشی سے ہوا

کاشف حسین غائر

باقیؔ جو چپ رہوگے تو اٹھیں گی انگلیاں

ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو

باقی صدیقی

خموشی میں ہر بات بن جائے ہے

جو بولے ہے دیوانہ کہلائے ہے

کلیم عاجز

خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا

ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا

ساقی فاروقی

جو چپ رہا تو وہ سمجھے گا بد گمان مجھے

برا بھلا ہی سہی کچھ تو بول آؤں میں

افتخار امام صدیقی

ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

ایک دن میری خامشی نے مجھے

لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا

انجم سلیمی

مری خاموشیوں پر دنیا مجھ کو طعن دیتی ہے

یہ کیا جانے کہ چپ رہ کر بھی کی جاتی ہیں تقریریں

سیماب اکبرآبادی

میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی

ہزار شیوۂ حسن بیاں کے ہوتے ہوئے

افتخار عارف

خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے

اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا

محمد علی ساحل

کیا بتاؤں میں کہ تم نے کس کو سونپی ہے حیا

اس لئے سوچا مری خاموشیاں ہی ٹھیک ہیں

اے آر ساحل علیگ

وحشتؔ اس بت نے تغافل جب کیا اپنا شعار

کام خاموشی سے میں نے بھی لیا فریاد کا

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

خموشی دل کو ہے فرقت میں دن رات

گھڑی رہتی ہے یہ آٹھوں پہر بند

لالہ مادھو رام جوہر

سنتی رہی میں سب کے دکھ خاموشی سے

کس کا دکھ تھا میرے جیسا بھول گئی

فاطمہ حسن

نکالے گئے اس کے معنی ہزار

عجب چیز تھی اک مری خامشی

خلیل الرحمن اعظمی

ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی

رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے

بھارت بھوشن پنت

چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ

یہ کیا روگ لگا رکھا ہے

ناصر کاظمی

دور خاموش بیٹھا رہتا ہوں

اس طرح حال دل کا کہتا ہوں

آبرو شاہ مبارک

عجیب شور مچانے لگے ہیں سناٹے

یہ کس طرح کی خموشی ہر اک صدا میں ہے

عاصم واسطی

خاموشی میں چاہے جتنا بیگانہ پن ہو

لیکن اک آہٹ جانی پہچانی ہوتی ہے

بھارت بھوشن پنت

میری عرض شوق بے معنی ہے ان کے واسطے

ان کی خاموشی بھی اک پیغام ہے میرے لیے

معین احسن جذبی

جب خامشی ہی بزم کا دستور ہو گئی

میں آدمی سے نقش بہ دیوار بن گیا

ظہیر کاشمیری

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے